چهارشنبه 30/آوریل/2025

فلسطینیوں پر بمباری۔ مغرب کی خاموشی

منگل 6-جنوری-2009

غزہ پر زمینی حملے شروع ہونے کے دوسرے روز ہزاروں اسرائیلی فوجی ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں غزہ میں داخل ہوگئیں۔ جنہوں نے وسیع علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد کاروباری و تجارتی مراکز،رہائشی بستیوں، ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں تک کو بری طرح نشانہ بنایا۔پورا علاقہ دھماکوں سے گونج اٹھا، ہر طرف دھوئیں کے بادل چھا گئے۔
 
ان حملوں میں مزید 50سے زائد فلسطینی شہید اور درجنوں زخمی ہو گئے۔ حماس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے 9 اسرائیلی فوجیوں کو ہلاک اور دو کو یرغمال بنا لیا۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق اسرائیلی بحریہ بھی جنگ میں شامل ہوگئی ہے۔ اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد پانچ سو اور زخمیوں کی تعداد 4 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
 
مغربی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیل غزہ میں جوہری ہتھیار استعمال کر رہا ہے جس کا ثبوت زخمی ہونے والے فلسطینیوں کے زخموں سے ملاہے۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ پر حملوں میں امریکی ساختہ بم استعمال کر رہا ہے اور انتہائی خطرناک جی پی ایس گائیڈڈ میزائل بھی داغے جا رہے ہیں۔ اس وقت غزہ کے گلی کوچوں، رہائشی و کاروباری علاقوں اور کھیتوں تک میں شدید لڑائی جاری ہے۔

اسرائیل کی طرف سے 2006ء میں لبنان جنگ کے بعد غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف یہ سب سے بڑی فوجی کارروائی ہے، بڑی تعداد میں فلسطینی شہری متاثرہ علاقوں سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔ غزہ کے ہسپتالوں میں ادویات کی شدید قلت کے باعث زخمیوں کے علاج میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے ہفتہ کی رات سے شروع کی گئی جنگی کارروائی میں غزہ پر فوج کے حملوں کی تعداد 45سے تجاوز کر گئی ہے۔ اسرائیل نے ہزاروں ریزو فوجیوں کو بھی جنگ کے لئے طلب کر لیا ہے۔

اسرائیل کی طرف سے ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے معاہدہ اوسلو اور معاہدہ کیمپ ڈیوڈ سے انحراف امریکہ کی تائید و حمایت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ امریکہ نے اسرائیل کے اس انحراف پر نہ صرف خاموشی اختیار کی بلکہ انتخابات میں حماس کی کامیابی پر بلاجواز خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیلی عزائم اور فلسطینیوں کے خلاف جارحانہ سرگرمیوں کی تائید و حمایت کرکے اس خطے میں قیام امن کے امکانات اور کوششوں کی بھرپور حوصلہ شکنی کی۔ ا سرائیلی حکومت فلسطینیوں کے خلاف اپنی جارحیت کا جواز پیدا کرنے کے لئے یہ مضحکہ خیز موقف اختیار کئے ہوئے ہے کہ عالمی برادری غزہ پر حملے کے بارے میں اسرائیلی موقف کو اچھی طرح سمجھتی ہے جبکہ غزہ کی انتہائی تشویشناک صورتحال پر سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ایک مرتبہ پھر امریکہ کی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں ویٹو کے بعد بے نتیجہ رہا۔

امریکہ نے ہفتے کے روز غزہ میں فوراً فائر بندی کے متعلق سلامتی کونسل کے بیان کو منظور ہونے سے روک دیا تھا۔ اس موقع پر اقوام متحدہ میں فرانس کے سفیر اور سلامتی کونسل کے موجودہ صدر نے اعلان کیا کہ ارکان کے مابین اس بیان پر مکمل اتفاق رائے نہیں تاہم پندرہ ارکان اس نکتہ پر متفق ہیں کہ غزہ میں بگڑتی ہوئی صورتحال فوری اور مستقل فائر بندی نہ ہونا باعث تشویش ہے۔
 
اس موقع پر لیبیا کے نمائندے کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کا اجلاس امریکی ہٹ دھرمی کے باعث بے نتیجہ رہا۔ دریں اثنا ا قوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے گزشتہ روز اسرائیلی وزیراعظم سے ٹیلیفون پر رابطہ کرکے خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیالات کیا۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے جبکہ امریکہ نے یہ کہہ کر کہ اسرائیل کو دفاع کا پورا حق ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا۔ اسرائیلی جارحیت کی کھل کر تائید و حمایت کی ہے۔

نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی عالمی سطح پر مذمت اور مخالفت کا سلسلہ جاری ہے۔ لندن میں برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ کے سامنے زبردست احتجاجی مظاہرہ ہوا۔مظاہرین نے وزیراعظم کی رہائش گاہ پر جوتے پھینکے کیونکہ عالمی سطح پر یہ احساس تقویت پکڑ رہا ہے کہ اگر اسرائیل کو فلسطینیوں کی خونریزی سے روکا نہ گیا تو خطے میں امن کا قیام ممکن نہ ہوسکے گا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب نے بھی جنگ بندی کی قرارداد منظور نہ ہونے کو ہدف تنقید بنایا ہے۔

سپین اور عراق نے بھی ان حملوں کی مذمت کی ہے جبکہ یورپی برادری نے اسرائیل سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ، آسٹریلیا، ترکی، شام، مراکش، انڈونیشیا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یونان، جاپان، سپین، پاکستان، ایران، عرب ممالک اور خلیجی ریاستوں میں لاکھوں افراد نے اسرائیل کے خلاف مظاہرے کئے اور اسرائیل امریکہ اور برطانیہ کے پرچم نذر آتش کئے گئے۔ ان مظاہروں میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچوں نے بھی حصہ لیا۔ امریکی مظاہرین نے بش کو دہشت گرد نمبر1قرار دیتے ہوئے اس کے پتلے پر لکھا تھا کہ” امریکی ڈالر اسرائیل کے جنگی جرائم پر مت خرچ کرو“، ”امریکی ٹیکس دہندگان کے ڈالرز اسرائیل کے جنگی جرائم کے لئے نہیں“۔ سعودی عرب میں فلسطینیوں کی امداد کے لئے باقاعدہ مہم شروع ہوگئی ہے شاہ عبد اللہ نے اس کے لئے 30ملین ریال فراہم کر دیئے ہیں۔

امریکہ، برطانیہ اور اکثر مغربی ممالک نے ممبئی بم دھماکوں کے بعد بھارت کی بے بنیاد اور مضحکہ خیز الزام تراشی کی بنیاد پر پاکستان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا اور بھارتی موقف کی تائید و حمایت کرتے رہے لیکن اسرائیل کی طرف سے امریکہ کی تائید و حمایت سے طے پائے جانے والے آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے معاہدہ سے صریحاً انحراف اور نہتے فلسطینیوں پر وحشیانہ مظالم کا نہ صرف نوٹس نہیں لیا جا رہا بلکہ امریکہ اور برطانیہ اسرائیل کی کھل کر تائید و حمایت کر رہے ہیں اور حماس کے خلاف اسرائیلی اقدام کو جائز قرار دیتے ہوئے اس کا بھرپور دفاع کیا جا رہا ہے یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں لیبیا کی طرف سے جنگ بندی کے لئے پیش کی جانے والی قرارداد بھی امریکی ضد اور ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اس طرح امریکہ، برطانیہ، فرانس اور دوسرے مغربی ممالک کے نمائندوں نے انپے ملکوں میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں میں شریک لاکھوں مردوں عورتوں اور بچوں کے جذبات کو بھی نظر انداز کر دیا۔

سلامتی کونسل کی قرارداد کا حشر دراصل عالم اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف امریکہ و برطانیہ سمیت دوسرے مغربی ممالک کی عصبیت کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ اس حوالے سے تنازعہ کشمیر کے متعلق سلامتی کونسل کی قراردادوں کا حشر بھی ان ملکوں کی جانبداری و غیر حقیقت پسندانہ طرزعمل اور امن دشمن پالیسیوں کی غمازی کرتا ہے۔ اس پس منظر میں پوری امت مسلمہ اور 56 کے لگ بھگ آزاد و خودمختار مسلمان ممالک اور ان کی واحد نمائندہ تنظیم او آئی سی کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معروضی حالات، زمینی حقائق اور پوری امت مسلمہ کے خلاف اسلام دشمن قوتوں اور طاقتوں کی سازشوں کا حقیقت پسندانہ ادراک اور ان کے رویئے کے حوالے سے تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی سلامتی، آزادی خود مختاری اور بقاء کی فکر کرے اور اس پہلو پر بطور خاص غور و فکر کیا جائے کہ مقبوضہ کشمیر، فلسطین، چیچنیا، عراق اورافغانستان میں مسلمانوں سے ہونے والے سلوک اور ان پر وحشیانہ مظالم کی انتہا کیا ہوگی؟ ہمارے دشمن چاہتے کیا ہیں؟ اور دوستی کے روپ میں ان کے گھناؤنے عزائم کے اغراض و مقاصد کیا ہیں؟

اگر اسرائیل فلسطینیوں کو ان کا بنیادی اور قانونی حق دینے کے لئے تیار نہیں اور امریکہ سمیت اسرائیل کے حامی ممالک اس کے مظالم کی تائید و حمایت میں سرگرم اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور اسرائیل ایک بلدیاتی ادارے سے مشابہہ ایک نیم خود مختار ریاست کا وجود برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تو پھر اس صورتحال پر مہر بلب رہنا دوسرے مسلمان ممالک کو بھی اس حشر سے دوچار کر سکتا ہے اگر امت مسلمہ نے اجتماعی سطح پر اس کا نوٹس نہ لیا اور اپنی بقا کی فکر نہ کی تو بقول اقبال: تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ان کا مقدر بن کر رہ جائے گا۔

لینک کوتاه:

کپی شد