امریکی دورے کے بعد آرمی چیف کھل کر بولنے لگے ہیں اور کئی موضوعات کو بیک وقت موضوع گفتگو بنا رہے ہیں۔ کراچی کی ا ٓئیڈیاز کانفرنس کی مناسبت سے بھی انکے ذہن میں ایک سے ایک بڑھ کر آئیڈیا آیا اور انہوں نے ان کا اظہار بھی بلا کم و کاست کر دیا، اس تقریر پر میرا یہ مسلسل تیسرا کالم ہے اور لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں عمران خان کوئی وکٹ گرانے میں کامیاب نہ ہو سکے تو مجھے آرمی چیف ہی کے خیالات عالیہ پر خامہ فرسائی جاری رکھنا پڑے گی۔
خود کش بمبار بننے کا گر انہی فلسطینیوں نے استعمال کیا، اس سے پہلے وہ غلیلوں سے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ کرتے رہے۔ فلسطینیوں کے جتنے ہمدرد ملک تھے، وہ بھی بار بار اسرائیل کے ہاتھوں رسوا کن شکست سے دوچار ہوتے رہے، اسرائیل نے ظلم کی ہر حد پار کرتے ہوئے مسجد اقصی کو نذر آتش کر دیا، اس دلدوز سانحے پر غورو خوض کے لئے اسلامی کانفرنس کا ایک ہنگامی اجلاس مراکش میں ہوا تو عربوں نے اس میں بھارت کے وزیر خارجہ کو بھی مدعو کر لیا، ہم یحییٰ خان کو ساری زندگی بھی گالیاں دیتے رہیں تو ان کی ایک نیکی ان سب پر بھاری ہے، وہ اسلامی انا اور غیرت کا ایک مجسمہ اور پہاڑثابت ہوا، اس نے اسلامی کانفرنس کا بائیکاٹ کر دیا اور اپنے وفد کو واپسی کے سفر کے لئے سامان باندھنے کا حکم دے دیا۔
اس ضد یا غیرت کے سامنے عرب ملکوں کی سٹی گم ہو گئی اور انہوںنے بھارتی نمائندے کو اجلاس سے نکال دیا۔ فلسطین کے لئے پاکستان کی کوئی ایک نیکی میرے ذہن میں محفوظ ہے تو وہ یہی ہے۔ورنہ ہمارے ایک اور قومی لیڈر اور فوجی صدر ضیاالحق ایک زمانے میں اردن میں خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس دوران وہاں فلسطینی مہاجروں نے اپنے مسائل کی طرف توجہ دلانے کے لئے جلوس جلسہ کرنے کی کوشش کی تو شاہ اردن کی وفاداری کے طور پر بریگیڈیئر ضیاا لحق نے فلسطینیوں کا مار مار کر بھرکس نکال دیا۔ ہم نے ساری عمر یاسر عرفات کی مخالفت کی کیونکہ وہ پاکستان کے بجائے بھارت کی طرف زیادہ جھکاﺅ رکھتا تھا، صرف اس لئے کہ اسکی ا ٓنکھوں کے سامنے بریگیڈیئر ضیاالحق نے فلسطینی بچوں کا کچومر نکال کر رکھ دیا تھا۔
اور ذرا ان عربوں کے حال پر بھی نظر ڈالتے چلئے جنہیں فلسطینی کاز بہت عزیز تھا، یہ ملک دولت سے لدے پھندے تھے مگر اسرائیل کے سامنے وہ بکری بن گئے، اردن اس لڑائی میں غرب اردن کا علاقہ گنوا بیٹھا، مصر کے صحرائے سینائی کا وسیع علاقہ اسرائیل کے قبضے میں چلا گیا، لبنان مار کھا کھا کر ادھ موا ہو گیا اور شام کو گولان کی چوٹیوں سے ہمیشہ کے لئے محروم ہونا پڑا، اب یہ سارے عرب ملک اپنی دولت اور اسرئیل کے ہاتھوں لگنے والے زخم چاٹ رہے ہیں۔
امریکہ میں نائن الیون ہوا توا س میں مبینہ طور پر ملوث ہونے والے نوجوانوں کا تعلق عالم عرب سے تھا۔ بلکہ زیادہ تر سعودی شہری تھے۔نیویارک میں گراﺅنڈ زیرو پر پہلی دعائیہ تقریب میں ایک سعودی شہزادے نے سانحے میں مرنے والوں کے لئے خطیر رقم کا چیک پیش کیامگر ساتھ ہی تلقین کی کہ اگر امریکہ فلسطین کے مسئلے سے بے اعتنائی اختیار نہ کرے تو ایسے حادثات نہیں ہو سکتے، نیویارک کے میئر جولیانی نے اس سعودی شہزادے کا وعظ سننے اور چیک قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
فلسطین کا مسئلہ عالمی ضمیر کے منہ پر طمانچہ ہے اور پاکستان جیسی پہلی اور واحد مسلم ایٹمی طاقت کے لئے ایک چیلنج۔عرب ملکوں میں نہ پہلے دم خم تھا ، نہ اب ہے ، پتہ نہیں ہم کب اپنا دم خم دکھائیں گے۔ جب ہم نے ایٹمی دھماکہ کیا تھاتو ہم نے دعوی کیا تھا کہ یہ عالم ا سلام کی تقویت کا باعث بنے گا۔ مگر اس ایٹم بم کے بننے کے بعد سے ہم کئی قسم کی آویزشوں کا شکار ہو گئے ہیں بلکہ بنا دیئے گئے ہیں تاکہ سر اٹھانے کے قابل ہی نہ رہیں۔ فلسطین تو بہت دور ہے، ہم تو اپنی دہلیز پر کشمیر کا مسئلہ حل نہیں کرا سکے۔ یہ جو چھوٹا سا علاقہ آزاد کشمیر کے نام سے عالمی نقشے پر موجود ہے، اس کے لئے ہمیں قبائلی لشکر کا مرہون منت ہونا چاہئے۔ اس کے بعد سے ہم نے آزاد کشمیر کے علاقے بھی ہاتھ سے نکلوائے، ایک جنگ میں کارگل چلا گیا، دوسری جنگ میں سیاچین،پاکستان کی فوج کو کوئی ان علاقوں کی بازیابی کی اجازت دینے کو تیار نہیں، نواز شریف ریکارڈ پر ہیں کہ سیاچین سے ہمیں یک طرفہ طور پر فوج نکال لینی چاہیئے، ضیاالحق نے کہا تھا کہ اس علاقے میں تو گھاس تک نہیں اگتی، کارگل کا علاقہ واپس لینے کے لئے پاک فوج نے کاروائی کی تو میاں نواز شریف کی حکومت اس مہم کی مخالفت پر اترا ٓئی۔ظفراللہ جمالی ابھی حیات ہیں ، ان سے پوچھا جائے کہ انہوں نے کنٹرول لائن پر یک طرفہ جنگ بندی کا فیصلہ کیوں کیا تھا، کیا اس فیصلے سے کشمیر کا مسئلہ حل ہو گیا۔
نہیں جناب، اس فیصلے نے بھارتی فوج کو موقع فراہم کیا کہ وہ بین الاقوامی سرحد کی طرح کنٹرول لائن پر بھی خاردار باڑ لگالے ، جب تک یک طرفہ سیز فائر نہیں ہوئی تھی تو پاک فوج اور رینجرز کی طرف سے بھارتی فوج کی ان کوششوں کی سخت مزاحمت کی جاتی تھی، ظفراللہ جمالی کے اعلان سیز فائر نے فوج اور رینجرز کے ہاتھ پاﺅں باندھ دیئے اور بھارت اب مقبوضہ کشمیر کو آہنی سلاخوں اور خاردار تاروں کے جال میں جکڑ چکا ہے، دیوار برلن تو صرف ایک شہر کے درمیان تھی جسے دنیا قبول کرنے کو تیار نہ ہوئی مگر کنٹرول لائن پر بھارتی فوج نے جو باڑ کھڑی کر دی ہے ،وہ کئی سو میل پر محیط ہے اور اس نے دونوں طرف کے لاکھوں کشمیری خاندانوں کو مستقل طور پر تقسیم کر دیا ہے۔اس کے لئے ظفراللہ جمالی کو داد اور دعادی جائے۔
اس صورت حال میں فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو کیسے حل کیا جائے، ہماری سیاسی جماعتیں کشمیر کے حل کے لیئے جو فارمولا تجویز کرتی ہیں، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اور وہ یہ ہے کہ کشمیر کو پس پشت ڈال دو اور بھارت سے دوستی کرو، شاید یہی سبق عربوں کو بھی پڑھایا جاتا ہو کہ فلسطین کے مسئلے کو بھول جاﺅ اور اسرائیل سے دوستی کی پینگیں جھولو۔اس کے علاوہ اگر کسی کے ذہن میں کوئی فارمولا ہو تو مجھے ضرور مطلع فرمایئے گا۔ جنرل راحیل سے بھی یہی درخواست ہے۔
بشکریہ روزنامہ "نوائے وقت”