جمعه 15/نوامبر/2024

غزہ کا پر امن مستقبل، ایک خواب

اتوار 12-جولائی-2009

انتہا پسند صہیونی انتظامیہ کی جانب سے فلسطینی ریاست کی قبولیت کی سخت شرائط نے عالمی برادری خصوصاً مسلم برادری پر اچھی طرح واضح کردیا ہے کہ غزہ کا پر امن مستقبل صرف ایک خواب ہے- فلسطینی قوم اپنی ہی ریاست کو صہیونی ریاست بنتے ہوئے دیکھنے کا صدمہ برداشت کر چکی ہے-
 
صہیونی ریاست نے اپنی ریاست کے تحفظ و بقاء کے لئے فلسطینیوں کا جینا اجیرن کر رکھا ہے- غزہ کے باسیوں کی زندگی جہنم سے کم نہیں اور اسے جہنم بنانے والے ہیں متعصب، کٹر اور انتہا پسند یہودی جو فلسطینی ریاست پر اپنا حق جتاتے ہوئے فلسطینیوں پر نہ صرف ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتے رہے بلکہ مزید یہودی بستیوں کی تعمیر بھی ڈھٹائی سے کر رہے ہیں-

یہی وجہ ہے کہ کل تک وہی حماس جسے یورپی یونین، امریکہ اور دیگر مغربی اقوام نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا اور اس سے مذاکرات سے ہمیشہ انکار کیا، اب حماس سے مذاکرات کو لازم خیال کر رہے ہیں- اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ امریکہ نے صدر جمی کارٹر کے ذریعے اپنے حالیہ دورہ غزہ میں حماس کو براہ راست مذاکرات کی دعوت دی ہے، اس کا انکشاف حماس کے سینئر رکن مشیر المصری نے کیا ہے-

انہوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سابق امریکی صدر جمی کارٹر کی جانب سے ایک خط ملا ہے جس میں انہوں نے ذاتی کوششوں کے ذریعے حماس کے ساتھ مذاکرات شروع کروانے کی پیشکش کی ہے- مشیر المصری غزہ میں جمی کارٹر اور حماس کے وزیر اعطم اسماعیل ھنیہ کی ملاقات کے درمیان موجود تھے-
 
انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت سابق امریکی صدر کی تجویز کا جائزہ لے گی، مگر انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حماس مشرق وسطی کے بارے میں گروپ فور کی تین شرائط کو تسلیم نہیں کرے گا- اقوام متحدہ، یورپی یونین، امریکہ اور روس پر مشتمل گروپ 4-   حماس سے اسرائیل کو نہ صرف تسلیم کرنے کا مطالبہ کر چکا ہے بلکہ اس نے حماس سے یہ بھی مطالبات بھی کئے ہیں کہ وہ تشدد کی مذمت کرے اور اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ماضی میں طے کئے جانے والے معاہدوں کو قبول کرتے ہوئے ان کا لحاض بھی کرے-

حماس کے قریبی ذرائع نے اپنی شناخت پوشیدہ رکھنے کی شرط پر کہاہے کہ جمی کارٹر کا منصوبہ در اصل شرائط کا ایک متبادل ہے جس کے تحت حماس نے 2003ء میں پیش کئے گئے مشرق وسطی امن روڈمیپ کے مطابق دو ریاستی حل سے اتفاق کیا تھا، جبکہ اس نے 2002ء میں عرب لیگ کے پیش کردہ امن منصوبہ کو بھی تسلیم کیاتھا- امریکہ کا حماس کے بارے میں رویہ تبدیل ہو جانے کے بعد امریکی اشاروں کے منتظر متنازعہ فلسطینی صدر محمود عباس کے رویہ میں بھی لچک آئی ہے، جو در اصل امریکی رجحانات کی بدلتی رو کا باعث ہے- اس کا نتیجہ بھی برآمد ہونا شروع ہو گیا ہے-
 
عباس کی فتح تنظیم کے دہشت گرد کے نزدیک بھی حماس ایک متشدد تحریک ہے- در حقیقت فتح کا حماس کو متشدد قرار دینا صرف اسی وجہ سے ہے کہ حماس اپنے ارادوں میں اٹل اور مضبوط ہے- وہ فلسطین کی آزادی اور خود مختاری کا سودا کرنے کے لئے کوئی شرط قبول کرنے کو تیار نہیں ہے- حماس کو اس موقف سے پیچھے ہٹانے کے لئے ہندوستانی مراعات کا لالچ دیا گیا، خوف اور دباو بھی مسلط کرنے کی کوشش کی گئی-

جب کام کسی طور نہ بنا تو حماس کے کارکنوں اور غزہ کے باسیوں پر وہ قہر توڑا گیا کہ آسمان بھی روتا ہو گا کہ مگر صد تحسین تنظیم حماس کو کہ اس نے حوصلہ نہیں ہارا اور باطل کے سامنے ڈٹی ہوئی ہے- امریکہ نے حماس کو توڑنے کے لئے اس کو فنڈز اور مالی امداد فراہم کرنے والی تنظیموں تک پابندی لگا دی تاکہ حماس کی کمر توڑ کر رکھ دی جائے- امریکہ نے مسلمانوں کی فلاحی تنظیموں کے لئے کام کرنا مشکل مشکل کر دیا ہے- امریکہ کا کہنا ہے کہ بعض تنظیمیں فلاحی کاموں کی آڑ میں دہشت گردی کی کاروائیوں کے لئے رقوم فراہم کرتی رہی ہیں-

مسلم فلاحی اداروں کا آزادی پسند تنظیموں کی مدد کرنا تو کجا مسلمانوں کے لئے خیرات و زکوۃ کے بارے میں مدد کی مد میں اپنے مذہبی احکام تک پر عمل کرنا مشکل ہو گیا ہے-  اس قسم کی پالیسیاں فائدے کی بجائے الٹا نقصان کا باعث بن رہی ہیں- امریکن شہری آزادی تنظیم (آئی سی ایل یو) نے اپنی رپورٹ میں امریکہ کی حکومت پر تنقید کی ہے کہ اس نے امریکی مسلمانوں کی 9فلاحی تنظیموں کو بند کردیا ہے- امریکی حکومت نے یہ اقدام ایک تنظیم پر یہ الزام لگاتے ہوئے کیا تھا کہ اس نے دہشت گردی کے لئے مالیہ ایک تنظیم کو فراہم کیا ہے-

حالانکہ اس تنظیم نے اپنی وضاحت میں بتایا تھا کہ اس نے مذکورہ تنظیم (حماس) کو امداد فلاحی و انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دی ہے، اس کے لئے اسے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے- امریکہ کے اس متعصبانہ اقدام سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ مسلمانوں کے مسائل کو کیا حل کرے گا، وہ تو یہ تک بھی پسند نہیں کرتا ہے کہ مسلمان تنظیموں کی مدد کرے- حماس آزادی پسند، حریت پسندتحریک ہے نہ کہ دہشت گرد، چوں کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کے لئے خصوصاً فلسطینی قوم کی آزادی کے لئے متحرک ہے، جو کہ امریکہ اور اسرائیل کے لئے سب سے بڑا گناہ ہے- اس لئے وہ حماس کو حریت پسند تحریک کے دائرے سے باہر نکال کر اس کا متشدد، انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیم کا لقب دیتے ہیں- ہولی لینڈ فائونڈیشن امریکہ کی سب سے بڑی تنظیم تھی، محکمئہ حزانہ نے اسے دسمبر 2001ء میں ختم کر دیا اور جواز یہ دہرایا کہ شواہد کے مطابق یہ تنظیم فلسطینی گروپ حماس کو رقم فراہم کر رہی تھی، جسے امریکی حکومت نے دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے-
 
حماس کو رقم فراہم کرنے پر ہولی لینڈ فائونڈیشن کی سرکردہ ارکان کو مجرم قرار دیا گیا اور طویل مدت کی قید کی سزائیں دی گئیں-اس تنظیم کا کوئی جرم نہیں تھا سوائے اس کے کہ اس نے ایک آزادی پسند تنظیم کی مدد کی- حماس کے دو ونگ ہیں- ایک عسکری دوسرا عمومی یا فلاحی، جو کہ فلسطینیوں کے لئے ہسپتال، مساجد، اور دیگر فلاحی سرگرمیاں سر انجام دیتا ہے- عسکری ونگ آزادی کے لئے فعال ہے-
 
حماس کے دونوں شعبوں میں جائز حقوق کے لئے کام کرنے کی لگن اور جذبہ نظر آتا ہے، نہ کہ دہشت گردی کی کاروائیاں مگر حماس کو امریکہ، یورپ اور دیگر اتحادی اقوام سرف اس لئے دہشت گرد قرار دیتی ہیں کہ وہ اسرائیل کے حملوں کے جواب میں راکٹوں سے اپنا دفاع کیوں کرتا ہے؟ یا فلسطینیوں کے حقوق سے دستبردار ہو کر سودے بازی پر کیوں نہیں اترتا یا اسرائیلی مظالم کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کیوں بن جاتا ہے؟

امریکہ کا یہ الزام ہے کہ یہ دہشت گرد تنظیم کے ارکان کا حصہ تھی- اپنی سرگرمیوں کو فلاحی کام بنا کر پیش کر رہی تھی- مسلمانوں کو فلاحی تنظیموں کے بارے میں امریکی حکومت نے اس وقت کارروائی کی جب اسرائیل سے گرفتار ہونے والے شخص نے معلومات فراہم کیں کہ یہ تنظیم حماس کو اعانت دے رہا ہے-
جمی کارٹر نے اپنے ایک مقالے میں لکھا ہے ’’میں نے 36سال قبل 1980ء کے دوران اور بعد میں غزہ کا دورہ کیا تھا جب وہ خاصا خوشحال اور امن پسند علاقہ تھا- اب بموں، میزائل، ٹینک، بلڈوزر اور اقتصادی پابندیوں نے غزہ میں تباہی، دکھ اور مصائب کے سوا کچھ نہیں چھوڑا- افسوس کی بات یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری غزہ کے شہریوں کی مدد کی پکار کو مسلسل نطر انداز کر رہی ہے اور ان کے ساتھ انسانوں کی بجائے جانوروں جیسا سلوک کر رہا ہے- گزشتہ دنوں انسانی حقوق کے ادارے کا ایک گروپ غزہ کے شہریوں خصوصاً بچوں کے لئے کھلونے، کچھ کھانے پینے کی چیزیں اور دیگر اشیاء لے کر گیا مگر انہیں غزہ میں داخلے سے روک دیا گیا- جب اسرائیلی حکام سے وجہ پوچھی گئی تو وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے-

غزہ کی اس دردناک صورتحال کی ذمہ داری اسرائیل، قاہرہ، واشنگٹن اور تمام بین الاقوامی برادری پر عائد ہوتی ہے- جرائم کی تحقیقات ضرور ہونی چاہئے مگر دیواروں کو بھی ڈھا دینا چاہئے تاکہ رابطہ آسان ہوں- انسان کے بنیادی حقوق کو ہر صورت سر فہرست رکھنا چاہئے، غزہ کے 1.5ملین باشندوں میں ایک حصہ غزہ کے بچے ہیں جن کی زندگیاں غربت، بھوک، تشدد اور مایوسی میں گزر رہی ہیں-

                                                                                                                       (بشکریہ :اعتماد)

لینک کوتاه:

کپی شد