”اگر میں کوئی عرب لیڈر ہوتا تو اسرائیل سے کبھی سمجھوتہ نہ کرتا۔یہ ایک فطری بات ہے ۔ ہم نے اُن سے اُن کا ملک چھینا ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ ہمارا تعلق اسرائیل سے ہے لیکن یہ دوہزار سال پہلے کی بات ہے۔ فلسطینیوں کا بھلا اس سے کیا واسطہ۔ ہاں دنیا میں یہودی مخالف تحریک، نازی، ہٹلر ، آش وِٹز سب رہے ہیں، مگر کیا اس کے ذمہ دار فلسطینی ہیں؟وہ صرف ایک چیز دیکھتے ہیں: ہم یہاں آئے اور ہم نے ان کا ملک چرا لیا۔آخر وہ اس چیز کو کیوں قبول کریں؟‘۔ امریکی محققین پروفیسر جان میئر شیمر اور پروفیسر اسٹیفن والٹ نے اپنی کتاب ”دی اسرائیل لابی اینڈ یوایس فارن پالیسی“ میں ڈیوڈ بن گوریان کا یہ خط نقل کیا ہے۔
یہ الفاظ ڈیوڈ بن گوریان کے ضمیر کی آواز ہیں۔ یہ کھلا اقبال جرم ہے ۔یہ ایک تاریخی حقیقت کا اعتراف ہے جس سے انکار کرنے والے خود بھی اپنے جھوٹے اور بددیانت ہونے کو جانتے ہیں ۔ اس لیے جو عالمی طاقتیں اسرائیل کی پشت پناہی کرتی چلی آرہی ہیں اور آزادی کی جدوجہد کرنے والے فلسطینی عوام کو دہشت گرد قرار دیتی ہیں، وہ جان بوجھ کر ظلم اور بے انصافی کی مرتکب ہورہی ہیں۔ ورنہ کسی سرزمین پر ناجائز قبضہ کرنیوالوں کے خلاف اس ملک کے لوگوں کی جدوجہد آزادی کے جائز ہونے کا اعتراف اسرائیل کے سب سے بڑے سرپرست ، افغانستان اور عراق پر فوجی طاقت کے بل پر تسلط حاصل کرنے والے ملک امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش تک کھلے لفظوں میں کرچکے ہیں۔ اپنے دور اقتدار میں فرانس کے جریدے پیرس میچ کو جون 2004ء میں دیے گئے انٹرویو میں دہشت گردوں اور مجاہدین آزادی کا فرق واضح کرتے ہوئے جارج بش نے کہا تھا:” خود کش بمبار دہشت گرد ہیں مگر دوسرے لڑنے والے نہیں ہیں۔وہ تو بس یہ چاہتے ہیں کہ ان پر کسی کا قبضہ نہ رہے۔اور یہ تو کوئی بھی، حتیٰ کہ خود میں بھی نہیں چاہوں گا۔یہی وجہ ہے کہ ہم انہیں ان کی خودمختاری واپس دے رہے ہیں۔ہم تیس جون سے انہیں مکمل خودمختاری کی ضمانت دے رہے ہیں۔“(پیپلز ڈیلی، 3 جون2004ء)۔
غزہ کے حریت پسندوں کی جدوجہد اور ان کے خلاف اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیوں کو ان حقائق اور اعترافات کی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ محض دو یکساں اخلاقی پوزیشن رکھنے والے فریقوں کا تنازع نہیں ہے ۔یہ دو ملکوں کا کوئی سرحدی اختلاف نہیں ہے۔ یہ کسی غلط فہمی کے سبب شروع ہوجانے والا جھگڑا نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس میں ایک طرف ثابت شدہ غاصب، ڈاکو ،قاتل اور منصوبہ بندی کے ساتھ ارتکاب جرم کرنے والے مجرم ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو یقینی طور پر ان کے ہاتھوں ڈکیتی اور قتل و غارت گری کا نشانہ بنتے چلے آرہے ہیں۔ مگر جن کے ہاتھوں میں دنیا کے معاملات ہیں، جو دنیا میں امن اور انصاف قائم کرنے کے دعویدار ہیں اور اس کے لیے طاقت ، اختیارات اور وسائل بھی رکھتے ہیں، وہ اقراری مجرموں کے پشت پناہ اور سرپرست ہی نہیں بنے ہوئے ہیں بلکہ خود پوری طرح شریک جرم ہیں اور اُن ہی کی شہ پر ساٹھ سال سے فلسطینیوں پر آزادی مانگنے کے جرم میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ۔
غزہ میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی اسی سفاکانہ کھیل کا حصہ ہے۔ وقتی جنگ بندی مسئلے کا حل نہیں۔آگ اور خون کے کھیل میں یہ محض ایک عارضی وقفہ ہے ۔یہ خونی کھیل کسی بھی وقت دوبارہ شروع ہوسکتا ہے۔ اس تنازع کو مستقل طور پر حل کرنے کے لیے غاصب کو غاصب اور مظلوم کو مظلوم تسلیم کرنا اور ظالم سے مظلوم کو اس کا حق دلانا لازمی ہے، لیکن فی الوقت جن طاقتوں کے ہاتھوں میں دنیا کی باگ ڈور ہے وہ خود اس ظلم اور سفاکی کی حوصلہ افزائی کررہی ہیں۔ چنانچہ امریکی صدر بارک اوباما نے اس واقعاتی حقیقت کے باوجود۔․ کہ حالیہ لڑائی واضح طور پر آٹھ نومبر کو اسرائیلی فوج کے غزہ کے حدود میں داخل ہو کر ایک فٹ بال کھیلتے بچے کے قتل کی صورت میں کی گئی کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں شروع ہوئی تھی،اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ پچھلی کچھ مدت سے جاری پس پردہ امن مذاکرات میں بنیادی کردار ادا کرنے والے حماس کے کمانڈر احمد جابری کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بناکرفلسطینیوں کے صبر کے پیمانے کو چھلکا دینے کا پوری طرح سوچ سمجھ کر مزید اہتمام کیا گیا۔
غزہ کے مظلوموں کے لیے کسی اظہار ہمدردی کے بجائے اسرائیل کی فوجی کارروائی کی کسی تکلف کے بغیر مکمل حمایت کی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے غزہ آپریشن میں توسیع کیلئے تیار ہونے کے اعلان پر تھائی لینڈ کے دورے میں مصروف صدر اوباما کا رد عمل یہ تھا ”ہم اُن میزائلوں سے جو لوگوں کے گھروں اور کارگاہوں پر گررہے ہیں اور عملاً شہریوں کی ہلاکت کا سبب بن رہے ہیں، اسرائیل کے حق دفاع کے مکمل طور پر حامی ہیں۔ ہم اسرائیل کے حق دفاع کی یہ حمایت جاری رکھیں گے۔“
بنکاک میں کی گئی اس پریس کانفرنس میں پاکستان، افغانستان ، یمن اور صومالیہ پر امریکی جاسوس طیاروں کے ذریعے میزائل برسانے والے صدر اوباما نے یہ بھی کہا کہ ” روئے زمین پر کوئی ملک ایسا نہیں ہے جو اپنے شہریوں پر میزائلوں کی بارش برداشت کرتا رہے۔ “ کیسی ستم ظریفی ہے کہ اسرائیلی طیاروں کی ہولناک بمباری کے مقابلے میں امریکی سربراہ کو فلسطینیوں کے بڑی حد تک غیرموٴثر میزائل زیادہ قابل مذمت نظر آتے ہیں اگرچہ ان کا استعمال اسرائیل کی کھلی اشتعال انگیزی کے نتیجے ہی میں کیا جاتا ہے۔فلسطین اسرائیل تنازع میں ظالم اور مظلوم کے فرق کو نظرانداز کرنے کا یہی رویہ برطانیہ سمیت بیشتر ترقی یافتہ اور طاقتور ملکوں کی حکومتوں کا ہے۔ تاہم حکمرانوں کی اس ہٹ دھرمی کے باوجود سچائی اپنے آپ کو منوارہی ہے اور اسرائیل اور مغربی ملکوں سمیت دنیا بھر میں انصاف پسند لوگ اس درندگی اور دھاندلی کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں ۔ ان میں سے ایک ممتاز یہودی دانشور یوری ایونری ہیں جنہوں نے "A Superfluous War” کے عنوان سے اپنے ایک حالیہ کالم میں غزہ کی اس تازہ جنگ کو اسرائیلی حکمرانوں کی مہینوں کی سازشی منصوبہ بندی کا نتیجہ قرار دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو مشتعل کرکے ان کے میزائلوں کے ذخائر کو ممکنہ طور پر آخری حد تک تباہ کرنے کا موقع حاصل کرنا اس اشتعال انگیزی کا اصل مقصد تھا۔بزرگ یہودی دانشور کے بقول اسرئیل توسیع پسندی سے باز آجائے اور حماس کی جانب سے امن کے لیے پیش کی گئی 1967ء کی سرحدوں تک محدود رہنے کی شرط کو مان لے تو علاقے میں مستقل امن قائم ہوسکتا ہے، جبکہ اسرائیلی توسیع پسندی جاری رہنے کی صورت میں خوں ریزی کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔
غزہ میں اسرائیلی مظالم کے حوالے برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے اپنے ایک تازہ تجزیے میں اسرائیلی حکمرانوں کے رویوں کو منافقت پر مبنی قرار دیا ہے۔ جبکہ ممتاز امریکی محقق اور تجزیہ کار پال کریگ رابرٹس جو ریگن دور میں امریکی کابینہ کے رکن بھی رہ چکے ہیں، ”پٹھو ریاست امریکہ“ کے عنوان سے اپنے تازہ کالم میں غزہ میں اسرائیلی مظالم کو جرمنوں کے ہاتھوں وارسا کی یہودی بستیوں پر ہونے والے مظالم جیسا قراردیا۔ وہ اپنے حکمرانوں کی بے حسی پریوں اظہار خیال کرتے ہیں : ”ریاست ہائے متحدہ کی حکومت اور اس کے محکوم عوام امریکہ کو دنیا کی واحد سپرپاور سمجھتے ہیں۔لیکن ایک ایسا ملک سپر پاور کس طرح ہوسکتا ہے جس کی پوری حکومت اور محکوم عوام کی اکثریت خصوصاً وہ لوگ جو انجیلی کلیساوٴں کے رکن ہیں،اسرائیلی وزیر اعظم کے قدموں میں لوٹتے ہیں؟ وہ ملک سپرپاور کیونکر ہوسکتا ہے جو مشرق وسطیٰ میں اپنی خارجہ پالیسی خود تشکیل دینے کا اختیار نہ رکھتا ہو؟ایسا ملک سپر پاور نہیں ،ایک پٹھو ریاست ہے۔“ سچائی اپنے آپ کو منوا کررہتی ہے، دنیا کے انصاف پسند لوگوں کی جانب سے فلسطین اسرائیل تنازع کے حقائق کا یہ اعتراف رائیگاں نہیں جائے گا اور فتح بالآخر حق کی ہوگی کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ ”حق آیا اور باطل مٹ گیا، بے شک باطل تو مٹنے ہی والا ہے“۔
بشکریہ روزنامہ جنگ