اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے قریبی اتحادی وزیر ماحولیات گیلاد ایروان نے ریڈیو اسرائیل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر فلسطینی یک طرفہ طور پر اپنی ریاست کے قیام کا اعلان کرتے ہیں تو اسرائیل کو مغربی کنارے میں مزید یہودی بستیوں کو ضم کرنے کے لیے ایک قانون کی منظوری دینے پر غور کرنا چاہیے- ایروان نے اپنے ریڈیو انٹرویو میں اسرائیل کے بعض دوسرے اقدامات کا تذکرہ کیا ہے-
واضح رہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں مغربی کنارے اور بیت المقدس پر قضہ کرلیا تھا اور بعد میں القدس الشریف اور مغربی کنارے کے بعض علاقوں کو اپنی ریاست میں ضم کرلیا تھا- صہیونی وزیر کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت کے لیے ہر آپشن کھلا ہے اور وہ فلسطینی اتھارٹی کو رقوم کی منتقلی بھی بند کرسکتی ہے- وہ ان محصولات کی رقوم کا حوالہ دے رہے تھے جو عبوری امن معاہدے کے تحت اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اکٹھا کرتا ہے-
ایروان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیل مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر حال ہی میں نرم کی گئی سفری پابندیوں کو دوبارہ سخت کرنے پر بھی غور کرسکتا ہے- فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان گزشتہ ایک سال سے بات چیت تعطل کا شکار ہے اور فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ بند ہونے تک امن مذاکرات بحال نہیں کریں گے-
فلسطینیوں کی جانب سے اپنی آزاد ریاست کے قیام کے لیے ممکنہ یک طرفہ اعلان پر انتہا پسند اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے ایک تقریر میں خبردار کیا ہے کہ صرف اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کے نتیجے ہی میں ایک فلسطینی ریاست قائم ہوسکے گی-
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان مذاکرات کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا- کوئی یک طرفہ راہ اختیار کرنے سے طے شدہ معاہدوں کا فریم ورک برقرار نہیں رہے گا اور اسرائیل بھی یک طرفہ اقدامات کرے گا-
فلسطینیوں کے اعلی مذاکرات کار صائب اریکات کا کہنا ہے کہ ان کے اقدام کا مقصد ریاست کے قیام کا اعلان کرنا نہیں بلکہ ہم تنازعے کے دو ریاستی حل کو زندہ رکھنا اور مستقبل میں قائم ہونے والی اپنی ریاست کے لیے عالمی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں-
بشکریہ: روزنامہ اسلام