جمعه 02/می/2025

غزہ میں اسرائیلی قذاقی اور پاکستان پر حملے کی امریکی منصوبہ بندی

بدھ 2-جون-2010

اسرائیل نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غزہ کیلئے امداد لے جانیوالے فریڈیم فلو ٹیلا پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجے میں کم از کم 20 افراد جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہوگئے ہیں تاہم امدادی قافلے نے اسرائیلی بحریہ کی طرف سے واپس لوٹ جانے کے حکم کو نظر انداز کردیا ۔ دوسری جانب اسرائیل کے اس اقدام کیخلاف امریکا اور ترکی میں زبردست احتجاج کیا گیا ہے ترکی میں اسرائیلی سفیر کو طلب کیا گیا عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق غزہ کے شہریوں کیلئے آنیوالے امدادی بحری جہازوں کو روکنے کیلئے اسرائیلی جنگی جہازوں نے بحری ناکہ بندی کررکھی ہے۔ فلسطین کے رکن اسمبلی نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ امدادی جہازوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے، جہازوں میں سات سو امدادی کارکنوں کے علاوہ یورپی یونین کے ارکان اسمبلی بھی سوار ہیں۔ ایک پاکستانی نجی ٹی وی چینل کے اراکین بھی اس قافلے میں موجود ہیں۔

غزہ کے پندرہ لاکھ لوگ 2007ء سے انسانی امداد پر اسرائیلی پابندی کے بعد سے سخت مشکلات کا شکار ہیں اور وہاں پانی ، دوائوں اور تعمیراتی سامان کی سخت قلت ہے، ان مشکلات کے پیش نظر برطانیہ ، یونان ، الجیریا ، کویت، ملائیشیا اور آئرلینڈ کے چھ جہاز ترکی کی سربراہی میں دس ہزار ٹن امدادی سامان اور سینکڑوں امدادی کارکنوں کے ساتھ غزہ کے لوگوں کی مدد کو پہنچے ہیں مگر ان پر جہازوں پر موجود انسانی امداد کو غزہ کے شہریوں تک پہنچنے سے روکنے کیلئے اسرائیلی جنگی جہاز سمندر میں پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے علاقے کی ناکہ بندی کردی ہے۔ اسرائیل اور مصر غزہ تک امداد کو پہنچنے سے روکنے کیلئے زمینی سرحدیں پہلے ہی بند کرچکے ہیں اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ اگر خبردار کرنے کے باوجود جہاز واپس نہ گئے تو اسرائیلی فورسز ان پرقبضہ کرلیں گی۔ ادھر اسرائیلی نیوی کے جہاز محصور فلسطینیوں کیلئے امداد لے جانیوالے فریڈم فلوٹیلا کی مانیٹرنگ کررہے ہیں ، امدادی قافلہ ابھی غزہ کی سمندری حدود میں داخل بھی نہیں ہو پایا تھا کہ علی الصبح چار بجے کے قریب اسرائیلی نیوی کے آٹھ جہازوں نے غزہ سے 65 کلو میٹر دور قافلے پر حملہ کردیا جس میں ہیلی کاپٹروں کا بھی استعمال کیا گیا جس میں کم از کم 20 افراد جاں بحق اور پچاس سے زائد زخمی ہوگئے ۔ جہاز پر موجود افراد کا دنیا بھر سے انٹرنیٹ رابطہ بھی منقطع کردیا گیا ہے ،قافلے میں شامل کارکنوں اور میڈیا اہلکاروں کو حراست میں لے لیا ہے۔ایک عرب ٹی وی چینل کے مطابق فریڈیم فورٹیلا میں شامل ترکی کے بحری جہاز سے ٹیلی فون موصول ہوا ہے کہ اسرائیلی بحریہ نے بحری جہاز پر فائرنگ کی جس میں بحری جہاز کا کیپٹن زخمی ہوگیا علاقے میں فائرنگ کی آوازیں جاری ہیں۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اسرائیل نے امریکا کی شہ پر اور اسکی سرپرستی میں ہی اسرائیلی ریاست عربوں کے قلب میں قائم کرکے فلسطینی عوام کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے جس کا مقصد فلسطینی عوام کی جدوجہد آزادی کے آگے بند باندھ کر فلسطین کی آزاد ریاست کو دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے سے روکنا ہے۔ ابھی دو روز قبل ہی امریکی صدر اوبامہ نے دہشت گردی کیخلاف جنگ سے متعلق نئی امریکی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے اسلام کے فلسفۂ جہاد کی اہمیت کا اعتراف کیا اور اعلان کیا کہ ہماری جنگ جہاد کیخلاف نہیں بلکہ دہشت گردی کیخلاف ہے جبکہ اب امریکی شہ پر اسرائیل کی جانب سے غزہ کے بے بس اور محصور شہریوں کی امداد کیلئے جانے والے قافلے پر دھاوا بولنا، درحقیقت ان امریکی عزائم کو بے نقاب کرنے کے مترادف ہے جو پوری مسلم امہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کیلئے اسکے دل میں موجود ہیں، جن کا اسرائیل اور بھارت کے ذریعے فلسطین اور کشمیر میں عملی مظاہرہ کرانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ امریکی مفادات کی جنگ درحقیقت اسلام کے فلسفۂ جہاد کیخلاف ہی جنگ ہے کیونکہ وہ جذبہ جہاد سے سرشار مسلمانوں کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے اور اس بنیاد پر جہادی تنظیمیں امریکا اور اسکے فطری اتحادی بھارت کے ہدف پر ہیں اور وہ جہاد کو دہشت گردی قرار دے کر پوری مسلم امہ کو اپنے نشانے پر لانا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر امریکا، بھارت، اسرائیل پر مشتمل شیطانی اتحاد ثلاثہ نے اس خطہ میں اپنے مفادات کی جنگ شروع کرکے درحقیقت خود دہشت گردی کی بنیاد ڈالی ہے اور اس کو فروغ دیا ہے، ورنہ کوئی کلمہ گو مسلمان دہشت گردی کے ذریعے بے گناہ انسانوں کا خون بہانے کا سوچ بھی نہیں سکتا، جبکہ اپنی آزادی کیلئے جہاد کرنے اور دشمن کا مقابلہ کرنے والے آزادی کے متوالوں کو دہشت گرد قرار دے کر حقائق کو چھپایا جا سکتا ہے، نہ آزادی کی کسی تحریک کو دبایا جا سکتا ہے، امریکا اور بھارت کو اسی بنیاد پر جذبۂ جہاد سے سرشار مسلمانوں سے خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ کہیں فلسطین اور کشمیر پر ان کا تسلط ختم نہ ہو جائے اور مسلم امہ کو متحد ہو کر طاغوتی طاقتوں کے مدمقابل آنے کا موقع نہ مل جائے، چنانچہ جس طرح اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینی عوام پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، جس کی تازہ مثال غزہ کیلئے جانے والے امدادی قافلے کو گاجر مولی کی طرح کاٹنے کی صورت میں سامنے آئی ہے، اسی طرح ظالم بھارتی فوجوں کے ہاتھوں مظلوم و بے گناہ کشمیری عوام گزشتہ ساٹھ سال سے زائد عرصہ سے برباد ہو رہے ہیں اور بے بہا جانی و مالی قربانیاں دے رہے ہیں۔ کیا اس ننگی دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے دنیا کو متحرک اور بیدار نہیں ہونا چاہئے جبکہ یہ سفاکی ہی ردعمل میں خودکش حملوں کی راہ دکھاتی ہے اس لئے جس نیت اور ارادے کے تحت امریکا بھارت، اسرائیل باہم متحد ہو کر مسلم امہ کیخلاف صف آراء ہیں، کیا مسلم امہ کیلئے بھی ضروری نہیں ہو گیا کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر اسلام کے جذبہ جہاد کی بنیاد پر اسلام دشمن طاغوتی طاقتوں کے مقابلہ کیلئے تیار ہو جائیں اور انکی اسلام پر غالب آنے کی سازشوں کا اپنے اتحاد و یکجہتی سے توڑ کریں۔

 امریکا کو پاکستان کا ایٹمی قوت ہونا بھی اسی لئے کھٹکتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اس سے مسلم امہ کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کا موقع ملے گا۔ اس لئے اسرائیلی فضائیہ کو ایک بار ہماری ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کیلئے استعمال کیا جا چکا ہے جس میں اسے منہ کی کھانی پڑی تھی مگر ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی پر کنٹرول کرنے کے امریکی عزائم میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ دہشت گردی کے خاتمہ کی آڑ میں اب ہمیں براہ راست حملے کی دھمکیاں بھی دے رہا ہے، وہ ہمیں تو ایٹمی عدم پھیلائو کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کرتا ہے مگر اس نے نہ خود اور نہ ہی اسکے فطری اتحادی بھارت نے این پی ٹی پر دستخط کئے ہیں جبکہ اب اسرائیل نے بھی این پی ٹی پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ یہ شہ اسے امریکی آشیرباد سے ہی حاصل ہوئی ہے، اگر امریکا اپنی اور اپنے اتحادیوں کی ایٹمی ٹیکنالوجی کے دفاع کے جواز پیش کرتا ہے اور پاکستان اور ایران کی ایٹمی ٹیکنالوجی پر پابندی عائد کرنے کے اقدامات کرتا ہے تو اس کی نیت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد صرف مسلم امہ کو صف آراء ہونے سے روکنا ہے۔

اس صورتحال میں کیا اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی اور اسلامی کانفرنس کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ امریکا، بھارت، اسرائیل کے ہاتھ روکنے کیلئے متحرک کردار ادا کرے اور اپنی روایتی غفلت کا لبادہ اتار دے۔ اسرائیلی بحریہ کی جانب سے غزہ کے شہریوں کو امداد سے محروم کرنے کی خاطر پورے امدادی قافلہ کی لوٹ مار اور قتل عام کرنا ایسا واقعہ ہے جس کی صرف مذمت ہی پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے، یہی مناسب وقت ہے کہ خطہ میں ایک الگ اسلامی بلاک تشکیل دے کر طاغوتی طاقتوں کا راستہ روکا جائے، اس وقت اتفاق سے ترکی اور ایران بھی اس اتحاد کے خواہاں ہیں اور اسرائیل کے تازہ ترین حملے کا اصل شکار تو ترکی بنا ہے، البتہ پاکستان مشرف دور سے بھی زیادہ امریکی بکل میں جا چھپا ہے، کیا پاکستان پارلیمنٹ وطن عزیز کو اس سے نکال کر اس اسلامی بلاک کا خواب پورا نہیں کر سکتی جو صحیح معنوں میں شیطانی اتحاد ثلاثہ کا مقابلہ کر سکتا ہے، ورنہ یہ ظالم قوتیں تو مسلم امہ کو نیست و نابود کرنے پر تلی بیٹھی ہیں۔
 
بشکریہ: روزنامہ نوائے وقت

لینک کوتاه:

کپی شد