جمعه 15/نوامبر/2024

غزہ سے جموں تک

منگل 26-اگست-2008

غزہ کی معاشی ناکہ بندی توڑنے کے لیے سترہ یورپی ممالک کے ممبرز پارلیمنٹ،ممبرز سینیٹ اور انسانی حقو ق کے نمائندوں نے کشتیوں کے ذریعے قبرص سے سمندر کے راستے سفر کیا اور غزہ کے ساحل پر پہنچ کر معاشی ناکہ بندی کو سمندر میں غرق کر دیا.
 
اس قافلے میں چراسی سالہ یہودی خاتون اور مشرق وسطی کے امور کے نگران سابق برطانیوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کی بیٹی اورشیر خوار بچوں کے ہمراہ فلسطینی خاتون بھی شامل تھی-کشتی میں بچوں کے لیے ادویات تھیں،اسرائیل نے دھمکی دے رکھی تھی کہ اگر یورپی ممالک کے ممبران نے کشتی کے ذریعے غزہ کا سفر کیا تواسرائیلی بحریہ ان کی کشتیوں کو بموں سے اڑا دے گی،مگر محاصرہ مخالف یورپی مہم کے نمائندوں نے اس دھمکی کی پرواکیے بغیر اعلان کیا کہ وہ خود اسرائیلی بموں کا نشانہ بن کر سمندر میں امر ہوجائیں گے مگر غزہ میں شیر خوار بچے جس طرح دودھ کے بغیر سسک سسک کر جان دے رہے ہیں وہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے اور ا س کوہم برداشت نہیں کرسکتے –

اسرائیلی دھمکیوں کے باوجو د یہ  چھیالیس افراد پر مشتمل قافلہ جمعہ کو قبرص سے روانہ ہوا راستے میں اسرائیل نے ان کے اطلاعات کے نظام کو منقطع کیا اور پھر ان کو قائل کرنے کی کوشش کی کے وہ غزہ کا سفر نہ کریں ،جب قافلے کے مضبوط عزائم دیکھ کر اسرائیل نے پینترا بدلا اور ان کو یہ کہہ کر قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہاں حماس کی حکومت قائم ہے اور آپ کی وجہ سے حماس حکومت کو اخلاقی سپورٹ ملے گی اس لیے آپ مہم کا ارادہ ترک کردیں-

اسرائیل کی تمام حیلہ سازیاں محاصرہ مخالف یورپی مہم کے نمائندوں کے سامنے غارت گئیں اور وہ تیس گھنٹوں کا طویل تکلیف دے سفر طے کرنے کے بعد بالاآخر غزہ کے ساحل پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے،ہزاروں فلسطینیوں نے اس قافلے کا تاریخ ساز استقبال کیا ،قافلے میں شامل نمائندوں نے فلسطینیوں کے بچوں کی پیشانیوں کو چھوما اور ان کے لیے لائی گئی ادویات اور دودھ کے پیکٹ پیش کیے-

کوئی مسلمان اگرسانپ مار دے تو صہیونی میڈیا ساری دنیا کو سرپر اٹھا لیتا ہے کہ اس سانپ کو مارا گیا ہے جس میں زہر اس سطح کا نہیں تھا جس کے ڈسنے سے انسان فوری مرجائے اس لیے جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اس لیے سانپ مارنے والے مسلمان دھشت گرد کو سزا دی جائے،اگلے ہی دن سانپ کو اٹھائے عالمی صہیونی ہیگ میں قائم عالمی عدالت انصاف کے سامنے پیش ہوجاتے ہیں،

وہ مسلمان کو سزا دلواتے ہیں اگر وہاں سے مایوسی ہوجائے تو خود کارروائی کرتے ہیں،یا اپنے باس امریکہ کے صدر کے پاس پہنچ جاتے ہیں کہ جناب یہ ظلم آپ جیسے انصاف پسند بادشاہ کی موجودگی میں ہوا ہے ،آپ کی بادشاہی کو چیلنج کیا گیا ہے فوری کارروائی ہونی چاہیے تاکہ آئندہ کوئی آپ کو چیلنج نہ کرسکے-امریکہ کے صدر حرکت میں آتے ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد پیش ہوجاتی ہے اگر منظور ہوجائے تو ٹھیک ورنہ امریکہ بہادر نے تو پہلے ہی اس گستاخ کو سبق سیکھانے کا فیصلہ کیا ہوتاہے،رزلٹ بڑی تباہی کی صور ت میں نکلتاہے-

یہاں صور حال دیکھیں،یورپی ممالک غزہ کی ناکہ بندی جو اسرائیل نے گزشتہ دو سال کی ہوئی ہے اس کو توڑنے کے لے نکلتے ہیں،تمام تر رکاوٹوں کو توڑ کر غزہ میں پہنچ جاتے ہیں،مگر مغر ب کا تمام کا تمام میڈیا اس طرح خاموش ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ،جیسے اچانک مغربی میڈیا کو سانپ سونکھ گیا ہے-الیکٹرانک اور پرنٹ دونوں میڈیا دونوں خاموش تھے-

محاصرہ مخالف یورپی مہم  کے نمائندوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر جو مہم سرانجام دی ہے ،وہ نہ صرف قابل تحسین ہے بلکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی سو ئی ہوئی غیرت کو جگھانے کے لیے پانی کے چھینٹے ہیں،غزہ کے پڑوس میں بائیس عر ب ممالک کی غیرت نہ جانے کیون سو گئی ہے وہ اپنے سامنے اپنے بچوں کو موت کے منہ میں جاتا دیکھ رہے ہیں مگر ان پر کوئی اثرا نہیں ہورہا ہے،محاصرہ توڑنے کے اعلان کے باوجود اس پر کوئی عمل درآمد نہ ہوسکا،صرف ادویات نہ ملنے کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد دو چالیس سے تجاوز کر چکی ہے،جن میں زیادہ تر بچے شامل ہیں،کیا پڑوس میں عرب ممالک کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ ان بچوں کی زندگی بچانے کے لئے  اپنا کردار ادا کریں-

اسلامی ممالک کی سربراہ تنظیم او آئی سی کس مرض کی دوا ہے،کیا اس کا کام صرف اپنے آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنا رہ گیا ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو وہ کون سے زنجیر ہے جو او آئی سی کو معصوم بچوں کی جانیں بچانے سے باز رکھے ہوئے ہے؟اپنے بچوں کی جانیں نہ بچاسکنے والوں کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ ان پر حکمرانی کا دعوی کرتے پھریں؟یورپی محاصرہ مخالف مہم نے مسلمانوں کی جرات کے دروازے پر دستک دی ہے اب بھی وہ اپنا دروازہ نہیں کھولیں گے تو ان کو مسلمانوں کا حکمران ہونے کا کو ئی حق حاصل نہیں ہوگا-

بھارت نے بھی اسرائیل کی نقل کرنا شروع کر دی ہے بلکہ اگر کہا جائے توبے جا نہ ہو گاکہ اسرائیلی منصوبہ ساز ہی کشمیر کے حوالے سے بھارت کو مشاورت اور دیگر سہولیا ت فراہم کر رہے ہیں،بھارت نے شرائن بورڈ کی مخالفت کے بعد جموں کی ناکہ بندی کر رکھی ہے،جس طرح اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کی ہے اسی طرح بھارت نے جموں کی ناکہ بندی کی ہوئے ہے ،ناکہ بندی توڑنے کے اور اہل جموں کی امداد کے لیے جانے والے قافلے پر بھارت نے فائرنگ کی جس میں درجنوں کشمیر ی شہید ہوچکے ہیں،بھارت نے کشمیر میں کرفیو لگا دیا ہے-

جس طرح غزہ کی ناکہ بندی پر عرب خاموش ہیں اسی طرح جموں کی ناکہ بندی پر بیس کیمپ کے حکمران خاموش ہیں،مگر جرات مند رہنما عبدالرشید ترابی نے تیتری نوٹ اور سیالکوٹ سے اہل جموں تک امداد پہنچانے کے لیے سیز مائر لائن توڑنے کا اعلان کیا ہے،عبدالرشید ترابی کے اس اعلان کے بعد پورے کشمیر اور پاکستان میں مقیم کشمیریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے،امید کی ایک کرن پیدا ہوئی ہے اہل جموں کو اس مرحلے پر اکیلے چھوڑنے والے قومی مجرم ہیں،جموں کے عوام نے عبدالرشید ترابی کے اس اعلان کو خراج تحسین پیش کیا ہے،پاکستان میں مقیم جموں کے مہاجرین نے کہا ہے کہ جس طرح بھارت نے 1947میں اور 1965میں جس طرح کے مظالم ڈھائے ہیں وہ ایک بار وہی تاریخ دوہرانا چاہتا ہے،

بھارت پورے جموں کو مسلمانوں سے خالی کرانے کی منصوبہ بندی کرچکاہے،یہ اسی طرح منصوبہ ہے جس طرح اسرائیل نے ’’کانہ ‘‘کے پورے گاوں کو فلسطینیوں کا قتل عام کراکر خالی کیا اور وہاں پر یہودی آبادی قائم کی -فلسطین میں درجنوں گائوں ایسے ہیں،جن کو اسرائیل نے فلسطینیوں کو صفایا کرایا اور وہاں اپنی نئی آبادیاں قائم کیں بھارت اسی پالیسی پر چل رہاہے بھارت میں اس طرح کے منصوبے اسرائیلی بھارت میں بیٹھ کر بنا رہے ہیں-ملت کشمیر اور ملت پاکستان نے بھارت کے ان ہتھکنڈوں کا نوٹس نہ لیا تو بھارت لاکھوں اہل جموں کو ایک بار پھر شہید کر دیے گا-

لینک کوتاه:

کپی شد