جمعه 15/نوامبر/2024

فرانسیسی صدر کی مشرق وسطی میں بے وقت دلچسپی

ہفتہ 2-اگست-2008

14 جولائی 2008ء کو پیرس میں فرانس کے صدر سرکوزی کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں میڈیٹرینین یونین کی بنیاد رکھی گئی جس میں 43 ممالک کے سربراہوں  نے شرکت کی- یونین کے ممبران میں سے 27 کا تعلق یورپ اور 12 میڈیٹرینین ممالک سے ہے- اس کانفرنس کی سب سے اہم بات اس میں مشرق وسطی کے ممالک کو بھی شرکت دی گئی تھی- اس میں شامل ممالک یورپی یونین کے ممبر بھی تھے، مگر مشرق وسطی سے محمود عباس کے علاوہ کسی سربراہ نے یورپی یونین میں شرکت نہیں کی تھی- یورپی یونین کے ممبران کے علاوہ جنہوں نے میڈیٹرینین یونین میں بھی شرکت کی، ان میں الجیریا، مصر، اسرائیل، اردن، لبنان، فلسطین، شام، تنزانیہ اور ترکی شامل ہیں- فرانسیسی صدر سرکوزی نے لیبیان کے صدر معمر قذافی کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی مگر انہوں نے یہ دعوت ٹھکرادی-
اس یونین کے قیام کی سب سے بڑی وجہ 2010ء تک پورے زون کو فری ٹریڈ زون بنانا ہے جو کہ علاقے کے سیاسی بحران کی وجہ سے تکمیل کے مراحل میں داخل نہیں ہو رہا تھا- یونین کا باقاعدہ اجلاس اتوار کو پیرس ’’گرینڈ پیلس‘‘ میں منعقد ہوا جس کا مقصد جنوب اور شمال کے ممالک میں اتحاد قائم رکھنا ہے- اس کانفرنس کی اہمیت کی بڑی وجہ شام، لبنان، اسرائیل اور فلسطین کے سربراہوں کی اس میں شرکت ہے-
ترکی کے صدر نے بھی اس کانفرنس میں شرکت کی اور ترکی کو یورپ کی جانب سے درپیش مسائل پر بھی تبادلہ خیال ہوا- صدر سرکوزی نے ترکی کو یقین دہانی کرائی کہ وہ ترکی کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں اس کی مدد کرے گا اور اس کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو دور کرے گا اور خود رکاوٹ نہیں بنے گا- ترکی نے اسرائیل اور شام کے درمیان مذاکرات میں کامیابی کے لیے اہم رول ادا کیا جس کے نتیجے میں قیدیوں کا تبادلہ عمل میں آیا اور اس پر عمل درآمد بھی شروع ہوگیا ہے-
یونین کے تعارفی اجلاس میں ’’سرکوزی‘‘ کے ساتھ مصری صدر حسنی مبارک بیٹھے تھے جنہوں نے عرب سربراہوں کی تعریفیں اور شکریہ ادا کیا ہے- حسنی مبارک نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میڈیٹرینین یونین کا قیام مشرق وسطی میں موجود بحران کو امن میں تبدیل کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے- جس کے جواب میں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا کہ ہم (فلسطین اور اسرائیل) تاریخ میں کبھی بھی اس طرح اور اتنے قریب نہیں آئے جتنا اس کانفرنس نے انہیں کردیا ہے-
میڈیٹرینین یونین کے اجلاس میں سرکوزی نے مشرق وسطی کو ہتھیاروں سے پاک کرنے کا عزم بھی کیا ہے اور اس یونین میں موجود مشرق وسطی کی طرف سے آئے ہوئے راہنماؤں سے تعاون کی درخواست بھی کی ہے- اس یونین کے قیام کے مقصد کو سرکوزی نے 6 نکات میں بیان کیا ہے- 1- میڈیٹرینین ممالک میں آبادی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کنٹرول کرنا- 2- سمندر میں تجارت کیلئے راستے تلاش کرنا- 3- سول پروٹیکشن نیٹ ورک کا حصول- 4- شمالی ممالک میں شمسی توانائی کو استعمال میں لانے کیلئے منصوبہ بندی- 5- یورومڈ یونیورسٹی کا قیام- 6- چھوٹے سرمایہ کار ممالک میں ترقیاتی منصوبوں کا انعقاد- اس یونین کا بنیادی ایجنڈا انہیں چھ نکات پر مشتمل ہے-
پانی کے استعمال کے متعلق منصوبوں آنے والے سالوں میں ہونے والی کانفرنسوں تک ملتوی کردیا گیا- ان منصوبوں میں پانی کو پینے کے لیے صاف کرنا اور کاشت کاروں کیلئے استعمال ہونے والے پانی کا بروقت حصول شامل ہے- جرمنی کی طرف سے اس یونین کے بنانے پر ’’سرکوزی‘‘ کو بڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ستائیس یورپی ممالک کو بھی اس یونین میں دعوت دی گئی- فرانس نے شام اور لبنان میں اپنے سفارت خانے کھولنے کا اعلان بھی کیا- جس کو مشرقی وسطی میں بڑی حیرت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے- لیکن لبنان اور شام کے سربراہوں نے اس قدم کو مثبت اور خوش آئند قرار دیا ہے-
سرکوزی نے یونین کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شام اور لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہونا ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے- فرانس کے شام اور لبنان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہوگئے اور دوسری طرف لبنان اور شام کے درمیان جاری کشیدگی کو بھی کم کرنے کے لیے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے- ’’سرکوزی‘‘ کے مطابق جس میں کافی حدتک پیش رفت ہوئی ہے- مشرق وسطی میں سب سے اہم ایشو فلسطین اور اسرائیل ہے اور اس کانفرنس میں بھی اس ایشو کو ہی سب سے زیادہ ہوا دی گئی-
امن معاہدے کے نام پر اسرائیل نے فلسطین کے ساتھ معاہدہ کیا جس میں قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا جائے گا لیکن تشویشناک بات یہ ہے کہ نہ ہی اسرائیل نے قیدیوں کی تعداد کا ذکر کیا اور نہ ہی کوئی تاریخ دی ہے- لیکن فلسطین کے صدر محمود عباس نے اس کو بہت خوش آئند قرار دیا ہے- فلسطین میں دو مضبوط جماعتیں ہیں ’’حماس اور فتح‘‘ محمود عباس کا تعلق فتح جماعت سے ہے جس کو مسلم مفکروں کی طرف سے ہر دور میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا- کیونکہ فلسطین میں جب حماس نے فتح حاصل کی اور فلسطینی عوام کی سب سے محبوب جماعت بن گئی- تب امریکہ اور اسرائیل نے فتح کو مضبوط کرنے کیلئے مالی امداد کی اور حماس کے سامنے لاکر کھڑا کردیا-

اس کانفرنس میں اسرائیل کا رویہ بہت زیادہ حیران کن تھا- اسرائیل نے ہر ڈیل اپنے جارحانہ رویے کے منافی کی اور مشرق وسطی میں جاری کشیدگی کو کم کرنے کیلئے شام، لبنان، فلسطین کی تمام شرائط کو مان لیا جو حیران کن ہونے کے ساتھ تشویشناک بھی ہے- جس کی وجہ سے فتح کو اسرائیل کی نمائندہ سمجھا جاتا ہے اور امن معاہدہ بھی اسرائیل اور فتح کے درمیان ہوا نہ کہ حماس کے درمیان- حماس نے اس معاہدے کو ماننے سے انکار کردیا اور بیان دیا کہ یہودی مسلمانوں کے کیونکر دوست ہوسکتے ہیں اور اس معاہدے میں بھی اسرائیل کے مذموم مقاصد شامل ہیں اور ان مقاصد کو امریکی پشت پناہی حاصل ہے-

فتح مسلمانوں کی وہ واحد جماعت ہے جس کو کبھی تاریخ میں اسرائیل اور امریکی تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑا- ’’حماس‘‘ فلسطین کی وہ واحد جماعت ہے جس کو عوامی حمایت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ پوری مسلم دنیا کی بھی حمایت حاصل ہے مگر امریکہ اور اسرائیل نے اسے دہشت گرد جماعت قرار دیا ہے- فلسطین میں موجود کشیدگی کی اصل وجہ بھی فتح کا امریکہ یورپ اور اسرائیل کی طرف جھکاؤ ہے-

میڈیٹرینین یونین میں ایہود اولمرٹ اور محمود عباس کی ملاقات کو بھی بہت زیادہ نمایاں کیا گیا ہے- اسرائیل نے چونکہ اب مشرق وسطی کے متنازع ممالک سے امن کے نام پر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی پلاننگ شروع کردی ہے-

حزب اللہ، شام، لبنان اور فلسطین یہ وہ عناصر ہیں جو اسرائیل کے مذموم مقاصد کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں- حماس تو کسی صورت میں بھی مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہوسکتی کیونکہ حماس کی قیادت اسرائیل کے مذموم مقاصد کو جانتی ہے- میڈیٹرینین یونین کے اجلاس میں محمود عباس اور ایہود اولمرٹ کا مصافحہ ایک عام سی بات تھی اور ایک دوسرے کو مکمل اعتماد میں لینا بھی- فلسطینی قیادت اور اسرائیلی قیادت کے درمیان مذموم معاملات پہلے ہی طے ہو چکے تھے، صرف مذاکرات کا لبادہ پہنانا باقی تھا جو کہ اس کانفرنس میں پورا ہوگیا-

مشرق وسطی قدرتی وسائل سے مالامال ایریا ہے اس علاقے میں تیل پوری دنیا کو بھیجا جاتا ہے- چونکہ پوری دنیا کی اقتصادیات تیل پر انحصار کرتی ہے جس کی وجہ سے مشرق وسطی کو عالمی طور پر اہمیت حاصل ہے- مشرق وسطی تمام مسلم برادری کا مذہبی گہوارہ بھی ہے جس کی وجہ سے اس کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے- اس علاقے میں موجود کشیدگی کوئی قدرتی نہیں بلکہ مذموم عزائم رکھنے والے ممالک کی پیدا کردہ ہے- اب یورپ اور امریکہ مشرق وسطی میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں جو براہ راست ممکن نہیں کیونکہ مسلمان اپنے مذہب پر سمجھوتہ نہیں کرتے اس لیے امریکہ اور یورپ نے اسرائیل کو سامنے لاکھڑا کیا ہے- یورپ اور امریکہ کا سب سے کارآمد اور فعال ہتھیار اسرائیل ہے وہ اسرائیل کو استعمال کر کے عرب ممالک سے تیل حاصل کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے اسرائیل نے فلسطین میں مظالم کی انتہاء کررکھی ہے اور عالمی برادری خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے-

اسرائیل کے سامنے مجاہدین کی جماعت ’’حماس‘‘ ڈٹ گئی اور اس نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینا شروع کردیا جس سے یورپ اور امریکہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی- لیکن اب امریکہ اور یورپ نے اپنی منصوبہ بندی تبدیل کرلی ہے اب وہ مذاکرات کے ذریعے پہلے پورے عرب کو اعتماد میں لیں اور پھر مناسب وقت پر وسائل پر قبضہ کرلیں-

ان تمام مقاصد کے راستے میں ایران اور حماس کھڑے ہیں فلسطین سے امن معاہدہ شام سے قیدیوں کا تبادلہ حزب اللہ کو اعتماد میں لانا یہ سب اسرائیل کی ایران پر حملے سے قبل پلاننگ ہے تاکہ یہ تمام اس کے سامنے مزاحمت نہ کرسکیں- اب فرانس بھی اسرائیل کے ساتھ اس خطرناک منصوبے کو سرانجام دینے کے لیے سرگرم ہوگیا ہے- اس سے قبل سوشلسٹوں کی کانفرنس میں اسرائیل اور فلسطین کی آمد اور امن مذاکرات پر بات چیت اور اب میڈیٹرینین یونین میں اس موضوع کو سب سے زیادہ ہوا دینا یہ سب کیا ہے؟ اسرائیل نے شام کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی بحال کرلیے ہیں اور متنازعہ علاقوں کے قصے کو بھی شام کی مرضی کے مطابق حل کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ہے-
بظاہر تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسرائیل امن کا متلاشی ہے مگر اسرائیل کی تاریخ اور ایجنڈے پر غور کیا جائے تو یہ پتہ چلے گا کہ اسرائیل صرف اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کس حدتک جاسکتا ہے- ساری دنیا گواہ ہے کہ اسرائیل نے کس طرح مظلوم فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے اور اب بھی ڈھا رہا ہے اور خود امن کی باتیں کررہا ہے- اس کانفرنس کی سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ جن ممالک کو اس یونین کا ممبر بنایا گیا اس کے اپنے بھی بہت زیادہ مسائل ہیں- ان پر صرف ایک نظر ڈالی گئی اور جن مسائل اور تنازعات کا ان سے دور دور تک کا کوئی تعلق نہیں ان کو اس کانفرنس میں سب سے زیادہ زیر بحث لایا گیا- کیوں زیر بحث لایا گیا ہے اس کا کوئی جواب نہیں؟

پورے یورپ میں یہودی لابی بہت زیادہ مضبوط ہے اس نے تقریباً سارے یورپ کی اقتصادیات کو کنٹرول کیا ہوا ہے- فرانس کے شہر میں اس کانفرنس کا انعقاد اور اسرائیلی معاملے کو حل کرنے کی کوشش اس بات کا ثبوت ہے کہ پورا یورپ بھی اسرائیلی مذموم عزائم کے حاصل کرنے میں ان کے ساتھ ہے- امن کا دور اسرائیلی پلاننگ کے مطابق ہو چکا ہے مگر اب تک اسرائیل اور حماس کے درمیان کسی بھی معاہدے خواہ وہ امن پر ہے یا قیدیوں کی رہائی پر آمنے نہیں آیا-

غور طلب بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں جہاں بھی کوئی کانفرنس ہوئی وہاں فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کو زیر بحث لایا جاتا ہے اور اس میں مثبت پیش رفت بھی دکھائی جاتی ہے- مگر یہ کونسا امن معاہدہ ہے جس کے بعد مظلوم فلسطینیوں کی لاشیں تحفے میں دی جاتی ہے-

میڈیٹرینین یونین ہو یا سوشلسٹ کانفرنس امن معاہدے طے ہوتا ہے مگر اسرائیل سے سوال نہیں کیا جاتا کہ وہ کیوں ہر روز کسی نہ کسی فلسطینی باشندے کی لاش امن کے نام پر فلسطینی حکام کو یہ باور دلانے کیلئے بھیجتا ہے کہ یہ امن معاہدہ صرف نام کا ہے اصل میں اسرائیل فلسطین کو قبول نہیں کرسکتا؟

اگر اسرائیل اس طرح کرتا ہے تو اس کو حق خود ارادیت کہا جاتا ہے، اگر ’’حماس‘‘ ایسا کرتی ہے تو اس کو دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے- مسلم برادری کو ظاہری طور پر سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اسرائیل کیا کررہا ہے تو اس کو اس کے مذموم مقاصد کا کیسے پتہ چل سکتا ہے؟ جب امریکہ اور اب یورپ بھی اسرائیل کی نمائندگی کررہے ہیں- میڈیٹرینین یونین صرف اور صرف اسرائیل کے منصوبوں اور مقاصد کا حصہ ہے اور کچھ نہیں-

لینک کوتاه:

کپی شد