پنج شنبه 24/آوریل/2025

فلسطینی نسل کشی کے لیے نیتن یاہو کو ٹرمپ کا گرین سگنل 

جمعہ 21-مارچ-2025

اسرائیل کی زیر محاصرہ غزہ میں جنگ کے لیے منگل کے روز سے شروع ہونے والی بمباری کے نتیجے میں  فلسطینیوں کی نسل کشی پھر شروع ہو چکی ہے۔ یہ نسل کشی نو آبادیاتی قبضے کا تسلسل بھی ہے اور اس جنگ بندی معاہدے کا عملی انکار بھی جو ثالثوں کی مدد سے ممکن ہوا اور اس کے نتیجے میں 19 جنوری سے جنگ بندی کا پہلا مرحلہ شروع ہو گیا۔ اس پر اسرائیل کے جنگی مجرم رہنماؤں نے بھی دستخط کیے تھے۔ 

ان میں ایک اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی نمایاں تھے، جن کے خلاف بین الاقوامی فوجداری نے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں۔ نیتن یاہو نے غزہ میں فلسطینیوں کی دوبارہ نسل کشی شروع کرنے کے لیے ہر ہر بہانے سے کوشش کی، جو بالآخر 18 مارچ سے پھر شروع ہو گئی ہے۔ اسی لیے دوبارہ جنگ شروع کرنے کے پہلے ہی روز اسرائیلی فوج چار سو سے زائد فلسطینیوں کو قتل عام کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ ان میں فلسطینی بچوں اور عورتوں کی تعداد زیادہ ہے۔

سات اکتوبر سے 19 جنوری تک 48 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو قتل کرنے کے بعد بھی اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو مزید دسیوں ہزار فلسطینیوں کے قتل کے لیے کھجلی ہو رہی ہے۔

صہیونی رجیم نے بے گھر فلسطینیوں کے لیے خوراک، ادویہ اور ایندھن پہلے ہی بند کر رکھا تھا۔ لیکن رمضان المبارک کے وسط میں جب فلسطینی پلاسٹک کے بنے خیموں میں بیٹھے سحری کی تیاری میں مصروف تھے تو اسرائیلی فوج نے بمباری شروع کر دی۔ اسرائیل نے نئے سرے سے جنگ شروع کر کے فلسطینیوں پر ایک خوفناک دہشت گردی پھیلا دی۔ دوبارہ جنگ کے آغاز کے پہلے ہی روز چار سو سے زائد فلسطینی قتل کر کے نسل کشی کا سلسلہ وہیں سے شروع کر دیا جہاں پر 19 جنوری کو رکا تھا۔

اسرائیل کی اس نئی شروع کی گئی جنگ کے دوران 1000 سے زائد زخمیوں کا مناسب علاج بھی ممکن نہیں ہے۔  

اب تک کی رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے غزہ پر  نئے فضائی حملے میں عام ڈرون حملوں سے زیادہ مہلک ڈرون حملے کیے گئے۔ یہ سب کچھ ایسے ماحول میں ہو رہا ہے جب نیتن یاہو نے جنگ بندی معاہدے کے تحت عمل کرنے کے دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات کر کے اپنے باقی ماندہ قیدی چھڑوانے کے بجائے غزہ میں نسل کشی کو ترجیح دیتے ہوئے جنگ بندی معاہدہ توڑ دیا۔

حماس نے نئے سرے سے جنگ مسلط کرنے پر نسل پرست اسرائیل پر اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کرنے اور جنگ بندی کے معاہدے کو ختم کرنے پر تنقید کی ہے۔

قابض اسرائیلی حکومت نے 19 جنوری جنگ بندی کے معاہدے کو بار بار بے توقیر کرنے کی کوشش کی،  کئی بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ، حتیٰ کہ اس معاہدے کو مکمل طور پر اڑا دینے کا جواز گھڑنے کی کوشش کرتے ہوئے نت نئی شرائط اور تجاویز پھیلانے کی کوشش کی ۔

 اس صورت حال کے بارے میں تجزیہ کار جیریمی سکاہل اور ابوبکر عابد نے کہا نیتن یاہو نے سبوتاژ اور اشتعال انگیزی کی مہم جاری رکھی ہوئی ہے۔ اسی مقصد کے لیے غزہ کی پٹی پر انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈال کر معاہدے کی شرائط کی کھلے عام خلاف ورزی کی ہے۔

ان کا کہنا ہے اگرچہ معاہدے کے پہلے مرحلے کے 42 دنوں کے دوران میں خوراک اور دیگر سامان کو غزہ میں داخل ہونے کی اجازت تھی۔ مگر اسرائیل نے 60000 عارضی گھروں میں سے شاید ہی کوئی اور 200000 خیموں کا صرف ایک حصے کو ہی غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی۔

اگرچہ نیتن یاہو ہمیشہ حماس پر الزام لگانے کی کوشش کرتے ہوئے کہتے رہے کہ حماس جنگ بندی کو خراب کرتی ہے۔ اسرائیل کا اتحادی امریکہ بڑی عجلت میں اس جھوٹ کو اپنانے کو تیار تھا۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل ہی ہے جس نے غزہ میں خوراک اور ایندھن سمیت ہر چیز کی ترسیل روک کر فلسطینیوں پر بھوک مسلط کر دی تھی تاکہ فلسطینیوں پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالا جا سکے۔ اسرائیل اس بھوک کو فلسطینیوں کے خلاف ایک بار پھر ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اسی جنگ بندی کے دوران ایک اتوار کے روز اسرائیل نے بجلی کی فراہمی بند کر دی اور فلسطینیوں پر دباؤ کے لیے ایک اور حربے کے طور پر استعمال کیا۔

بجلی کی اس بندش کا ایک خوفناک مقصد غزہ میں پانی فراہم کرنے والے پلانٹ اور ہسپتالوں میں علاج معالجے کی بچی کھچی سہولتوں کو بھی ختم کرنا تھا۔ تاکہ پینے کے پانی کی زیادہ سے زیادہ قلت پیدا ہو سکے۔ دیر البلاح اور خان یونس میں 600000 فلسطینیوں کے لیے بھی پانی کی انتہائی کم مقدار میسر ہے۔  

حماس کو سب جانتے ہیں کہ جنگ بندی معاہدے پرعمل کے لیے وہ ہمیشہ آمادہ و تیار رہی ہے۔ مگر نیتن یاہو اپنی سیاسی ضرورتوں کے پیش نظر اور اندرونی سیاسی چیلنجوں سے بچنے کے لیے غزہ میں خونریزی کو ترجیح بنائے ہوئے ہیں۔ حماس کے بیانات میں کہا گیا ہے کہ نیتن یاہو اپنی سیاسی ضرورتوں کے لیے اس مقصد کے لیے اپنے لوگوں کا خون بہانے کو بھی بے قرار ہیں۔

اسرائیلی اخبار ‘ہارٹز’ کے مطابق قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان  آل ثانی نے بین الاقوامی برادری سے یہ مطالبہ کیا ہے غزہ میں اسرائیلی جنگ رکوا کر اسے جنگ بندی معاہدے پر عمل کرایا جائے اور اسرائیل مذاکرات کی طرف واپس جائے۔ جنگ بندی مذاکرات کے لیے ثالثی کرانے والوں میں سے  اہم ملک قطر کا یہ مطالبہ صرف اسرائیل سے ہے۔ کیونکہ سب سمجھتے ہیں  کہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی اسرائیل نے کی ہے، حماس نے نہیں۔

اس رائے کو میڈیا رپورٹس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ غزہ میں اسرائیلی قیدیوں اور لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے فورم نے فلسطینی تحریک حماس کی نہیں بلکہ اسرائیل کی مذمت کی ہے۔

اہل خانہ کے اس فورم کا یہ خوف سچ ثابت ہوا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے غزہ میں جنگ کا راستہ اختیار کر کے اپنے قیدیوں سے دستبردار ہونے کے راستے کا انتخاب کیا ہے۔

 ایک ترجمان نے اسرائیلی اخبار ‘ہارٹز’ کے حوالے سے کہا ہے کہ بین گویر اور سموٹریچ جیسے دہشت گردوں نے اسرائیل کی جنگی پالیسی کا خیر مقدم کیا ہے۔ معصوم ماؤں اور بچوں کے قتل پر ان کا جوش محض منظوری یا تائید سے بھی زیادہ ہے۔

یہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ اسرائیل کا اس معاہدے کا احترام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور اس نے مزید صیہونی وحشیانہ کارروائیوں کا جواز پیش کرنے کے لیے حماس پر الزام لگانے کی سازش کی۔

اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی اسیران کے ادارے ‘صمیدون’ کے مطابق  غزہ میں 60 روز قبل جنگ بندی کے آغاز سے ہی، فلسطینی مزاحمتی تنظیموں اور ذمہ دار تنظیموں نے صیہونی جنگ کے لیے حکومت کی جانب سے معاہدے کی بار بار کی خلاف ورزیوں کا جائزہ لینا شروع  کر دیا تھا۔

اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے،  فلسطینی تحریک مزاحمت نے ایک بار بھی جنگ بندی کے معاہدوں کی خلاف ورزی نہیں کی ہے۔ حتیٰ کہ صہیونی جنگی مجرموں کے خلاف جوابی کارروائی بھی نہیں کی ہے۔

اب غزہ کے فلسطینیوں کی خونریزی کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ  کے گرین سگنل نے عملاً ٹرمپ کو ان جنگی جرائم میں ملوث دیکھ لیا ہے۔ اسی طرح صدر ٹرمپ نے  فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیل کی اسلحہ و مالی امداد کر کے صدر جو بائیڈن کی طرح ثابت کر دیا ہے کہ وہ درحقیقت ایک جنگجو ہیں۔ 

لینک کوتاه:

کپی شد