جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطین اسرائیل تنازعہ اور نئی قیادت

پیر 24-نومبر-2008

ین الاقوامی تعلقات میں طاقت کے توازن کو خاص اہمیت حاصل ہے- اس توازن کے لئے جس طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اس میں عسکری،معاشی،تعلیمی،ثقافتی،مالی،قدرتی وسائل اور انسانی آبادی کو خاص مقام حاصل ہے جو ریاستیں طاقت کے ان عناصر سے مالامال ہوتی ہیں اس کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آنے کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں اوراس کے برعکس،یہ طاقت ہی ہے جو قدیم زمانے سے سفر کرتی ہوئی آج کے جدید معاشرے میں بھی بعض اوقات انسانی تباہی کا سبب بن رہی ہے اس سے مقصود یہ نہیں کہ مذکورہ بالا عناصر غلط ہیں یا یہ ہمیشہ انسانی آبادی کے لئے نقصان کا باعث بنتے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ عناصر عموماً ریاستوں کے مقتدر حلقوں کو اس بات پر اکساتے ہیں کہ وہ اپنے وجود کو قائم رکھنے کے لئے کچھ ایسے اقدامات کریں جس سے ان کا بھرم قائم رہ جائے خواہ اس میں دوسروں کو نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے- فلسطین اسرائیل تنازعہ ہویا مسئلہ کشمیر جب بھی یہاں پر طاقت کا توازن خراب ہواتوان علاقوں کی آبادی کو نقصان اٹھانا پڑا اور یہ نقصان آج تک اٹھایا جا رہا ہے- جس پر عالمی برادری جو خوداس جرم میں شریک ہے نے چپ سادھ لی ہے-

اناپولس میری لینڈ (امریکہ) میں گزشتہ برس نومبر میں ہونے والی کانفرنس میں مشرق وسطی کے اہم رہنماؤں سمیت امریکہ کی قیادت میں اس بات پر اتفاق ہواتھا کہ 2008ء کے آخر تک دنیا کے نقشے پر فلسطین اور اسرائیل دوالگ ریاستوں کی صورت میں وجود میں آجائیں گی تاہم اس وقت بھی راقم کا مؤقف تھا کہ چونکہ جارج واکر بش کااقتدار ختم ہونے والا ہے تو وہ سماًاس معاملے کو اہمیت دے رہے ہیں حالانکہ ایک سال بعد بھی اس حوالے سے کچھ نہیں ہوااوراب تک کے آثار یہی بتارہے ہیں کہ امریکہ جس کا مشرق وسطی تنازع کے حل کے حوالے سے اگرچہ کلیدی کرداررہا ہے نے گزشتہ 60 سال سے اس مسئلہ کو حل کرنے میں کوئی اہم قدم نہیں اٹھایا ہے- اہم قدم سے مراد مسئلہ کا غیر جانبدارانہ حل اور مہاجر عربوں کو جواسرائیلی مظالم کے باعث ہجرت پر مجبور ہوئے تھے کہ واپس فلسطین میں آباد کرنا ہے لیکن زمینی حقائق یہی بتارہے ہیں کہ سال پہلے جو کچھ ہورہا تھا وہ آج بھی جاری ہے- لہذامعاملے نے جوں کا توں رہنا ہے اوراس سلسلے میں کوئی اہم پیش رفت مستقبل قریب میں ہونا فی الحال ممکن نہیں-

ادھراقوام متحدہ کی چھتری تلے گزشتہ دنوں بین المذاہب کانفرنس نیویارک میں منعقد ہوئی جس میں پاکستان، افغانستان، سعودی عرب، اردن، اسرائیل اور خود امریکہ کی قیادت نے شرکت کی اور اقوام عالم کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کیا- اس موقع پر اسرائیلی صدرشمعون پیریز نے سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ سے ملاقات بھی کی- ملاقات کے بعد اسرائیل کی جانب سے اس بات چیت کو اہم بریک تھروقرار دیا-

تل ابیب کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ شاہ عبداللہ نے جن امن تجاویز کا تذکرہ کیا ہے وہ مسلمان ممالک کے سابقہ روئیے سے بالکل مختلف ہے کیونکہ ماضی میں یہی کہا جاتارہا کہ اسرائیل کی غیرقانونی ریاست کو تسلیم نہیں کیاجائے گا- اسرائیلی قیادت کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوں گے اور یہ کہ امن کے سلسلے میں کوئی معاہدہ نہیں ہوگا لیکن اب امن تجاویز میں یہ چیز دیکھنے میں نہیں آئی واضح رہے کہ سعودی عرب کی جانب سے اس حوالے سے کوئی واضح تجاویز ذرائع ابلاغ کے حوالے سے سامنے نہیں آئی البتہ چند سال قبل ریاض حکومت نے یہ تجویز دی تھی کہ اگر اسرائیل 1967ء میں چھینے گئے علاقے واپس عربوں کے حوالے کردے تو خلیجی ممالک اس سے تعلقات قائم کرسکتے ہیں-
 
دریں اثناء مشرق وسطی میں خصوصی نمائندے اور سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اس موقع پر انٹرنیشنل ہیرلڈٹریبون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطی کے امن کے لئے مذہبی رواداری اہم کنجی ہے- اس سلسلے میں امن عمل بحال کرکے آزاد فلسطینی ریاست اور محفوظ اسرائیل کا خواب ممکن ہوسکتا ہے- یہ خواب توگزشتہ 60سال سے صہیونی دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین اور عرب کے حریت پسند مسلمان اپنے علاقوں پر یہودی جارحیت کے خلاف جاری جدوجہد کو کسی نہ کسی طور پر ختم کرے لیکن اسے اس سلسلہ میں کامیابی نہیں ملتی اور جہاں تک مذہبی رواداری کا تعلق ہے تو دنیا کا کون سا مذہب اس بات کا درس دیتا ہے کہ ہزاروں انسانوں کو قتل ،مضروب،اپاہچ اور گھروں سے بیدخل کرکے ان کی زمینوں پر قبضہ کرلیا جائے-

ٹونی بلیئر اور ان جیسے دیگر زرخرید سفیر،سیاست اور عسکری تجزیہ نگار اب بھی یہیں کہیں گے کہ مشرق وسطی تنازع کا حل بہت جلد نکلنے والا ہے اور نومنتخب امریکی صدرباراک حسین اوبامہ کو اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھنا ہوگا لیکن اوبامہ کوچھوڑیں بش اور اس سے پہلے بل کلنٹن،سینئربش اور ریگن وغیرہ تک کو بھی اول آفس میں بیٹھنے پر یہی کہا گیا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین کے بیج جودیرینہ تنازع ہے اسے جلد سے جلد حل کیاجائے لیکن وقت اورسال گزرتے گئے معاملہ موجود رہا جبکہ وائٹ ہاؤس کے مکین جاتے رہے اب جبکہ اوبامہ نے 4نومبر2008ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرلی ہے اور وہ20جنوری2009ء کو امریکہ کے  44ویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے-

توان پرلامحالہ یہ دباؤ ہوگا کہ وہ معاملہ کی سنجیدگی کو دیکھیں اور اوبامہ کو تو ویسے بھی انتخابات میں یہودیوں کے 78فیصد ریکارڈ ووٹ ملے ہیں- انہوں نے 22جولائی 2008ء کو انتخابی مہم کے سلسلے میں مشرق وسطی کا دورہ بھی کیا تھا- انتخابی مہم میں بھی وہ کئی باراپنے آپ کو اسرائیل کا بہترین دوست کہہ چکے ہیں اور ان کے لئے انتخابی ہمدردی کا اظہار کرچکے ہیں لیکن اس سب کے باوجود کدیما پارٹی کی سربراہ اور اسرائیل کی مستقبل قریب کی متوقع انتہا پسند خاتون وزیراعظم زیپی لیونی نے واضح طور پر نومنتخب امریکی صدر کو کہہ دیا ہے کہ وہ مشرق وسطی کے مذاکرات میں ٹانگ نہ اڑائیں لیونی نے یہ بات بین المذاہب کانفرنس کے موقع پر دورہ نیویارک کے دوران کہی تھی-

لیونی نے اوبامہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا’’ہم نے آپ سے مداخلت کے لئے نہیں کہا یہ دوطرفہ معاملہ ہے اور آپ کو اس سلسلے میں ہمارے بیچ حائل خلیج کو ختم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں میز پر اب کوئی نیا منصوبہ نہ رکھیں ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا ہے ہم ذمہ دار لوگ ہیں اوبامہ کو صرف اپنے ملک کے مالی،بحران پر توجہ دینی چاہیے‘‘لیونی کو اکتوبر میں ایہوداولمرٹ کے بطوروزیراعظم استعفی دینے پر حکومت سازی کی دعوت دی گئی تھی تاہم وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکیں- اب جبکہ اسرائیل میں عام انتخابات آئندہ سال 10فروری کو ہورہے ہیں-لیونی وزارت عظمی کے لئے ایک مضبوط امیدوار ہیں بطوروزیرخارجہ مصر کے ساحلی تفریحی مقام شرم الشیخ میں گزشتہ دنوں ہونے والی ملاقات کے نتائج سے وہ مطمئن تھیں اس اہم ملاقات میں فلسطین اور اسرائیل کی قیادت کے علاوہ امریکہ،روس،اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے نمائندوں نے شرکت کی-
 
لیونی نے نیویارک کی یوجے اے فیڈریشن کے سیمینار میں بھی اوبامہ اور امریکہ کے خلاف سخت رویہ اپنایا ان کے الفاظ تھے کہ ’’امریکہ اسرائیل کا دوست تھا لیکن نئی انتظامیہ کے آجانے کے بعد وہ اپنے مسائل امریکی میز پر نہیں رکھیں گے‘‘ اسرائیلی وزیرخارجہ کے اس بیباک بیانات پر فلسطینی قیادت بھی کچھ خوفزدہ ہوگئی ہے کہ لیونی جس ڈگر پر چلنے جارہی ہے اس سے تو امن عمل کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے اورایہوداولمرٹ نے کچھ عرصہ قبل 1967ء میں شام سے گولان کی پہاڑیاں چھیننے پراسے واپس دمشق کو دینے کا فیصلہ کیا تھا وہ معاملہ اب بھی کھٹائی میں جاتا ہوا محسوس ہورہا ہے- اسی طرح اسرائیلی جارحیت کے باعث مختلف اداور میں 45لاکھ فلسطینیوں کے بے گھر اور اردن شام اور لبنان میں پناہ لینے پر لیونی نے جو سخت مؤقف اپنایا وہ بھی فلسطینی قیادت کے لئے پریشان کن ہے کیونکہ لیونی نے کہا تھا کہ وہ برسراقتدار آنے پر ایک بھی مہاجر کو اسرائیل میں جگہ نہیں دیں گی- متوقع اسرائیلی وزیراعظم کے مستقبل کے ارادوں کے ساتھ ساتھ اگر موجودہ اسرائیلی حکومت اور فوج کی ظالمانہ کارروائیوں کی جانب دیکھیں تو وہ ماضی سے مختلف نہیں- اسرائیل آج بھی عربوں کی جدوجہد آزادی یعنی انتفاضہ سے خوفزدہ ہے-
 
صہیونی فوج کی فائرنگ اور گولہ باری سے روزانہ معصوم فلسطینی شہید ہورہے ہیں- انفراسٹرکچر تباہ ہورہا ہے اسرائیلی وزیردفاع نے مزید بستیاں بنانے کی اجازت دے رکھی ہے ادھر نومبر کے دوسرے ہفتے میں ایک بار پھر اسرائیل نے غزہ سے راکٹ داغے جانے پر تمام آبادی کی خوراک اور ایندھن کی فراہمی بند کردی- جمعرات 14نومبر کو اس طرح کی ایک کارروئی میں اقوام متحدہ کی ریلیف ایجنسی کے خوراک سے لدے30ٹرکوں اور ایندھن لے جانے والے ٹینکر کو روک دیاگیا جس سے غزہ کی آدھی یعنی ساڑھے7لاکھ آبادی متاثر ہوئی س کے علاوہ بحری جہازوں کو بھی سامان لے جانے سے روک دیاگیا-

کنگ کے خواب کو تعبیر دینے والے شخص کو قبول کرلیں گے یا وہ بھی امریکہ کے ذہین اور نوجوان صدرجان آف کینڈی کی طرح منظر سے ہٹادئیے جائیں گے اس سوال سے زیادہ اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا اقوام متحدہ کی قرادادوں اور عالمی قوانین کے تحت نو منتخب امریکی صدر مظلوم فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلاسکے گا؟ بدقسمتی سے اس اہم سوال کا خواب نہایت آسان ہے کہ نہیں –

اوبامہ اپنی انتخابی مہم میں کبھی بھی اسرائیل کی حمایت سے پیچھے نہیں ہٹا اور انہوں نے اپنا پورازورمشرق وسطی میں 2ریاستوں کے قیام پر لگائے رکھا- اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں مختلف یہودی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں- اوبامہ کو صہیونی گروہوں نے بے تحاشہ فنڈزدئیے اور ان کے لئے موثر میڈیا مہم چلائی گئی- اس کے باوجود کہ ری پبلکن صدارتی امیدوار سینیٹر جان مکین نے اوبامہ کے فلسطینی نژاد امریکی پروفیسر خلیلی سے تعلقات کے حوالے سے پوائنٹس حاصل کرنے کی کوشش بھی کی مگر وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے- اوبامہ نے اس پر کہا تھا کہ فلسطینی نژادامریکی سے ملاقات کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ میں اسرائیل یا یہودیوں کا مخالف ہوں اوراس کا ثبوت تو اوبامہ نے اس وقت دیدیا تھا جب انتخابات جیتنے کے اگلے روز انہوں نے کٹریہودی راھم عمانوایل کو اپنا چیف آف سٹاف مقرر کردیا گویا انہوں نے صہیونی قیادت کو اولین تحفہ دے کر یہ ثابت کردیا کہ وہ واقعی یہودیوں کا مخالف نہیں ہے-

واضح رہے کہ عمانوایل کے والد بینجمن عمانوایل 1948ء میں فلسطینیوں کے قتل عام میں ملوث تھے- اوبامہ کو اس بات کا پورا ادراک تھا اور ہے کہ وہ اسرائیل یا یہودیوں کی مخالفت کرکے کبھی سیاس کامیابی حاصل نہیں کرسکتا جبکہ ایہوداولمرٹ کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ صدارتی انتخابات کے بعد جو بھی صدر بنا وہ اسرائیل کا دوست ہوگا لیکن زیپی لیونی کے بیانات سے یوں لگتا ہے کہ مشرق وسطی کے معاملے میں اوبامہ کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہوگا اور اس حوالے سے وہ سابق امریکی صدورسے زیادہ کمزور ثابت ہوں گے-

لینک کوتاه:

کپی شد