روئی کیرل (سائوتھ افریقہ میں وزیر برائے انٹیلی جنس امور) کہتے ہیں ’’میرے افریقی نیشنل کانگرس میں شامل ہونے کی سب سے بڑی وجہ 9 اپریل 1998ء کو ہونے والا قتل عام ہے جو اسرائیلی فوج نے معصوم فلسطینیوں پر ڈھایا- یہ سانحہ ’’دیر یاسین‘‘ نامی قصبے کا ہے جو مقبوضہ بیت المقدس کے قریب واقع ہے اور اس میں فلسطینی آباد تھے- اس سانحہ میں 254 افراد جن میں بوڑھے، بچے اور عورتیں بھی شامل تھیں، لقمہ اجل بنیں- ان کو اس سنگدلی کے ساتھ قتل کیا گیا کہ دیکھنے والوں پر بھی خوف طاری ہو جائے !
یہ صرف ان چند واقعات میں سے ایک واقعہ ہے جو میڈیا کی نظروں سے گزرا- ایسے واقعات (Zonist) صہیونی پارٹی کے پلان کا سب سے اہم حصہ ہیں کہ فلسطینی اکثریتی علاقوں سے فلسطینیوں کو بندوق کے بل بوتے پر بے دخل کر کے ان میں یہودیوں کو آباد کیا جاسکے تاکہ یہ اسرائیلی علاقہ کہلائے-
فہمی زبان، ایک فلسطینی بچہ تھا اور یہ 1948ء والے سانحہ میں بچ گیا تھا، وہ کہتا ہے کہ ’’یہودی فوج نے سارے گائوں والوں کو گھروں س نکال کر دیوار کے ساتھ لگادیا اور پھر گولی مار دی- اس گائوں والوں میں میرے دادا، دادی، والدہ، والد، چچا اور بہنیں سب شامل تھے-‘‘
ہالم عبد نامی فلسطینی نے اپنی حاملہ بہن کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھا- ان ظالم یہودیوں نے چاقو کے وار کر کے اس کی بہن کا پیٹ چاک کردیا تھا-
ایک یہودی فوجی ’’مئیرپال‘‘ نے اپنے افسران کو رپورٹ دی کہ ’’دوپہر کے وقت جنگ کا خاتمہ ہو چکا تھا، کوئی مزاحمت نہ تھی لیکن گائوں پر گولہ باری جاری تھی- فوجیوں نے تمام کا تمام اسلحہ چلایا اور ہر اس آدمی کو گولی ماری جو ان کی نظروں سے گزرا، حالانکہ وہ کوئی مزاحمت نہیں کررہے تھے‘‘! لیکن افسران نے کوئی توجہ نہ دی اور نہ ہی اس آگ کے کھیل کو روکنے کیلئے حکم جاری کیا- پچیس کے قریب آدمیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ذبح کیا گیا اور بچوں اور بوڑھوں کو ٹرک میں ڈال کر ’’دیریاسین‘‘ سے باہر لے گئے اور بے رحمی سے گولی مار دی-
ایک برطانوی افسر چرڈ کیٹلینگ کے مطابق ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سانحہ میں بہت ساری نوجوان لڑکیوں سے یہودی فوجیوں نے زیادتی کی اور بعد میں ان کو قتل بھی کردیا- بہت سارے شیر خوار بچوں کو بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا-‘‘
جیکوئس ڈی رائز جو بین الاقوامی ادارے ’’ریڈ کراس‘‘ کا ممبر تھا، وہ وہاں پہنچا اور وہ کہتا ہے کہ ’’میں نے بہت ساری نوجوان لڑکیوں کو اپنے ہوش و حواس کھوئے ہوئے دیکھا، جن کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا- اس کے بعد میں ایک گھر میں داخل ہوا، اس گھر کا سارا سامان خون میں نہایا ہوا تھا اور میں نے وہاں چند لاشیں دیکھیں جن کو مشین گنوں اور خنجروں سے قتل کیا گیا تھا- جیکوئس اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’یہ کسی ذاتی رنجش کا نتیجہ نہیں بلکہ اوپر سے دیئے ہوئے حکم کو بڑی خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا نتیجہ ہے- ’’دیریاسین‘‘ ان تمام علاقوں کی عکاسی کرتا ہے جن میں مظلوم فلسطینی آباد ہیں-‘‘
اسرائیل کے ایک تاریخ دان ایلن باپ کے مطابق اس نے اس سانحہ قتل کو ریکارڈ کیا اور اس قتل عام کا مقصد فلسطینی عوام کو ان کے آبائی علاقے سے نکالنا تھا- اس مقصد کے حصول کیلئے یہودیوں نے 418 قصبوں کو برباد کردیا اور بعد میں اس پر اسرائیلی بستیاں آباد کیں-
اسرائیل کے پہلے زرعی وزیر ’’آرہن کزلنگ‘‘ نے اپنے پہلے اجلاس 1948ء میں اس بات کو قبول کیا تھا کہ ’’وہ اس وقت صہیونی پارٹی اور جزمی پارٹی میں کوئی فرق نہیں دیکھ رہا- میں نے اس وقت بھی نازی پارٹی کی مزاحمت کی تھی جب وہ یہودیوں کو قتل کررہی تھی اور آج بھی صہیونی پارٹی کی مزاحمت کرتا ہوں جو بے قصور فلسطینیوں پر مظالم ڈھارہی ہے، کیونکہ حد سے زیادہ ظلم ظالموں کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے-‘‘
میڈیا کی معلومات کے مطابق 1956ء کو کفر قاسم نامی گائوں میں 1950ء کو ’’قبہ‘‘ گائوں 1960ء میں ’’سموا‘‘ قصبہ میں، 1976ء میں ’’گالیلی‘‘ میں اور 1982ء میں صابرہ اور شتیلا قصبوں میں- 2000ء میں وادی عرا میں، 2002ء میں جنین پناہ گزین کیمپ سمیت اسرائیلیوں نے اپنی جارحیت کا ثبوت دیا- نہ صرف لاکھوں فلسطینیوں کو قتل کیا گیا بلکہ ان کو ان کے گھروں سے بے دخل بھی کردیا گیا-
2006ء میں پندرہ سو لبنانی شہریوں کو اسرائیلی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا جو کہ انسانیت کے قتل کا منہ بولتا ثبوت تھا- اسرائیل اپنی 60 ویں سالگرہ منانے کے قریب ہے- یہودیوں کو اس حقیقت کا پتہ ہے کہ فلسطینی اور مجاہد گروپ ان کو آزاد ریاست تسلیم نہیں کرتے- یہ تمام عالم اسلام کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ’’دیریاسین‘‘ اب ’’یارویشم‘‘ نامی آبادی میں تبدیل ہو چکا ہے- اگر عالم اسلام نے یہودی لابی کو جواب نہ دیا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ فلسطین، فلسطین نہیں رہے گا بلکہ اسرائیل اور امریکہ کا ایک علاقہ بن کر رہ جائے گا-
ہر مسلمان فرد کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ فلسطینیوں کی آہ زاری مسلمان کیوں کر نہیں سن رہے- امن کا قیام دو برابر کے فریقوں میں ہوسکتا ہے نہ کہ ادنی اور اعلی کے درمیان اور خاص طور پر اس وقت جب اعلی غیر مسلم بھی ہو- اب ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ان کے برابر کھڑے ہو کر فلسطین کی نمائندگی کریں اور ان کو ان کا حق دلوائیں-
یہ صرف ان چند واقعات میں سے ایک واقعہ ہے جو میڈیا کی نظروں سے گزرا- ایسے واقعات (Zonist) صہیونی پارٹی کے پلان کا سب سے اہم حصہ ہیں کہ فلسطینی اکثریتی علاقوں سے فلسطینیوں کو بندوق کے بل بوتے پر بے دخل کر کے ان میں یہودیوں کو آباد کیا جاسکے تاکہ یہ اسرائیلی علاقہ کہلائے-
فہمی زبان، ایک فلسطینی بچہ تھا اور یہ 1948ء والے سانحہ میں بچ گیا تھا، وہ کہتا ہے کہ ’’یہودی فوج نے سارے گائوں والوں کو گھروں س نکال کر دیوار کے ساتھ لگادیا اور پھر گولی مار دی- اس گائوں والوں میں میرے دادا، دادی، والدہ، والد، چچا اور بہنیں سب شامل تھے-‘‘
ہالم عبد نامی فلسطینی نے اپنی حاملہ بہن کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھا- ان ظالم یہودیوں نے چاقو کے وار کر کے اس کی بہن کا پیٹ چاک کردیا تھا-
ایک یہودی فوجی ’’مئیرپال‘‘ نے اپنے افسران کو رپورٹ دی کہ ’’دوپہر کے وقت جنگ کا خاتمہ ہو چکا تھا، کوئی مزاحمت نہ تھی لیکن گائوں پر گولہ باری جاری تھی- فوجیوں نے تمام کا تمام اسلحہ چلایا اور ہر اس آدمی کو گولی ماری جو ان کی نظروں سے گزرا، حالانکہ وہ کوئی مزاحمت نہیں کررہے تھے‘‘! لیکن افسران نے کوئی توجہ نہ دی اور نہ ہی اس آگ کے کھیل کو روکنے کیلئے حکم جاری کیا- پچیس کے قریب آدمیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ذبح کیا گیا اور بچوں اور بوڑھوں کو ٹرک میں ڈال کر ’’دیریاسین‘‘ سے باہر لے گئے اور بے رحمی سے گولی مار دی-
ایک برطانوی افسر چرڈ کیٹلینگ کے مطابق ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سانحہ میں بہت ساری نوجوان لڑکیوں سے یہودی فوجیوں نے زیادتی کی اور بعد میں ان کو قتل بھی کردیا- بہت سارے شیر خوار بچوں کو بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا-‘‘
جیکوئس ڈی رائز جو بین الاقوامی ادارے ’’ریڈ کراس‘‘ کا ممبر تھا، وہ وہاں پہنچا اور وہ کہتا ہے کہ ’’میں نے بہت ساری نوجوان لڑکیوں کو اپنے ہوش و حواس کھوئے ہوئے دیکھا، جن کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا- اس کے بعد میں ایک گھر میں داخل ہوا، اس گھر کا سارا سامان خون میں نہایا ہوا تھا اور میں نے وہاں چند لاشیں دیکھیں جن کو مشین گنوں اور خنجروں سے قتل کیا گیا تھا- جیکوئس اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’یہ کسی ذاتی رنجش کا نتیجہ نہیں بلکہ اوپر سے دیئے ہوئے حکم کو بڑی خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا نتیجہ ہے- ’’دیریاسین‘‘ ان تمام علاقوں کی عکاسی کرتا ہے جن میں مظلوم فلسطینی آباد ہیں-‘‘
اسرائیل کے ایک تاریخ دان ایلن باپ کے مطابق اس نے اس سانحہ قتل کو ریکارڈ کیا اور اس قتل عام کا مقصد فلسطینی عوام کو ان کے آبائی علاقے سے نکالنا تھا- اس مقصد کے حصول کیلئے یہودیوں نے 418 قصبوں کو برباد کردیا اور بعد میں اس پر اسرائیلی بستیاں آباد کیں-
اسرائیل کے پہلے زرعی وزیر ’’آرہن کزلنگ‘‘ نے اپنے پہلے اجلاس 1948ء میں اس بات کو قبول کیا تھا کہ ’’وہ اس وقت صہیونی پارٹی اور جزمی پارٹی میں کوئی فرق نہیں دیکھ رہا- میں نے اس وقت بھی نازی پارٹی کی مزاحمت کی تھی جب وہ یہودیوں کو قتل کررہی تھی اور آج بھی صہیونی پارٹی کی مزاحمت کرتا ہوں جو بے قصور فلسطینیوں پر مظالم ڈھارہی ہے، کیونکہ حد سے زیادہ ظلم ظالموں کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے-‘‘
میڈیا کی معلومات کے مطابق 1956ء کو کفر قاسم نامی گائوں میں 1950ء کو ’’قبہ‘‘ گائوں 1960ء میں ’’سموا‘‘ قصبہ میں، 1976ء میں ’’گالیلی‘‘ میں اور 1982ء میں صابرہ اور شتیلا قصبوں میں- 2000ء میں وادی عرا میں، 2002ء میں جنین پناہ گزین کیمپ سمیت اسرائیلیوں نے اپنی جارحیت کا ثبوت دیا- نہ صرف لاکھوں فلسطینیوں کو قتل کیا گیا بلکہ ان کو ان کے گھروں سے بے دخل بھی کردیا گیا-
2006ء میں پندرہ سو لبنانی شہریوں کو اسرائیلی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا جو کہ انسانیت کے قتل کا منہ بولتا ثبوت تھا- اسرائیل اپنی 60 ویں سالگرہ منانے کے قریب ہے- یہودیوں کو اس حقیقت کا پتہ ہے کہ فلسطینی اور مجاہد گروپ ان کو آزاد ریاست تسلیم نہیں کرتے- یہ تمام عالم اسلام کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ’’دیریاسین‘‘ اب ’’یارویشم‘‘ نامی آبادی میں تبدیل ہو چکا ہے- اگر عالم اسلام نے یہودی لابی کو جواب نہ دیا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ فلسطین، فلسطین نہیں رہے گا بلکہ اسرائیل اور امریکہ کا ایک علاقہ بن کر رہ جائے گا-
ہر مسلمان فرد کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ فلسطینیوں کی آہ زاری مسلمان کیوں کر نہیں سن رہے- امن کا قیام دو برابر کے فریقوں میں ہوسکتا ہے نہ کہ ادنی اور اعلی کے درمیان اور خاص طور پر اس وقت جب اعلی غیر مسلم بھی ہو- اب ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ان کے برابر کھڑے ہو کر فلسطین کی نمائندگی کریں اور ان کو ان کا حق دلوائیں-