جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطین تاریخ کے آئینے میں

بدھ 5-مئی-2010

وہ ارض مقدس جسے انبیاء کرام کا مدفن ہونے کا شرف حاصل ہے جس کے اردگرد برکت ہی برکت کا نزول ہے، جہاں سے پیغمبر آخرالزماں حضرت محمدۖ روح القدس کے ہمراہ سفر معراج کیلئے پابرکاب ہوئے۔

جس دھرتی پر سید الثقلینۖ نے نبیوں کی امامت کرا کے امام الابنیاء ۖ کا لقب پایا،جی ہاں وہی عظمت و شوکت زیتون کے درختوں سے آراستہ و پیراستہ سرسبز و شاداب بقعہ ارضی جہاں اسلام کی عظمت رفتہ ار جنت گم گشتہ کا نشان قبلہ اول کی صورت میں موجود ہے ، جس کے فاتح اول فاروق اعظم رضی اللہ عنہ تھے جس کے درودیوار نے ایوبی کی تکبیرسنی تھی،جہاں خیر کا نور پھیلانے والوں اور شر کی تاریکی میں اضافہ کرنے والوں کے درمیان آخری مگر عظیم معرکے کا میدان سج چکا ہے۔آج وہ فلسطین طاغوتی قوتوں کے زیر نگیں ہے۔”مغضوبین ”،”ضالین ”کا گروہ گزشتہ چھ عرشوں سے مسلمانان فلسطین جا نی، مالی اور اقتصای استحصال میں مصروف ہیں۔

”بھٹکی مادیت”نے اپنے طرز فکرو سوچ اور بوالہوسی کا راگ اس طرح سے الاپا ہے کہ غیر تو غیر ”اپنے”بھی اس بھنورمیں غوط زن ہیں۔ فکر معاش ،تعیش پسندی اور شکم سیری کی زنجیروں میں ایسے جکڑے ہیں کہ اپنے آقا دو عالم ۖ کے ارشاد کو ایسے بھلا بیٹھے ہیں جس میں آپ ۖ نے مسلمانوں کو اجتماعیت کی تشبیہ ایک جسم سے دی تھی، بدن کے ایک عضو میں تکلیف والم پورے وجود میں سرایت کرتی اور محسوس ہوتی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ عالم اسلام کے اس رستے ناسور پر کوئی اینکر پرسن کوئی وزیر مشیر اور کوئی صاحب منصب و جاہ امت کی منشر سوچ کو مجتمع ، منظم اور مربوط نہیں کرتا؟ آئیے اسی چبھتے سوا ل کے جواب کے تناظر میں ”بقعہ نور ”کی قدیم تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں شائد جو ہمارے ”خوابیدہ”دلوں کو بیدار کرنے میں قوت عمل مہیا کر جائے۔!

محل وقوع کے اعتبار سے فلسطین براعظم ایشیا ء کے مغرب میں بحر متوسط کے جنوبی کنارے پر واقع ہے اس علاقے کو آج کل مشرق وسطیٰ بھی کہا جاتا ہے، شمال میں لبنان اور جنوب میں خلیج عقبہ واقع ہے، جنوب مغرب میں مصر اور مشرق میں شام اور اردن سے اس کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں۔ جبکہ مغرب میں بحر متوسط کا طویل ساحل ہے، فلسطین کا رقبہ حنفہ اور غزہ سمیت ستائس ہزار کلومیٹر پر مشتمل ہے۔

فلسطین کے طبعی جغرافیائی علاقوں میں فلسطین کا طویل ساحل جو ناقورہ سے لیکر رفح تک جنوب میں پھیلا ہوا ہے سرفہرست ہے جس کا عرض سولہ سے اٹھارہ کلومیٹرتک ہے۔اس ساحل کے مشہور شہروں میں طولکرم، خان یونس، رام اللہ، عکا، حیفا ، یافااور غزہ شامل ہیں۔اسرائیل نے اپنا دارلحکومت بھی یافا کے شمال میں بنایا ہے، جبکہ پہاڑی سلسوں میں نابلس، کرمل ، الخلیل اور القدس کے پہاڑی علاقے مشہور ہیں۔واضح رہے کہ خلیل پہاڑ کے دامن میں الخلیل شہر آباد ہے جس کے بارے میں کہا جاتاہے کہ حضرت ابراہم علیہ السلام یہاں مدفون ہیں۔

علاوہ ازیں قدس کے پہاڑوں میں سب سے اونچا پہاڑ جبل طور ہے  جس میں بیت المقدس کا علاقہ واقع ہے ، مسجد اقصیٰ اور قبتہ الصخرہ بھی اسی شہر کی زینت و رونق ہیں۔میدانی علاقوں میں نقب اور اغوار کے علاقے شامل ہیں، اغوار فلسطین کا مشرقی علاقہ سے جسے دریائے اردن کاٹتا ہے اور بحر میت بھی اسی کے کنارے واقع ہے اور اس میں اریحا نامی شہر واقع ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا کا قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے۔

فلسطین اپنے ابتدائی دور میں کنعانیوں کا مرکز رہا ہے ان علاقوں میں جتنے بھی قدیم شہر تھے وہ کنعانیوں نے ہی آباد کیے تھے، کنعانی قبیلے کی اہم شاخ ببوسی قبیلے نے القدس شہر بسایا تھا۔کنعانی دور کے بعد عبرانی دور کی باری آتی ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ارض قدس کنعان کی طرف ہجرت فرمائی بعد میں حضرت یوسف علیہ السلام کے ذریعے آپ کی اولاد مصر کی حکمران بنی، پھر بتدریج قبطی ان پر غالب آئے اور حضرت موسی ٰ علیہ السلام نے انہیں مصر سے نکالا۔ حضرت موسی ٰ علیہ السلام کے بعد حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں ان عبرانیوں نے کنعان کو فتح کیا یہاں سے عبرانی دور کا آغاز ہوا ، عبرانیوں کے حکمرانوں میں دو جلیل القدر پیغمبرحضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام بھی گزرے ہیں۔
”بلست ”نامی قبیلہ مغرب سے جنگ زدرہ ہو کر نکلا، اس نے اس علاقے کے ساحلی علاقوں یافا سے غزہ تک قبضہ کر لیا ، اس قبیلے نے اپنے مقبوضہ علاقے کا نام اپنے نام سے موسوم کر کے فلسطین رکھ دیا اور یہ نام ایسا غالب رہا کہ آج تک اس سارے علاقے کو فلسطین ہی پکارا جاتا ہے۔ان نووارد فلسطینیوں اور عبرانیوں کے مابین کئی جنگیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں حضرت داؤد علیہ السلام نے ان کے سردار جالوت کو قتل کر دیا جس کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ہے
538ق م میں فارس کے ایک بادشاہ نے شام کے پورے علاقے بشمول فلسطین پر قبضہ کر لیا ، فارس کی حکومت 332ق میں یہاں سے ختم ہو گئی۔332ق م میں ہی مقدومی بادشاہ سکندر اعظم نے یہ علاقہ فارسیوں سے ہتھیا لیا ، اس کی موت کے بعد اس کے جانشینوں نے یہاں یونانی ثقافت و تہذیب کو پروان چڑھانے کی سرتوڑ کوشش کی ، اس مقصد برآوری کی خاطر انہوں نے کئی شہر آباد کیے، مدارس کھولے یونانی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا، لیکن اکثر علاقوں میں سربانی زبان و تہذیب کو لوگوں نے حرزجان بنائے رکھا۔63ق م میں روم کے مشہور قائد ”بومبی ”نے یونانیوں کا زو ر فلسطین میں توڑ ڈالا۔پھر یہ علاقہ رومیوں کے پاس رہا ، یہاں تک کہ 636ء میں اسلام کا جھنڈا اس علاقے میں لہرایا۔اس دور کی اہم خصوصیات میں چند اہم یہ ہیں۔

1۔حضرت مسیح علیہ السلام کا ظہورہوا

یہودیوں کو دو مرتبہ شکست ہوئی، پہلی مرتبہ 70ء میں تبطس رومی کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوئے اور دوسری دفعہ 135ء میںجب یہود نے دوباہ منظم ہونے کی کوشش کی۔اس دور کے رومی بادشاہ ”معادریان”نے خود حملہ آور یہودیوں کو مختلف علاقوں میںجلا وطن کیا اب دو ہزار سال بعد اس دھتکاری ہوئی قوم کو فلسطین میں اپنے قدم جمانے کا موقع ملا۔

فلسطین کی اہمیت اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے بہت زیادہ ہے کہ ابتدائے اسلام میں یہ ان کا قبلہ اول رہا ہے۔اسی لیے رومیوں کے ساتھ معرکے جناب نبی ۖ کی حیات طیبہ ہی میں شروع ہو گئے تھے۔سرور دو عالم ۖ نے اپنا آخری لشکر جیش اسامہ رومیوں کے مقابلے کیلئے ترتیب دیا ہی تھا کہ آپ ۖ اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔آپۖ کے بعد حضرت ابوبکرصدیق نے اسے روانہ کیا۔ارتداد کی مہم سے فارغ ہو کر خود بھی اس جانب توجہ دی۔یہاں تک کہ 61ھ میں حضرت عمر فاروق کے دورخلافت میں بیت المقدس مسلمانوں کے زیر قبضہ آ گیا۔
چھٹی ھجری میں بلاد اسلامیہ پر صلیبیوں نے حملہ کیا جس کے نتیجے میں فلسطین میں صلیبی حکومت قائم کر لی گئی۔طاقت اور قوت کے بل بوتے پر ستر ہزار مسلمانوں کو تہہ و تیغ کر ڈالا۔لیکن صلیبیوں کی یہ حکومت دیر پا نہ ثابت ہو سکی۔ مشہورمجاہد صلاح الدین ایوبی نے جلد ہی بیت المقدس کو یہودی پنجہ استبداد سے آزاد کرا لیا۔27رجب 538ہجری کو بیت المقدس دوبارہ تکبیر کے زمزموں سے گونج اٹھا۔

جس وقت عالم اسلام کو استعماری طاقتوں نے اپنی سازشوں کا ہدف بنایا اورفلسطین کی سرزمین برطانیہ کے استعماری قبضے میں آنے لگی تو مکار اورشاطر یہودیوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر اس خطے کے حصول کی خاطر کوششیں تیز کردیں۔1839ء میں سب سے پہلا مغربی سفارتخانہ جو بیت المقدس میں کھلا وہ حکومت برطانیہ کا تھا، جس کا واحد مقصد یہودیوں کی خدمت گزاری تھا۔اس کے ساتھ ہی پوری دنیا سے یہودیوں کو بیت المقدس میں جمع کرنا شروع کر دیا گیا۔اس وقت پورے فلسطین میں صرف نو ہزار کے قریب یہودی تھے۔

1895ء میں ایک یہودی مفکر ”النمساوی ہیرتسل”نے ایک کتاب شائع کی جس کا عنوان تھا ”یہودی مملکت”جس میں اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ یہودی قوم کو ایک حکومت کی ضرورت ہے اس مقصد کے لیے فلسطین سے بہتر کوئی جگہ ان کی نظر میں نہیں تھی۔اس دور میں یہودیوں کی عالمی سطح پر دو بڑی کانفرنسیں ہوئیں۔ پہلی کانفرنس1897ء اور دوسری1898ء میں ، جن کا حاصل یہ تھا کہ یہود اپنے قدیم وطن فلسطین کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے منظم ہو جائیں چونکہ فلسطین خلافت عثمانیہ کا ایک حصہ تھا اور وہی اس کے مالک و متصرف تھی۔اس کے مقابلے کیلیے قوم یہود نے ہر طرح کے حربے استعمال کرنا شروع کر دئیے۔
خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کواپنے دام تزویر میں پھنسانے کیلیے انہوں نے مختلف سطحوں پر سازباز شروع کی، جس میں بھاری رقوم دیکر ترکوں کو خریدا گیا ،خود خلیفہ عبدالحمید کو لالچ دیے گئے، یہاں تک کہ ترکیوں کے یہودیوں کا ایک وفد سلطان سے ملا اور ان کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ فلسطین اگر یہودیوں کو دیا جائے تو اس کے بدلے ہم خلافت عثمانیہ کے ماحت رہ کر خلافت کے سارے قرضے اتار دیں گے ، جواب میں سلطان نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر ان کو دیکھایا اور فرمایا،”اگرفلسطین اتنا حصہ بھی تم لینا چاہو گے توتم کو نہیں ملے گا”سلطان کے جواب سے مایوس ہو کر اللہ کے غضب سے ماری ہوئی اس قوم نے ان کی شہرت عام کو بگاڑنے کی کوشش شروع کر دی ،چونکہ ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کی اجارہ داری تھی اس لیے اس ہتھیار سے کام لیکر سلطان پر ”رجعل پسندی اور نسل پرستی ”جیسے بے بنیاد الزامات کا سلسلہ شروع کر دیا۔

نتیجتاً خلافت عثمانیہ میں قومی نعروں کو فروغ ملا۔ 1909ء میں سلطان عبدالحمید کا انتقال ہواتو گویا اس دن سے اسرائیل کے وجود کی بنیاد پڑ گئی، حکومت میں صہیونیت نواز لوگوں کا ایک ایسا طبقہ موجود تھا جو برابر یہودیوں کو فلسطین منتقل کرنے میں مدد دیتا رہا،یہاں تک کہ 1857ء میں ان کی تعداد پچاس ہزار تھی اور یہی تعداد 1914ء میں پچاسی ہزار ہو گئی۔یہود ایک مالدار قوم تھے ، ہر بڑے بڑے بیوپاریوں اور ساہوکاروں کی صورت میں موجود تھے، جس کی وجہ سے ملک کی سیاست اور معاملات پر ان کا اثر انداز ہونا کوئی تعجب خیز امر نہیں تھا۔انہوں نے خلافت عثمانیہ کو ہر طرح اورہر سطح پر دباؤ میں رکھنے کی کوشش کی اور دنیا کو باور کرایا کہ فلسطین کا حصول یہودیوں کے لیے ناگزیر ہے، لیکن خلافت عثمانیہ ان کے باطل عزائم اور ارادوں کے سامنے سد سکندری ثابت ہو رہی ہے۔

چنانچہ اس بے حقیقت مفروضے کی بنیاد پر حکومت مصر کے توسط سے صحرائے سیناء میں یہودیوں کو بسانے کی ایک بار پھر کوشش کی گئی جس میں وہ ناکام ہوئے ۔ اس کے بعد د نیا کی سیاست میں کچھ ایسے حالات آئے جو فلسطین میں بدی کی ”نمائندہ قوم”کے قیام کی راہ ہموار کرتے چلے گئے جن میں چار حالات کو بطور خاص ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے۔

1۔ عالمی جنگوں کو وقوع پذیر ہونا
2۔ ہٹلر کے ہاتھوں یہودیوں کا قتل عام جس سے وہ دنیا کو اپنی مظلومیت ثابت کر پائے۔
3۔  خلافت عثمانیہ کا سقوط
4۔ فلسطین کا برطانوی استعمارکے زیر دست جانا

آخر الذکر سبب کے تحت برطانوی استعما ر نے یہودیوں کو فلسطین میں بسانے کیلیے حتی المقدور تعاون کیا۔مقامی باشندوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا، یہودی بستیاں آباد کی گئیں ، تل ابیب کو مضبوط کیا ، یہودیوں کے استحکام سے مطمئن ہو کر خود 14مئی 1948کو فلسطین سے نکلنے کا اعلان کیا، جاتے جاتے اہم مقامات ، سرکاری دفاتر ، ہوائی اڈے یہودیوں کو بطور بخشش دے گئے ، جبکہ مسلمانوں کا جانی ، مالی اور اقتصادی استحصال کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں کچھ قتل ہوئے اور کچھ ہجرت پر مجبور ہو گئے۔

یوں 15مئی 1948ء کو اسرائیلی مملکت کا اعلان قیام ہوا، جسے چند ہی لمحوں میں امریکا،روس اور یورپ نے تسلیم کیا۔ اسلام کے دعویدار ترکی اور شاہ ایران نے یہ ناجائز ریاست تسلیم کر کے اپنے خبث باطن پر مہر تصدیق ثبت کی

بشکریہ روزنامہ اسلام

 

لینک کوتاه:

کپی شد