اسرائیلی اور یورپی میڈیا سمیت کسی بھی خبررساں ایجنسی نے فلسطینیوں کے راکٹ حملوں کے نتیجے میں اسرائیلی ہلاکتوں کی تفصیل اس سے زیادہ نہیں بتائی کہ ایک اسرائیلی ہلاک یا زخمی ہوا ہے یہ ہے حماس اور اسرائیل جنگ جو گزشتہ ہفتہ سے جاری ہے اور جس کے لئے اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ جنگ بندی نہیں کرے گا۔
سوال یہ ہے کہ جنگ دو ملکوں کے درمیان ہوتی ہے جبکہ یہ دو ملکوں کے درمیان جنگ نہیں بلکہ فلسطینی عوام پر اسرائیل کی مسلط کردہ جارحیت ہے اور اس بات کی دلیل اسرائیل کے صفر کے مقابلے میں 400فلسطینیوں کی شہادت اور ہزاروں زخمیوں کی موجودگی ہے۔
مغربی میڈیا ، مغربی ممالک اور چند عرب ممالک کے سربراہوں سمیت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی اس جارحیت کو جو نہتے فلسطینیوں پر گزشتہ ہفے سے جاری ہے جنگ قرار دیا ہے۔ اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے امریکہ ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی جانب سے جنگ بندی کی اپیل کی جارہی ہے جبکہ حقیقتاً یہ جنگ ہے ہی نہیں۔ اسرائیل نے اس اپیل کو مسترد کردیا ہے چونکہ اسے پتہ ہے کہ یہی وہ ادارہ اور ممالک ہیں جو اس کے خلاف پیش ہونے والی ہر قرارداد کو ویٹو کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں اور اسرائیل کے قیام سے لے کر آج تک اس کے خلاف کوئی قرارداد پاس نہ ہونے دینے میں مرکزی رول ادا کرتے ہیں۔
انتہائی قابل مذمت مصر کے صدر کا وہ بیان ہے جو انہوں نے اسرائیلی وزیر خارجہ کے ہمراہ قاہرہ میں مشترکہ پریس کانفرنس میں دیا جو شاید اسرائیل، امریکہ اور ان کے حلیفوں کے لئے پیغام تھا کہ حماس کو سبق سکھایا جائے اس کی دلیل یہ ہے کہ غزہ سے ملحق مصری سرحد بند کردی گئی ہے۔ اس طرح مصر نے عملی طور اور عرب ممالک کے سربراہوں نے اپنی خاموشی اور غیر منطقی تجاویز سے یہ ثابت کردیا ہے کہ انہیں حماس کے سیاسی عمل اور آزادی کی جدوجہد سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ان ہی وجوہات پر حماس کے مرکزی رہنما خالد مشعل جو خود ٹارگٹ کلنگ میں بال بال بچے ہیں نے عرب ممالک کی خاموشی پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے مصر کی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غزہ میں بدترین انسانی حالات کے باوجود مصر نے فلسطینی انتظامیہ میں لوگوں کو درپیش شدید مشکلات کے باوجود اپنی سرحدوں کو بند کردیا ہے دوسری جانب ایران کی جانب سے فلسطینیوں کے لئے بھیجی گئی امداد کو مصر نے روک لیا ہے۔
ایرانی وزیر صحت نے کہا کہ مصر کی حکومت غزہ کے مظلوم عوام کے لئے ایران کی بھیجی ہوئی امداد پہنچنے نہیں دے رہی۔ علاوہ ازیں ایران نے سیکڑوں ماہر ڈاکٹروں اور ایک ہزار نرسوں پر مشتمل طبی ٹیم غزہ کے لئے روانہ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن مصر کی حکومت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی۔ اسرائیلی جارحیت پر ایرانی طلبا، عوام اور مذہبی حلقوں میں اس قدر اشتعال پایا جاتا ہے کہ 5طلبا تنظیموں نے ایرانی صدر کو کھلا خط لکھا ہے جس میں ان سے اجازت مانگی ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر غزہ میں محبوس فلسطینیوں کی حمایت اور مدد کے لئے جانا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے وہ اپنی جانوں سے کھیل جائیں گے اسرائیل نے پیس انٹرنیشنل ایکٹیوسٹس (Peace international Activists) کی ٹیم جس کے ساتھ دوائی بھی تھیں غزہ جانے سے نہ صرف یہ کہ روک دیا بلکہ کشتی کو بھی نقصان پہنچایا۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ نے غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف مظاہرے میں لاکھوں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے غزہ میں فلسطینیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمہارا درد ہمارا درد ہے اور تمہارے زخم ہمارے زخم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی فضائیہ فلسطینی مجاہدین کو سرنگوں نہیں کرسکے گی انہوں نے اسرائیل کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے زمینی کارروائی کی تو اسے حماس کے فلسطینی مجاہدین کے ہاتھوں سوائے ہزیمت اور نقصان اٹھانے کے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
انہوں نے مصر پر تنقید کرتے ہوئے سرحد کھولنے کا مطالبہ کیا انہوں نے کہا کہ مصر غزہ میں فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم میں اسرائیل کا شریک ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں پریقین ہوں اسرائیل کتنے ہی ظالم ڈھالے فتح بہرحال ہماری ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کو کچھ عرب ممالک کی آشیر باد حاصل ہے اور یہ وہ ممالک ہیں جنہوں نے اسرائیل سے امن معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم مصر سے اسرائیل کے خلاف جنگ میں شریک ہونے کے لئے نہیں کہہ رہے ہیں چونکہ غزہ میں لڑنے کے لئے بہت لوگ موجود ہیں ہم تو بس یہ چاہتے ہیں مصر فلسطینیوں پر مزاحمت روکنے کے لئے دباؤ نہ ڈالے۔ مشرق وسطی کے ممالک کے دو دھڑے ہوگئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الفتح اور حماس کی ناراضگی کو جو 2007 میں شروع ہوئی تھی اس کا اب کیوں اظہار کررہے ہیں اور اگر یہ مسئلہ ان کی نظر میں اسی قدر حساس تھا تو جب شروع ہوا تھا اس وقت کیوں نہیں انہوں نے اس طرف توجہ دی۔
دوسرا دھڑا شام، ایران اور ان کے اتحادیوں حماس اور حزب اللہ پر مشتمل ہے۔ امریکہ نواز اتحادی خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر تحفظات رکھتے ہیں اور خوفزدہ ہیں کہ ایران حماس کے ذریعہ غزہ میں قدم جمالے گا ۔ یہ صورت حال مشرق وسطی کے ممالک میں بڑی تبدیلیوں کی نشاندہی کررہی ہے۔اللہ انہی کی مدد کرتا ہے جو اپنے حق پرستانہ موقف پر اپنی جانیں قربان کریں۔ حماس اور حزب اللہ اس کی زندہ مثال ہیں۔ اس قدر قربانیاں دے چکے ہیں کہ اب عنقریب الٰہی مدد ان کے شامل حال ہوگی۔