جب عرب اسرائیل جنگ ہوئی تو میں ارضِ مقدس (Holy Land) کے بارے میں قدیم مسیحی صحیفوں کی کہانیوں سے آگے کچھ نہیں جانتی تھی۔ جن دِنوں جمی کارٹر اور رونالڈ ریگن امریکی صدر تھے ان سے ”آخری جنگِ عظیم“ ہرمجدون کے بارے میں کافی کچھ سننے کو ملا۔ ہرمجدون (Armageddon) وہ عظیم جنگ ہے جو عیسائی عقیدے کے مطابق ریاست اسرائیل کے علاقے میں ”خیر اور شر“ کے درمیان ہوگی۔ آج کی ترقی یافتہ دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا عقیدہ ”آرمیگاڈون تھیالوجی“ ہے۔
اس عقیدے کے مبلغ اور اس پر کاربند مقبول عام پادری نہ صرف بڑے بڑے ہجوموں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ بڑی دولت بھی کماتے ہیں۔ صدر ریگن جیسے شخص نے ایک عیسائی پادری” جم بیکر“ سے 1981ء میں بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا: ”اس میں کوئی شک نہیں کہ یروشلم سے دوسو میل تک اتنا خون بہے گا کہ اس میں لاشیں تیرتی ہوئی نظر آسکیں گی۔ یہ ساری وادی جنگی سامان، انسانوں اور جانوروں کے زندہ جسموں اور خون سے بھر جائے گی۔“ دنیا کو معلوم نہیں امریکا میں آٹھ برس تک ایسا شخص منصبِ صدارت پر فائز رہا ہے جسے یقین تھا وہ قربِ قیامت کے دنوں میں زندہ ہے۔ یہ شخص آس لگائے بیٹھا رہا کہ یہ واقعہ اس کے زمانے میں پیش آئے گا۔
صدر رونالڈ ریگن آخری عمر میں عبرتناک بیماری کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہیں زمینی نجات تو نہ ملی البتہ وہ فضائی نجات (Repture) کے استحقاق کے بہت زیادہ اُمیدوار تھے۔ ایک رونالڈ ریگن پر کیا موقوف! رچرڈ نکسن، جمی کارٹر، جارج بش سینئر اور بش جونیئر یہ سارے امریکی صدور یہ سمجھتے ہیں کہ 1948ء میں اسرائیل کا قیام بائبل کی ایک پیش گوئی کی تکمیل ہے۔“ یہ عبارت مشہور امریکی مصنفہ اور صدارتی تقریر نویس ”گریس ہال سیل“ کی کتاب سے لی گئی ہے۔گریس ہال سیل (Grace Halsell) امریکا کی ریاست ٹیکساس میں پیدا ہوئی۔ ٹیکساس کی دو یونیورسٹیوں کے علاوہ نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی۔ عملی زندگی کا آغاز اخبارات کے لیے رپورٹیں لکھنے سے کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے یورپ، جنوبی امریکا، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کی سیاحت کی۔ یورپ کا سفر ایک بائیسکل پر کیا۔ سیاحت کے دوران روس، چین، کوریا، ویت نام، بوسنیا اور کوسوو بھی گئیں۔ متعدد مشہور امریکی اخبارات کے علاوہ جاپان ٹائمز، ہانگ کانگ ٹائیگر اسٹینڈرڈ، عرب نیوز اور پیرو کے دارالحکومت سیما کے اخبار ”لاپرنسا“ کے لیے بھی کالم نگاری کی۔
کئی شاہکار اور منفرد تصانیف کی بدولت وہ ٹیکساس کرسچین یونیورسٹی میں صحافت کے ”گرین آنرز“ کی چیئرپرسن نامزد کی گئیں۔ پنسلوانیا یونیورسٹی نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں Lifetime Achievement Award پیش کیا۔ ان کا نام امریکا کی مشہور کتاب ”Who is Who “میں درج ہے۔ 1960ء کی دہائی میں جب مشرقِ وسطیٰ میں ”عرب اسرائیل“ لڑائی ہوئی تو یہ امریکا کے ایوان صدر ”وہائٹ ہاؤس“ میں اسٹاف رائٹر تھی۔ صدر جانسن جن دنوں امریکا کے صدر تھے، گریس ہال سیل اس زمانے میں تین سال تک ان کی تقریریں لکھنے پر مامور تھیں۔ انہیں وہائٹ ہاؤس میں کئی سال امریکی حکمرانوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ انہیں جب احساس ہوا متعصب عیسائی بنیاد پرست (Dispensationalism) یہودیوں کے ہاتھوں میں کھیل کر عالمی امن کے لیے خطرہ بن گئے ہیں تو انہوں نے عیسائیوں کے ایک گروہ کے ساتھ دو مرتبہ فلسطین کا سفر کیا۔ پہلی مرتبہ 1980ء میں جب اسرائیل گئیں تو ان کی سیاحت اور تحقیق کے نتیجے میں Prophecy and Politics نامی کتاب وجود میں آئی۔ اس کے بعد 1999ء میں وہ مشہور عیسائی مبلغ ”جیری فال ویل“ کی سربراہی میں اسرائیل جانے والے وفد میں شریک ہوگئیں۔ وہاں انہوں نے فلسطینیوں پر صہیونیوں کے ظلم وستم اور ناانصافی کا بچشم خود مشاہدہ کیا۔
انہوں نے جنونی یہودیوں کے خفیہ مقاصد سے مسجدِ اقصیٰ مسمار کرکے، اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور مقبوضہ فلسطین میں خاص طرز پر تعمیر کی گئی یہودی بستیاں جو مسلمانوں کو بے دخل کرکے ان کی زمینوں پر قبضہ کرکے بنائی گئی تھیں جیسے بھیانک منصوبے پروان چڑھتے دیکھے تو واپس آکر گریس ہال سیل نے ”Forcing God’s Hands“ نامی کتاب لکھی جو ان کے گہرے تجزیے، منفرد اسلوب، اعلیٰ معیار کی تحقیق اور واضح انداز نگارش کے سبب مقبول ہوئی۔ اس پر متعدد اعتدال پسند عیسائی دانشوروں، غیرجانبدار مفکروں اور مسلم مشاہیر اہلِ علم نے ان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ عیسائی مفکر ڈاکٹر ”ہوبرٹ رینالڈ“، ”ڈاکٹر اینڈریوکلگر“ مشہور عیسائی مبصر ”جم جونز“ جیسے بیسیوں روشن خیال عیسائیوں اور یہودیوں نے ان کے اس کارنامے کی اہمیت کو درست طورپر جانا اور اعتراف کیا۔ امریکن کونسل فار گارڈ ازم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ”ایلن براؤن فیلڈ“ کہتے ہیں: ”یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بیداری کا پیغام ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں امن اور انصاف چاہتے ہیں خواہ وہ عیسائی ہوں، مسلمان یا یہودی۔“ گریس ہال سیل سے قبل مشہور امریکی صنعت کار ”ہنری فورڈ“، ”پال فنڈلے“، ”روون ڈیوڈ“ اور” ڈیوڈ ڈیوک“ جیسے متعدد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے یہودیوں کی شدید مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کے مظالم کا پردہ چاک کرنے کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ پر بھی کھل کر گفتگو کی ہے۔ قارئین! یہ بات اب تقریبا واضح ہوچکی ہے کہ یہودیت نے عیسائیت کو اپنا ہمنوا بنالیا ہے۔
یہودیوں کا جادو عیسائیوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ثقہ مبصرین کے مطابق اب اصل معرکہ اسلام اور یہودیت میں ہوگا۔ اسرائیل کے دارالحکومت ”تل ابیب“ سے 55 میل شمال میں واقع ”میگوڈو“ نامی میدان ہے۔ یہ میدان بحیرہٴ روم سے خشکی کی طرف پندرہ میل اندر ہے۔ عیسائی ویہودی نظریے کے مطابق تیسری جنگِ عظیم کا معرکہ یہیں بپا ہوگا۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہے کہ وہی اس میں فاتح ہوگا۔ یہود کے ذہین دماغوں نے طویل المدت، متوسط المدت اور قصیر المدت ہر طرح منصوبے اور جائزے ترتیب دیے ہیں جن پر بتدریج مختلف زاویوں سے کام جاری ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے دل میں پیوست ”اسرائیل“ نامی خنجر کو اسی حوالے سے دیکھنا چاہیے۔
14مئی 1948ء میں سامراجی قوتوں کی پشت پناہی سے ”بن گوریان“ (جو اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بنے) نے اسرائیل کے معرضِ وجود میں آنے کا خفیہ اعلان کیا تھا۔ اس ماہ 14مئی 2008ء کو فلسطین پر صہیونی تسلط کے 60سال پورے ہونے پر علانیہ جشن منارہا ہے۔ مئی 1948ء سے مئی 2008ء تک صہیونیوں کی سرتوڑ جدوجہد اور فلسطینی مسلمانوں پرظلم و ستم، سربریت، وحشیت و درندگی کے تمام حربے آزمانے اور فلسطین میں برسرپیکار تنظیموں خصوصاً حماس کے درجنوں عظیم رہنماؤں کو شہید کرنے کے باوجود وہ اسرائیل کو مستحکم کر نہیں سکے اور نہ ہی اس روش پر کاربند ہوتے ہوئے (جس میں مجاہدین کو جڑ سے اُکھاڑنے بلکہ تمام فلسطینیوں کو ایٹم بم سے اُڑانے کی دھمکی دی جاتی ہے) کرسکتے ہیں۔ عربی مجلہ ”الاخبار“ کے مطابق غزہ پر شب خون مارنے کے لیے امریکا نے اسرائیل کو گرین سگنل دے دیا ہے اور عنقریب صدر بش اسرائیل کا دورہ بھی کرنے والے ہیں جس میں اسرائیل کو مزید طاقت ور بنانے کے لیے طاقت ور ریڈار سسٹم پر بات چیت ہوگی۔
عرب مورخین کا کہنا ہے مغربی بیساکھیوں پر قائم اسرائیل کا انجام قریب ہے۔ بہت سے غیرجانبدار عالمی مبصرین بھی یہی کہتے ہیں کہ اسرائیل کا مستقبل بھیانک ہے۔ عنقریب اس کا وجود مٹ جائے گا۔ تاریخ شاہد ہے حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، عدل اور ظلم، ظالم اور مظلوم کی کشمکش اور معرکہ ازل سے جاری ہے اور اب تک جاری رہے گا۔ اس میں اصل فتح ہمیشہ حق، عدل اور مظلوم کی ہوئی۔ کون نہیں جانتا اسرائیل قابض، جابر اور ظالم ہے۔ اس نے مسلمانوں کی سرزمین پر قبضہ کیا ہے اور فلسطینی مظلوم ہیں۔ وہ اپنی آزادی چاہتے ہیں، اپنا حق حاصل کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگارہے ہیں۔ لہٰذا ان کی فتح چاہے دیر سے سہی، یقینی ہے اور انجام کار اسرائیل ہی صفحہٴ ہستی سے مٹ کررہے گا۔ حدیث پاک میں آتا ہے: ”باطل پانی پر جھاگ کی مانند ہے۔“ اور یہ بدیہہ حقیقت ہے کہ جھاگ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی۔اسرائیلی ریاست کے وجود کی مخالفت غیر یہودی اقوام ہی نہیں بلکہ خود یہودی بھی ایک صہیونی مذہبی ریاست کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر کی تازہ رپورٹ کے مطابق ممتاز یہودی پیشوا ”ایسر ویل ویس“ نے کہا ہے: ”اسرائیل شیطانی ملک ہے، تورات میں ایسی کسی ریاست کا تصور نہیں ہے، صہیونی ریاست کے وجود نے اسلامی دنیا کو اپنا دشمن بنالیا ہے۔
“ ایران میں مقیم یہودی رکن پارلیمنٹ ”سیامگ مرے صدق“ نے کہا ہے: ”ہمارا اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، ہم اسرائیل کے قیام کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر اس کو ناجائز سمجھتے ہوئے پر زور مذمت کرتے ہیں۔“ روز بروز ایسے افراد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو اس سوچ کے حامی ہیں کہ اسرائیل کا کوئی مستقبل نہیں، صہیونی جہاں سے آئے تھے، ناگہانی موت کے خوف سے بڑی تیزی سے واپس انہی ممالک میں جاکر آباد ہورہے ہیں حتیٰ کہ ساٹھ ویں سالگرہ پر اسرائیلی وزیراعظم کو کہنا پڑرہا ہے: ”اگر وہ دن آگیا جب دو ریاستوں کا نظریہ ملیامیٹ ہوجاتا ہے اور ہمیں جنوبی افریقا کی طرز پر اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے مساویانہ حق رائے دہی کی جدوجہد کرنا پڑجائے تو سمجھ لیں وہ ریاست اسرائیل کا آخری دن ہوگا۔
“ شاید یہی وجہ ہے ”فلسطین اسرائیل“ کے مابین ”امن معاہدے“ کے لیے سرتوڑ محنت کی جارہی ہے۔ اس کے لیے کبھی امریکی نائب صدر ڈک چینی، کبھی وزیر دفاع تو کبھی نائب وزیر دفاع، کبھی وزیر خارجہ تو کبھی نائب وزیر خارجہ، کبھی ”امن کے سفیر“ ٹونی بلیئر تو کبھی خیرسگالی کی سفیر انجلینا جولی… حتیٰ کہ خود امریکی صدر بش بھی مشرقِ وسطیٰ کے چکر پر چکر لگارہے ہیں تاکہ اسرائیل کو اس کے منطقی انجام سے بچایا جاسکے۔
اس عقیدے کے مبلغ اور اس پر کاربند مقبول عام پادری نہ صرف بڑے بڑے ہجوموں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ بڑی دولت بھی کماتے ہیں۔ صدر ریگن جیسے شخص نے ایک عیسائی پادری” جم بیکر“ سے 1981ء میں بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا: ”اس میں کوئی شک نہیں کہ یروشلم سے دوسو میل تک اتنا خون بہے گا کہ اس میں لاشیں تیرتی ہوئی نظر آسکیں گی۔ یہ ساری وادی جنگی سامان، انسانوں اور جانوروں کے زندہ جسموں اور خون سے بھر جائے گی۔“ دنیا کو معلوم نہیں امریکا میں آٹھ برس تک ایسا شخص منصبِ صدارت پر فائز رہا ہے جسے یقین تھا وہ قربِ قیامت کے دنوں میں زندہ ہے۔ یہ شخص آس لگائے بیٹھا رہا کہ یہ واقعہ اس کے زمانے میں پیش آئے گا۔
صدر رونالڈ ریگن آخری عمر میں عبرتناک بیماری کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہیں زمینی نجات تو نہ ملی البتہ وہ فضائی نجات (Repture) کے استحقاق کے بہت زیادہ اُمیدوار تھے۔ ایک رونالڈ ریگن پر کیا موقوف! رچرڈ نکسن، جمی کارٹر، جارج بش سینئر اور بش جونیئر یہ سارے امریکی صدور یہ سمجھتے ہیں کہ 1948ء میں اسرائیل کا قیام بائبل کی ایک پیش گوئی کی تکمیل ہے۔“ یہ عبارت مشہور امریکی مصنفہ اور صدارتی تقریر نویس ”گریس ہال سیل“ کی کتاب سے لی گئی ہے۔گریس ہال سیل (Grace Halsell) امریکا کی ریاست ٹیکساس میں پیدا ہوئی۔ ٹیکساس کی دو یونیورسٹیوں کے علاوہ نیویارک میں کولمبیا یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی۔ عملی زندگی کا آغاز اخبارات کے لیے رپورٹیں لکھنے سے کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے یورپ، جنوبی امریکا، ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ کے ملکوں کی سیاحت کی۔ یورپ کا سفر ایک بائیسکل پر کیا۔ سیاحت کے دوران روس، چین، کوریا، ویت نام، بوسنیا اور کوسوو بھی گئیں۔ متعدد مشہور امریکی اخبارات کے علاوہ جاپان ٹائمز، ہانگ کانگ ٹائیگر اسٹینڈرڈ، عرب نیوز اور پیرو کے دارالحکومت سیما کے اخبار ”لاپرنسا“ کے لیے بھی کالم نگاری کی۔
کئی شاہکار اور منفرد تصانیف کی بدولت وہ ٹیکساس کرسچین یونیورسٹی میں صحافت کے ”گرین آنرز“ کی چیئرپرسن نامزد کی گئیں۔ پنسلوانیا یونیورسٹی نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں Lifetime Achievement Award پیش کیا۔ ان کا نام امریکا کی مشہور کتاب ”Who is Who “میں درج ہے۔ 1960ء کی دہائی میں جب مشرقِ وسطیٰ میں ”عرب اسرائیل“ لڑائی ہوئی تو یہ امریکا کے ایوان صدر ”وہائٹ ہاؤس“ میں اسٹاف رائٹر تھی۔ صدر جانسن جن دنوں امریکا کے صدر تھے، گریس ہال سیل اس زمانے میں تین سال تک ان کی تقریریں لکھنے پر مامور تھیں۔ انہیں وہائٹ ہاؤس میں کئی سال امریکی حکمرانوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ انہیں جب احساس ہوا متعصب عیسائی بنیاد پرست (Dispensationalism) یہودیوں کے ہاتھوں میں کھیل کر عالمی امن کے لیے خطرہ بن گئے ہیں تو انہوں نے عیسائیوں کے ایک گروہ کے ساتھ دو مرتبہ فلسطین کا سفر کیا۔ پہلی مرتبہ 1980ء میں جب اسرائیل گئیں تو ان کی سیاحت اور تحقیق کے نتیجے میں Prophecy and Politics نامی کتاب وجود میں آئی۔ اس کے بعد 1999ء میں وہ مشہور عیسائی مبلغ ”جیری فال ویل“ کی سربراہی میں اسرائیل جانے والے وفد میں شریک ہوگئیں۔ وہاں انہوں نے فلسطینیوں پر صہیونیوں کے ظلم وستم اور ناانصافی کا بچشم خود مشاہدہ کیا۔
انہوں نے جنونی یہودیوں کے خفیہ مقاصد سے مسجدِ اقصیٰ مسمار کرکے، اس کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور مقبوضہ فلسطین میں خاص طرز پر تعمیر کی گئی یہودی بستیاں جو مسلمانوں کو بے دخل کرکے ان کی زمینوں پر قبضہ کرکے بنائی گئی تھیں جیسے بھیانک منصوبے پروان چڑھتے دیکھے تو واپس آکر گریس ہال سیل نے ”Forcing God’s Hands“ نامی کتاب لکھی جو ان کے گہرے تجزیے، منفرد اسلوب، اعلیٰ معیار کی تحقیق اور واضح انداز نگارش کے سبب مقبول ہوئی۔ اس پر متعدد اعتدال پسند عیسائی دانشوروں، غیرجانبدار مفکروں اور مسلم مشاہیر اہلِ علم نے ان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ عیسائی مفکر ڈاکٹر ”ہوبرٹ رینالڈ“، ”ڈاکٹر اینڈریوکلگر“ مشہور عیسائی مبصر ”جم جونز“ جیسے بیسیوں روشن خیال عیسائیوں اور یہودیوں نے ان کے اس کارنامے کی اہمیت کو درست طورپر جانا اور اعتراف کیا۔ امریکن کونسل فار گارڈ ازم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ”ایلن براؤن فیلڈ“ کہتے ہیں: ”یہ کتاب ان لوگوں کے لیے بیداری کا پیغام ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں امن اور انصاف چاہتے ہیں خواہ وہ عیسائی ہوں، مسلمان یا یہودی۔“ گریس ہال سیل سے قبل مشہور امریکی صنعت کار ”ہنری فورڈ“، ”پال فنڈلے“، ”روون ڈیوڈ“ اور” ڈیوڈ ڈیوک“ جیسے متعدد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے یہودیوں کی شدید مخالفت کی پروا نہ کرتے ہوئے ان کے مظالم کا پردہ چاک کرنے کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ پر بھی کھل کر گفتگو کی ہے۔ قارئین! یہ بات اب تقریبا واضح ہوچکی ہے کہ یہودیت نے عیسائیت کو اپنا ہمنوا بنالیا ہے۔
یہودیوں کا جادو عیسائیوں کے سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ثقہ مبصرین کے مطابق اب اصل معرکہ اسلام اور یہودیت میں ہوگا۔ اسرائیل کے دارالحکومت ”تل ابیب“ سے 55 میل شمال میں واقع ”میگوڈو“ نامی میدان ہے۔ یہ میدان بحیرہٴ روم سے خشکی کی طرف پندرہ میل اندر ہے۔ عیسائی ویہودی نظریے کے مطابق تیسری جنگِ عظیم کا معرکہ یہیں بپا ہوگا۔ دونوں میں سے ہر ایک کو یقین ہے کہ وہی اس میں فاتح ہوگا۔ یہود کے ذہین دماغوں نے طویل المدت، متوسط المدت اور قصیر المدت ہر طرح منصوبے اور جائزے ترتیب دیے ہیں جن پر بتدریج مختلف زاویوں سے کام جاری ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے دل میں پیوست ”اسرائیل“ نامی خنجر کو اسی حوالے سے دیکھنا چاہیے۔
14مئی 1948ء میں سامراجی قوتوں کی پشت پناہی سے ”بن گوریان“ (جو اسرائیل کے پہلے وزیر اعظم بنے) نے اسرائیل کے معرضِ وجود میں آنے کا خفیہ اعلان کیا تھا۔ اس ماہ 14مئی 2008ء کو فلسطین پر صہیونی تسلط کے 60سال پورے ہونے پر علانیہ جشن منارہا ہے۔ مئی 1948ء سے مئی 2008ء تک صہیونیوں کی سرتوڑ جدوجہد اور فلسطینی مسلمانوں پرظلم و ستم، سربریت، وحشیت و درندگی کے تمام حربے آزمانے اور فلسطین میں برسرپیکار تنظیموں خصوصاً حماس کے درجنوں عظیم رہنماؤں کو شہید کرنے کے باوجود وہ اسرائیل کو مستحکم کر نہیں سکے اور نہ ہی اس روش پر کاربند ہوتے ہوئے (جس میں مجاہدین کو جڑ سے اُکھاڑنے بلکہ تمام فلسطینیوں کو ایٹم بم سے اُڑانے کی دھمکی دی جاتی ہے) کرسکتے ہیں۔ عربی مجلہ ”الاخبار“ کے مطابق غزہ پر شب خون مارنے کے لیے امریکا نے اسرائیل کو گرین سگنل دے دیا ہے اور عنقریب صدر بش اسرائیل کا دورہ بھی کرنے والے ہیں جس میں اسرائیل کو مزید طاقت ور بنانے کے لیے طاقت ور ریڈار سسٹم پر بات چیت ہوگی۔
عرب مورخین کا کہنا ہے مغربی بیساکھیوں پر قائم اسرائیل کا انجام قریب ہے۔ بہت سے غیرجانبدار عالمی مبصرین بھی یہی کہتے ہیں کہ اسرائیل کا مستقبل بھیانک ہے۔ عنقریب اس کا وجود مٹ جائے گا۔ تاریخ شاہد ہے حق اور باطل، سچ اور جھوٹ، عدل اور ظلم، ظالم اور مظلوم کی کشمکش اور معرکہ ازل سے جاری ہے اور اب تک جاری رہے گا۔ اس میں اصل فتح ہمیشہ حق، عدل اور مظلوم کی ہوئی۔ کون نہیں جانتا اسرائیل قابض، جابر اور ظالم ہے۔ اس نے مسلمانوں کی سرزمین پر قبضہ کیا ہے اور فلسطینی مظلوم ہیں۔ وہ اپنی آزادی چاہتے ہیں، اپنا حق حاصل کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگارہے ہیں۔ لہٰذا ان کی فتح چاہے دیر سے سہی، یقینی ہے اور انجام کار اسرائیل ہی صفحہٴ ہستی سے مٹ کررہے گا۔ حدیث پاک میں آتا ہے: ”باطل پانی پر جھاگ کی مانند ہے۔“ اور یہ بدیہہ حقیقت ہے کہ جھاگ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی۔اسرائیلی ریاست کے وجود کی مخالفت غیر یہودی اقوام ہی نہیں بلکہ خود یہودی بھی ایک صہیونی مذہبی ریاست کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر کی تازہ رپورٹ کے مطابق ممتاز یہودی پیشوا ”ایسر ویل ویس“ نے کہا ہے: ”اسرائیل شیطانی ملک ہے، تورات میں ایسی کسی ریاست کا تصور نہیں ہے، صہیونی ریاست کے وجود نے اسلامی دنیا کو اپنا دشمن بنالیا ہے۔
“ ایران میں مقیم یہودی رکن پارلیمنٹ ”سیامگ مرے صدق“ نے کہا ہے: ”ہمارا اسرائیل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، ہم اسرائیل کے قیام کی ساٹھویں سالگرہ کے موقع پر اس کو ناجائز سمجھتے ہوئے پر زور مذمت کرتے ہیں۔“ روز بروز ایسے افراد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو اس سوچ کے حامی ہیں کہ اسرائیل کا کوئی مستقبل نہیں، صہیونی جہاں سے آئے تھے، ناگہانی موت کے خوف سے بڑی تیزی سے واپس انہی ممالک میں جاکر آباد ہورہے ہیں حتیٰ کہ ساٹھ ویں سالگرہ پر اسرائیلی وزیراعظم کو کہنا پڑرہا ہے: ”اگر وہ دن آگیا جب دو ریاستوں کا نظریہ ملیامیٹ ہوجاتا ہے اور ہمیں جنوبی افریقا کی طرز پر اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے مساویانہ حق رائے دہی کی جدوجہد کرنا پڑجائے تو سمجھ لیں وہ ریاست اسرائیل کا آخری دن ہوگا۔
“ شاید یہی وجہ ہے ”فلسطین اسرائیل“ کے مابین ”امن معاہدے“ کے لیے سرتوڑ محنت کی جارہی ہے۔ اس کے لیے کبھی امریکی نائب صدر ڈک چینی، کبھی وزیر دفاع تو کبھی نائب وزیر دفاع، کبھی وزیر خارجہ تو کبھی نائب وزیر خارجہ، کبھی ”امن کے سفیر“ ٹونی بلیئر تو کبھی خیرسگالی کی سفیر انجلینا جولی… حتیٰ کہ خود امریکی صدر بش بھی مشرقِ وسطیٰ کے چکر پر چکر لگارہے ہیں تاکہ اسرائیل کو اس کے منطقی انجام سے بچایا جاسکے۔