عین اس وقت جب بیت المقدس میں ایک عارضی مکان میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی کا جشن تالیوں اور ناؤ نوش کی محفل کے ذریعے منایا جا رہا تھا صرف چالیس میل کی دوری پر غزہ کی پٹی میں اس محفل کی پرامن انداز میں مخالفت کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کا قہر وغضب جاری تھا۔ آسمان سے ڈرون ان پر گولوں کی برسات کیے ہوئے تھا اور زمین پر خاک نشین فلسطینی بوڑھے عورتیں اور بچے آہ وبکا میں مصروف لاشوں کو سنبھالنے میں مصروف تھے۔
یہ سب محض اسرائیل کی تنہا کارروائی نہیں تھی بلکہ اس قتل عام کے پیچھے امریکا کا یک طرفہ فیصلہ تھا۔ دنیا میں دہشت گردی کا ڈھول پیٹنے والا امریکا فلسطین میں ریاستی دہشت گردی کا سرپرست اور معاون بن کر سامنے آرہا ہے۔ جس کا ثبوت امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کیے جانے اور اس کے افتتاح کے موقع پر فلسطینی عوام کے پرامن احتجاج کو طاقت سے دبانے کی اسرائیلی کوشش ہے۔ جس میں ستر افراد شہید اور تین ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برسر اقتدار آتے ہی جہاں دنیا میں اتھل پتھل اور بے چینی کو جنم دینے والے کئی اعلانات کیے وہیں ٹرمپ نے امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کرکے پوری مسلمان دنیا میں غم وغصے کی لہردوڑا دی تھی۔
بیت المقدس پر اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا تھا اور فلسطینی عوام نے اس قبضے کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ فلسطینی عوام نے بیت المقدس کو اپنی مستقبل کی آزاد ریاست کا دارالحکومت سمجھا اور جانا اور اسی مقصد کے لیے وہ نسل در نسل قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ دنیا نے بھی بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کو کبھی سند جواز عطا نہیں کی۔
تمام مذاکرات اور سمجھوتوں میں اس مسئلے کو یا تو متنازع قرار دے کر چھیڑا گیا یا سرے سے چھیڑا ہی نہیں گیا۔ امریکا ہمیشہ سے اسرائیل کا سرپرست اور اس کے تمام کالے کرتوتوں میں ساجھے دار رہا ہے اس لیے اب امریکا نے ایک نئی پوزیشن لے کر اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے متنازع علاقے میں منتقل کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ جس سے فلسطینی عوام میں بے چینی پیدا ہوگئی۔ یہ عالمی ضمیر اور رائے کو نظرانداز کرکے بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کو تسلیم کرنے کا پہلا قدم ہے۔ یورپ تک نے اس فیصلے میں امریکا کا ساتھ دینے سے انکار کیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے اعلان پر عمل درآمد کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کی منتقلی کا قدم اُٹھانے کا فیصلہ کیا اور عمارت کی افتتاحی تقریب میں تختی کی نقاب کشائی ٹرمپ کی بیٹی ایوانکا ٹرمپ نے کی جو اس معاملے میں امریکا اور ٹرمپ کی دلچسپی کا اظہار ہے۔ اس موقع پر ہزاروں فلسطینیوں نے جمع ہو کر باڑھ کے قریب پرامن احتجاج کیا مگر اسرائیل کو یہ احتجاج گوارا نہ ہوا اور اسرائیلی فوج نے ڈرون سے شیلنگ کرکے ستر افراد کو شہید جب کہ ہزاروں کو زخمی کردیا۔ اسرائیل نے پرامن مظاہرین کو جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے دہشت گرد قرار دیا اور اپنی ریاستی دہشت گردی کو دفاع کا حق کہہ کر دنیا کی نظروں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی صدر بل کلنٹن نے 1993 کے اوسلو معاہدے میں فلسطینیوں کو جو خواب دکھائے تھے اب ٹرمپ انہی خوابوں کو اپنے اقدمات اور فیصلوں سے چکنا چور کر رہے ہیں۔ فلسطین کا قضیہ ہی خوابوں کے ٹوٹنے سے شروع ہوا ہے۔ جب فلسطینی عوام حالات سے مایوس ہوجاتے ہیں تو وہ سڑکوں کا رخ کرتے ہیں۔ وقت نے ثابت کیا کہ امریکا نے اوسلو معاہدے کا ڈول صرف فلسطین کی عالمی شہرت یافتہ اور مسلمہ قیادت یاسر عرفات کو گھیرنے کے لیے ڈالا تھا۔ امریکا اوراسرائیل دونوں کو اندازہ تھا کہ دہائیوں تک فلسطین کی مزاحمت اور حریت کی علامت رہنے والے یاسر عرفات اب ڈھلتی چھاؤں ہیں ان کو کسی فرضی مفاہمتی عمل کا حصہ بنا کر حریت اور مزاحمت کی وراثت کو اسرائیلی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
یاسر عرفات نے معاہدہ تو کر لیا مگر وہ اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹے اور اگر یاسر عرفات جدوجہد اور مزاحمت کو منجمد کرنے کا فیصلہ بھی کرتے تو حماس اور اس طرح کی دوسری تنظیمیں اس فیصلے کو فسخ کرنے کے لیے موجود تھیں۔ اس طرح فلسطینیوں کے خوابوں کی راکھ کر پرگریٹر اسرائیل کی بنیادیں نہ رکھی جا سکیں۔
یاسر عرفات معاہدوں میں بندھ گئے تو حماس نے آگے بڑھ کر مزاحمت کا بوجھ اپنے کندھوں پر اُٹھا لیا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات اور فیصلوں نے امریکا کی ثالث کی حیثیت کو جو پہلے ہی زیادہ غیر جانبدار اور قابل بھروسا نہیں تھی مزید مجروح کردیا۔ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سمیت اسلامی اور یورپی ملکوں نے اسرائیل کی طرف سے نہتے عوام پر طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی۔ اقوام متحدہ نے اسے انسانی حقوق کی شرمناک پامالی قرار دیا۔ امریکا کے فیصلے اور اسرائیل کی جارحیت نے مشرق وسطیٰ میں پہلے سے موجود بحران اور کشیدگی کو کم کرنے کے بجائے بڑھا دیا۔ جس کا ثبوت القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کا وہ وڈیو پیغام ہے جس میں کہا گیا کہ امریکا کے خلاف جہاد لازم ہوگیا ہے۔ اس بیان سے القاعدہ کی ڈوبتی ہوئی نبضیں بحال ہونے کا اندازہ ہورہا ہے۔ امریکا اپنے اقدامات سے دنیا میں دہشت گردی کو فروغ دے رہا ہے اور پھر دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے نام پر طاقت کا استعمال کرکے اپنا نیا کردار تلاش کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اور فلسطین جیسے مسائل میں امریکا اسرائیل اور بھارت کی لائن اختیا کرکے اپنی عالمی حیثیت کو بری طرح مجروح اور مسخ کرچکا ہے۔
بہ شکریہ روزنامہ جسارت