عرصہ دراز سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم اور ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘کے اپنے لوگوں کے خلاف متشدد کارروائیاں فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن کا سبب بن جائیں- یہ اہل مغرب کی غلط فہمی ہے- حال ہی میں ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کو فراہم کی جانے والی مالی امداد سیکورٹی کو منظم کرنے کی مد میں ہے جو درحقیقت ’’بغیر کسی ریاست کے وجود کے ریاستی سیکورٹی‘‘ کا احمقانہ خیال ہے- کیونکہ ’’محمود عباس‘‘ کے مرکزی دفتر سمیت تمام فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی غاصب افواج کا مکمل کنٹرول ہے- اس طرح ریاستی سیکورٹی منظم کرنے کے لیے امداد کی فراہمی ایک احمقانہ مفروضہ ہے-
’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کو مغربی عطیات اور تیل سے مالامال عرب ممالک سے ملنے والی رقوم کا ایک تہائی حصہ ان سیکورٹی ایجنسیوں کے سپرد کردیا جاتا ہے جو اس کے تصرف میں کسی قانونی اور اخلاقی ضابطہ کی پابند نہیں ہیں- مغربی کنارے اور غزہ کی زرعی پیداوار جو پچاس فیصد فلسطینیوں کی خوراک زندگی کا واحد ذریعہ ہے – اس پر ایک فیصد سے بھی کم خرچ کیا جاتا ہے- یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فلسطینی مقتدرہ اور اس کے حلیفوں کا گروہ اسرائیل کے خلاف فلسطینی مزاحمت کو روکنے کے لیے وجود میں لایا گیا ہے-
ورنہ اسرائیل مغرب کو فلسطینی تحریکوں کو مالی امداد، تربیت اور اسلحہ کی فراہمی کی کبھی بھی قطعی اجازت نہ دیتا- موجودہ صورتحال میں یہ نام نہاد سیکورٹی دستے مقبوضہ علاقوں میں قانونی کی بالادستی شہریوں کی خودمختاری اور انسانی حقوق کے ادارے صورتحال کو مزید گھمبیر کررہے ہیں- یہ معصوم لوگوں سے بدسلوکی، ان کی گرفتاریوں اور اذیت رسانی کے مرتکب ہو رہے ہیں- قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے صحافیوں کو پابند سلاسل کرنے کے ساتھ ساتھ سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور دوسرے اداروں کو نیست و نابود کیا جارہا ہے-
المختصراً ’’حماس‘‘ کے خلاف کارروائیوں کی آڑ میں مغربی کنارے میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کی جارہی ہے- ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کا یہ دعوی کہ ’’حماس‘‘ کو مغربی کنارے میں تختہ الٹانے سے باز رکھنے کی خاطر یہ کارروائیاں ضروری ہیں، ایک مذاق ہے- مغربی کنارے میں تختہ الٹنے کے لیے ’’حماس‘‘ کا اسرائیل اور ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کی مشترکہ فوجی صلاحیت سے بہتر ہونا ضروری ہے- تاہم اگر اس تناظر میں کم از کم خیال بھی ایک احمقانہ راگ الاپنے کے مترادف ہے-
درحقیقت یہ تمام مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ایک سال قبل الفتح کو غزہ کی پٹی سے نکالنے کے انتقام کے طور پر کی جارہی ہیں-چند ہفتے قبل ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ نے قومی سلامتی کے خطرات اور لوگوں میں انتشار پیدا کرنے کے الزامات کے تحت تین صحافیوں کو گرفتار کرلیا- یہ صحافی ابھی تک ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کے عقوبت خانوں میں قید ہیں- ان میں ’’الجزیرہ ٹیلی وژن‘‘ کے عربی نمائندے عوض رجوب بھی شامل ہیں-
رجوب کے رشتہ داروں کے خدشات کے مطابق انہیں فوجی ٹربیونل کے ذریعے موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا- ایک معصوم فلسطینی صحافی کے ٹرائل کا معاملہ ایک ایسی’’مقتدرہ‘‘ کی جانب سے ہے جس کے پاس نہ تو کوئی اختیار ہے اور نہ ہی خودمختاری- اس کی اپنی سالمیت کی ضمانت صرف اسرائیلی خوشنودی پر منحصر ہے- اسرائیل فلسطینیوں کا ازلی دشمن اور ان کے خون کا پیاسا ہے- مزید برآں بے شمار سماجی و مذہبی راہنماء، مئیرز حتی کہ طالبعلموں کو حفاظتی تفتیش کے نام پر وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ جیلوں میں مقید رکھا جارہا ہے-
چند ہفتے قبل مقامی سرکاری ہسپتال میں ایک نوجوان کو انتہائی تشدد کے بعد زنجیروں سے اس کے بستر پر جکڑ دیا گیا- تین مسلح صہیونی اس پر تعینات کردیے گئے- گزشتہ ہفتے ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کے سپاہیوں نے الخلیل سے دس میل جنوب مغربی علاقے ’’دورا‘‘ میں ’’انوار اکیڈمک سنٹر‘‘ میں دو اساتذہ نعیم طالحمہ اور سالم الحربیہ کو وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا-
گزشتہ ماہ ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کے چیئرمین ’’محمود عباس‘‘ نے کہا کہ انہوں نے سیکورٹی ایجنسیوں کو غزہ واقعے کے بعد سے تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں- اس کے باوجود پچانوے فیصد سیاسی قیدی ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کی جیلوں اور عقوبت خانوں میں اذیتیں برداشت کررہے ہیں- یقینا ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ قانون کی بالادستی کی آڑ میں معصوم لوگوں کو قید کرنے، ان کے کاروبار کو بند کرنے اور روزانہ کی بنیادوں پر ملنے والے عطیات کو بلاجواز ختم کرسکی ہے-
حتی کہ اس ہفتے کے دوران ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کے سیکورٹی دستوں نے ان بے گناہ وکلاء کو گرفتار کرنے کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے جو غیر قانونی طور پر گرفتار قیدیوں مقدمات کی پیروی کررہے ہیں- الخلیل سے تعلق رکھنے والے محمد فرح اور شمال مغربی کنارے کے فاضل یشنا ابھی تک ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کی جیلوں میں قید ہیں- ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کی جانب سے کی جانے والی ناانصافیاں جن میں الفتح کے سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں بھی شامل ہیں- اس بات کی تصدیق نہیں کرتی کہ غزہ کی پٹی میں سرانجام پانے والی کارروائیاں ’’حماس‘‘ کررہی ہے-
الفتح کے کارکنوں کی جانب سے ان افراد کی گرفتاریاں جن پر ’’حماس‘‘ کے حمایتی ہونے کا شک ہو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ایسے اقدامات گلیوں کے غنڈے بدمعاش ہی انجام دے سکتے ہیں- ’’حماس‘‘ نے ’’الفتح‘‘ کے پاس قیدیوں کی بڑی تعداد کو آزاد کردیا ہے جن میں غزہ کی پٹی کے مشہور الفتح کے کارکن الآغا شامل ہیں- پھر کیا وجہ ہے کہ ’’الفتح‘‘ سے انسانی حقوق کی پامالی اور فلسطینیوں کی شہری آزادی کو ختم کرنے کی خاطر ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کو مسلسل اس اقدام پر مجبور کررہی ہے-
یہ مغرب کی خام خیال ہے کہ ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کے ہاتھوں فلسطینی لوگوں پر مظالم اور اذیتیں ڈھا کر وہ اسرائیل کے لیے حفاظتی حصار بنانے میں کامیاب ہو جائے گا- نام نہاد ’’اوسلو‘‘ معاہدے کے تحت ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ اپنے ہی بے شمار لوگوں پر ظلم ڈھا چکی ہے- ہم سب کو اچھی طرح یاد رہے کہ اس کے صرف دو نتائج سامنے آئے تھے- جن میں سے ایک ’’انتفاضہ الاقصی‘‘ اور دوسرا سال 2006ء میں ’’حماس‘‘ کی کامیابی شامل ہے- یہ بات تمام شکوک و شبہات سے بالاتر ہے کہ ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ اپنے مغربی معاونین کی مدد سے یہ بے بنیاد دعوی کررہا ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی حفاظت اور ترجیحات کی ضامن ہے- حقیقت میں ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ مغرب اور اس کے سفاک اور سنگدل لاڈلے اسرائیل کی حفاظت اور اس کے مفادات کو تحفظ دے رہی ہے-
مغرب کو یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ’’فلسطینی مقتدرہ‘‘ کو فراہم کی جانیوالی امداد اور انسانی حقوق کے درمیان ایک تعلق قائم کرے- صرف یہی اقدام فلسطین میں امن اور مغرب کی اعلان کردہ مثالی پالیسیوں کی کامیابی کا ضامن ہوسکتا ہے-آخری تجزیے کے طور پر فلسطینیوں کو جس آخری چیز کی ضرورت ہے وہ اسرائیل کی جانب سے ایک اور نسل کشی اور اذیت و بربریت کے دور کے خلاف متحدہ محاذ قائم کیے جانے کی ہے-