جمعه 02/می/2025

غزہ جانے والے امدادی قافلے کے خلاف اسرائیلی جارحیت

جمعرات 3-جون-2010

اسرائیلی فوج نے اس امدادی قافلے پر بے رحمی سے حملہ کیا جو غزہ کے لئے امداد لے کر جارہا تھا۔ یہ حملہ ساحل سمندر سے60 کلو میٹر دور بین الاقوامی پانیوں میں ہوا۔ ترک ٹیلی وژن نے ایسی تصاویر بھی جاری کی ہیں جن میں اسرائیلی فوجیوں کو انسانی حقوق کے کارکنوں سے لڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسرائیل نے تادم تحریر اس حملے کے حوالے سے کسی قسم کا سرکاری بیان جاری نہیں کیا تاہم وہ اس سے پہلے کہہ چکا ہے کہ وہ امدادی کشتیوں کو غزہ جانے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسرائیل کے مطابق غزہ سامان لے جانے کی یہ کوشش اشتعال انگیزی ہے جس کا مقصد اس کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنا ہے چھ کشتیوں پر یہ قافلہ قبرص سے اتوار کو غزہ کے لئے روانہ ہوا تھا۔ کشتیوں پر ہزاروں ٹن سامان موجود ہے جس میں سیمنٹ اور تعمیراتی کام میں استعمال ہونے والا ایسا سامان بھی شامل ہے جو اسرائیل غزہ لے جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ اقوام متحدہ کے مطابق جو سامان لے جایا جارہا تھا یہ غزہ کی ضرورت کا چوتھائی حصہ بھی نہیں ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق اس حملے میں 20افراد ہلاک جبکہ 60کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں۔ اس واقعے نے پوری دنیا میں ایک ہلچل پیدا کر دی ہے جبکہ پاکستانی وزارت خارجہ نے بڑی دیر کے بعد خاموشی توڑی۔ عرب لیگ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ کویت کی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا گیا ہے۔ یونان سوئیڈن اور ترکی نے فوری طور پر اسرائیلی سفیروں کو دفتر خارجہ طلب کرلیا ہے۔ یونان جو ان دنوں اسرائیل کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں کر رہا تھا اس نے فوری طور پر ان مشقوں کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین نے اس خونین واقعے کی فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ فلسطین نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔

ہم حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے کہ جب اس واقعے کی گرد بیٹھے گی تو عالمی برادری اسرائیل کے ساتھ کیا سلوک کرے گی لیکن پاکستانی عوام اپنی حکومت سے جس فوری ردعمل کی توقع کر رہے تھے وہ کافی دیر بعد سامنے آیاحالانکہ اس قافلے میں انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے پاکستانی کارکنان بھی شامل ہیں اور میڈیا کے لوگ بھی جن کے بارے میں فوری طور پر علم نہیں ہوسکا کہ وہ کس حال میں ہیں۔

امر واقعہ یہ ہے کہ جب سے اسرائیل نے غزہ میں تباہی و بربادی کا مکروہ کھیل کھیلا ہے تب سے اس نے غزہ پر متعدد پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ حتیٰ کہ باہر سے کھانے پینے کے سامان کی بھی ایک حد مقرر ہے اور اس سے زیادہ سامان غزہ میں نہیں لے جایا جاسکتا۔ غزہ میں تعمیر نو کے لئے تعمیراتی سامان کی اشد ضرورت ہے لیکن اسرائیل نے اس طرح کے سامان پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ غزہ کی مسلمان آبادی ایک محصور شہر کا منظر پیش کر رہی ہے اور وہاں کا ہر دن ہی اذیت ناک ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب اسرائیل نے غزہ میں آپریشن شروع کیا تھا تو اس میں ظلم کی انتہا کر دی گئی تھی اور تو اور غزہ میں مسلمانوں کے مرغی خانے بھی تباہ کرکے ہزاروں مرغیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ مسجدوں کو شہید کیا گیا تھا اور اتنی سفاکی سے یہ سب کچھ کیا گیا تھا کہ دنیا کانپ کر رہ گئی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن غزہ کے بے بس و لاچار مسلمان گڑگڑا گڑگڑا کر خدا سے مدد مانگ رہے تھے کہ وہ ان کے لئے ایسے چارہ ساز بھیج دے جو انہیں دلاسہ دے سکیں اور جن کے کاندھوں پر سر رکھ کر وہ رو سکیں۔
 
مسلم امہ نے طویل عرصے تک بے حسی کی چادر اوڑھے رکھی۔ 57مسلم ممالک اپنے دینی بھائیوں کی اس بے بسی کا تماشہ دیکھتے رہے لیکن آخر کار کچھ ایمان والوں نے کمر ہمت کس ہی لی اور اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر عازم غزہ ہوئے یہ وہ لوگ تھے جنہیں اسرائیلی خطرے کا بالکل درست اندازہ تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہیں پہلے سے پتہ تھا کہ اسرائیل درندگی کے کس مقام تک جاسکتا ہے لیکن ان سے اپنے بے بس بھائیوں اور بہنوں کی مظلومیت دیکھی نہیں گئی اور یہ گھروں سے نکل کھڑے ہوئے۔ ان لوگوں پر کیا بیتی یا مزید کیا کچھ بیتے گی یہ تو خدا ہی کو معلوم ہے لیکن اب وہ وقت آگیا ہے کہ جب غیریت مند مسلمان ممالک اسرائیل کے خلاف صف آراء ہو جائیں اور فیصلہ کن معرکے کی تیاری کرلیں اس حوالے سے ترکی’ ایران اور پاکستان کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں اور اگر ان ممالک نے بھی مصلحت کوشی اختیار کی تو پھر دنیا بھر کے ہر مظلوم مسلمان کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ جو مسلم اخوت و بھائی چارے کی باتیں کی جاتی ہیں یہ محض زبانی جمع خرچ ہے اور مسلمان ممالک اس کے لئے سوائے بیان بازی کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔

ہمیں مسلم ممالک کی حکومتوں سے کوئی توقع نہیں البتہ ان ملکوں کے عوام سے بڑی امیدیں ہیں. پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے عوام کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی حکومتوں پر شدید دبائو ڈالیں کہ وہ اسرائیل کو چھٹی کا دودھ یاد دلا دیں’ وہ ممالک جو امریکہ کے زیر اثر ہیں ان ممالک کے عوام کو خصوصیت کے ساتھ اپنی حکومتوں کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ امریکی سحر سے باہر نکل کر اسرائیل کے ساتھ سختی سے پیش آئیں۔ یہ بالشت بھر کا ناجائز ملک 57اسلامی ملکوں اور ڈیڑھ ارب مسلم آبادی کے سینے پر سانپ بن کر لوٹ رہا ہے۔ اس سانپ کا اب پھن کچل دینا چاہیے تاکہ دنیا کو اس زہریلے ناگ سے محفوظ رکھا جاسکے’ ہم اس واقعے کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے اور پوری اسلامی دنیا سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کا بائیکاٹ کر دے۔

 

بشکریہ: روزنامہ اوصاف

لینک کوتاه:

کپی شد