چهارشنبه 30/آوریل/2025

غزہ پر جارحیت اسرائیل کی کامیابی آسان نہیں

اتوار 11-جنوری-2009

جنگ کے بارے میں غیر یقینی کیفیت ہی اصل مشکل ہے- کچھ حد تک اس کے جواب کا انحصار جنگ کرنے والے فریق کی جانب سے متعین کردہ نشانوں پر رہتا ہے-

یہاں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر حملہ جہاں فلسطینیوں کی 1.5 ملین کی آبادی پر مسلسل فضا، زمین اور سمندر کی جانب سے بمباری اور گولہ باری کی جاری ہے- اس نے ٹینک اور اپنی پیدل فوج کو بھی اس علاقے میں داخل کردیا ہے- اسرائیل کا مقصد واضح نہیں ہے- اسرائیل کا یہ مقصد بتایا جارہا ہے کہ وہ بھاری فوجی طاقت کی مدد سے اس علاقے پر قابو پانا چاہتا ہے تاکہ اس طرح کی کارروائی سے مستقبل میں اسرائیل کے جنوبی علاقے پر حماس کے راکٹ اور مارٹر حملوں کی کارروائی کا خاتمہ کیا جائے-

اسرائیل یہ بھی چاہتا ہے کہ 2006ء میں لبنان پر حملے کے موقع پر حزب اللہ کی شدید مزاحمت کے نتیجہ میں اسے جو ہزیمت اٹھانی پڑی تھی یہاں وہ اس کا نفسیاتی مداوا کرلے- اس وقت اسرائیل نے بہت بڑا حملہ کیا ہے جو انتہائی ظالمانہ اور سفاکانہ ہے اور گزشتہ ساٹھ برس کے عرصہ میں یہودیوں نے فلسطینیوں کے خلاف ایسا حملہ شائد ہی کیا ہے- رہائشی اور تجارتی علاقے تباہ کردیئے گئے ہیں-
 
اب تک سینکڑوں فلسطینی شہری شہید ہوچکے ہیں لیکن کیا اسرائیل حماس کو ختم کرسکا ہے؟ جب تک وہ ایسا نہیں کرتا وہ کامیابی حاصل نہیں کرے گا- اس کے برخلاف یہ اسلامی تنظیم فلسطینیوں کی ایک مضبوط مزاحمت کے ساتھ سامنے آئی ہے- ششماہی جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل کے جنوبی علاقوں پر حماس کی جانب سے مسلسل راکٹ و مارٹر حملے غزہ پر اسرائیل کی یلغار کا ’’فوری سبب‘‘ بتائے جاتے ہیں- (اگرچہ حقائق کے مقابلے ان دعوئوں میں اتنی جان نہیں ہے) اس میں جو وسیع تر سیاسی مسائل شامل ہیں وہ بہت پیچیدہ نوعیت کے ہیں- تاہم حماس شریعت کے مطابق اسلامی نظریہ حکومت کی داعی ہے-
 
مسلح جدوجہد کے تعلق سے حماس ناگواری بھی محسوس نہیں کرتی- حماس کو انتخابات میں الفتح کے مقابلے میں اکثریت حاصل ہوئی- مغرب اور اسرائیل نے ان کی اس کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا- اس سلسلے میں ایک علیحدہ انداز اختیار کیا جاتا تو شاید پرامن نتائج برآمد ہوتے لیکن حماس کی بین الاقوامی امداد بند کردی گئی اور معاشی ناکہ بندی کردی گئی- فتح کے برخلاف حماس نے فلسطینی مسئلہ کا دو ریاستوں پر مبنی حل کو قبول نہیں کیا-

بہر حال مذاکرات کرتے ہوئے اس کے نظریے کی شدت میں کمی کی جاسکتی تھی اور تصادم سے دوری اپنانے کے لیے معقولیت اختیار کرنے مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے میں مدد کی جاسکتی تھی لیکن واشنگٹن نے سلامتی کونسل کی جانب سے جنگ بندی لاگو کرنے کے موقع کو اپنے صدارتی بیان سے روک دیا-

ریاست ہائے متحدہ امریکہ شاید حماس کو فوجی اعتبار سے ختم کرنے کا اسرائیل کو موقع فراہم کرنا چاہتا ہے- یہ شاید اسرائیل اور امریکہ کا حقیقی مقصد ہے- سیاسی طور پر انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہوئی تنظیم کا خاتمہ کیا اتنا آسان ہے؟ اس تعلق سے متبادل انداز یقینا مناسب رہے گا- امریکہ کے نئے منتخب صدر باراک اوباما کو چاہیے کہ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے لیے وہ اس بات کو ذہن میں رکھیں-

لینک کوتاه:

کپی شد