جابجا خون ہی خون بکھرا ہوا ہے۔ انسانی اعضاء دور دور تک منتشر پڑے ہیں۔ کہیں کسی نونہال کے ہاتھ میں لالی پاپ دبا ہوا ہے۔ مگر اس کی زخمی آنکھویں ابدی نیند سو رہی ہیں۔ وہ لالی پاپ جو اس نے اپنی ماں سے ضد کر کے لیا تھا وہ تو خون آلود خاک سے لتھڑ کر مکھیوں کا نصیب بن گیا۔ ادھر حماد نے اپنے ہاتھ میں ایک گیند سینے سے لگا رکھی ہے۔ کہیں اس گیند پر کوئی میزائل حملہ نہ ہو جائے۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ اب وہ جنت میں حوروں کے ساتھ کھیلے گا۔ دوسری گلی میں ایک عورت کے دھڑ کے قریب دودھ کا ٹوٹا ہوا فیڈر پڑا تھا۔ کچھ دودھ فیڈر میں اور کچھ زمین پر خون کی آمیزش سے ایک نیا رنگ ظاہر کررہا تھا۔ یہ عورت اپنے چھ ماہ کے بچے کے لیے دودھ تیار کررہی تھی مگر اسے اتنا اندازہ نہ تھا کہ اس کا بچہ اتنی جلدی جنت میں دودھ کی نہروں سے اپنی بھوک مٹالے گا۔ گویا قیامت صغریٰ کا منظر ہے۔
یہ غزہ کی پٹی کے مختصر علاقے پر منہ زور اسرائیلی جارحیت کا نتیجہ ہے۔ جو اپنے مذموم مقاصد اور گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ان معصوم جانوں کا خون کیا۔ امریکی سرپرستی میں اس ناجائز یہودی ریاست کو اس ناپاک منصوبے کی تکمیل میں سب سے بڑا خطرہ شام، لبنان اور ایران کے بعد غزہ کے علاقے میں موجود حماس کے مجاہدین سے ہے۔ گزشتہ دنوں لبنان میں حزب اللہ کے ٹھکانوں کو ختم کرنے کے بہانے اسرائیل نے جو حملہ کیا تھا وہ بھی اس منصوبے کا حصہ تھا۔ مگر اس محاذ سے ذلت آمیز شکست کے بعد اب صہیونی ریاست نے اس چوکڑے کو ختم کرنے سے پہلے ان میں مالی و معاشی طور پر کمزور غزہ کے علاقے سے ابتداء کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پچھلے دو ہفتوں سے جاری گولہ باری سے جہاں دسیوں نہتے فلسطینی شہید ہوئے ہیں سیکڑوں شہری زخمی بھی ہوئے۔ جن کے علاج معالجے کے لیے ادویات ناپید ہیں۔ مگر یہ حالات بھی حماس اور فلسطینی شہریوں کے حوصلے پست نہ کرسکے۔ وہ اسرائیل کو دو ہفتوں سے منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ جس نے ان ممنوعہ کیمیائی اور جدید ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی فوج کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ان مٹھی مجاہدین نے اسرائیلی چوکڑے منصوبے کو ابتداء ہی میں ناکام کردیا ہے۔
گو اسرائیل اس جنگ کو جنگ کا نام نہیں دیتا بلکہ وہ اسے جنگ سے قبل کی مشقیں قرار دے رہا ہے کہ اصل جنگ تو ایران، شام اور لبنان کے ساتھ ہوگی۔ ان کارروائیوں سے یہودی جہاں فلسطینی مسلمانوں کا حربی اور نفسیاتی کارروائیوں سے استحصال کررہے ہیں وہیں اپنی جدید جنگی حکمت عملی کی تجرباتی مشقیں بھی کررہے ہیں۔
اسرائیل اپنی نئی جنگی حکمت عملی کے مطابق کوشش کرے گا کہ اپنے فوجی غزہ کے علاقے میں نہ اتارے کیونکہ ایک تلخ تجربہ وہ لبنان کے علاقے میں حزب اللہ کے مقابلے میں کرچکا ہے۔ اس کو تیرہ فوجیوں سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ اس سے بچاؤ کے لیے وہ امریکی ڈرون طیاروں کی مدد سے غزہ کے علاقوں میں بمباری کررہا ہے۔ جن کا کامیاب تجربہ امریکا پاکستان، افغانستان اور یمن کے علاقوں میں القاعدہ کے خلاف کارروائیوں میں کرچکا ہے۔ ان ڈرون حملوں کے ذریعے اسرائیلی حماس کے بہانے غزہ کی محصور شہری آبادی کو بے دردی سے نشانہ بنارہے ہیں۔
غزہ کے گرد اسرائیل نے پہلے ہی دیواریں کھینچ دی ہیں جس سے یہاں کے شہری اپنے ہی گھروں اور محلوں میں قیدیوں کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔ ادویات، خوراک اور لباس کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ دوسری طرف مختلف ممالک اور اقوام متحدہ کے زیر انتظام کئی این جی اوز کو امدادی سرگرمیوں کی بھی اجازت نہیں دی جارہی۔
وقت کا فرعون اور جعلی امن کے نوبل انعام یافتہ امریکی صدر باراک اوباما کو امریکیوں کا نزلہ زکام تو نظر آتا ہے۔ فرانسیسی صدر سرکوزی کو برقع پوش گھریلو خواتین سے دہشت گردی کی بوتو محسوس ہوتی ہے مگر یہ کھلم کھلا اور اعلانیہ اسرائیلی بدمعاشی کیوں نظر نہیں آتی۔ وہ اقوام متحدہ جو درحقیقت امریکا کے مفادات کی محافظ ہے۔ اس کے ادارے بھی اسرائیلی مظالم پر چیخ اٹھے ہیں مگر اس کے حکام نے اس بربریت پر چپ کیوں سادھ لی ہے۔ جس نے صدام کی عراقی حکومت سے تو اگلی صدی تک درپیش مفروضے نما خطرات تو بھانپ لیے تھے اور عراق پر صرف اس وجہ سے بموں کی بارش کردی کہ صدام نے امریکی اشاروں پر ناچنے سے انکار کردیا تھا۔ مگر اپنی ناجائز اولاد کی یہ جارحیت نظر نہیں آتی جس کے ظلم کی مثال تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔
کفر و باطل اور شیطان کے یہ نمائندے جو بھی کوشش کرلیں، جتنے بھی مادی اسباب و وسائل اکٹھے کرکے امت پر چڑھ دوڑیں، اپنے اسلحے اور مادی برتری کے زعم میں جتنے بھی مادی اسباب و وسائل اکٹھے کر کے امت پر چڑھ دوڑیں، اپنے اسلحے اور مادی برتری کے زعم میں جتنے بھی منصوبے بنالیں لیکن ایک ایسی ہستی ہے جو ان سب سے زیادہ طاقتور ہے وہ قادر مطلق ہے۔ وہ اگر نہ چاہے تو ساری دنیا کا کفر اپنے اسباب و وسائل کے باوجود بھی کسی کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔ ان کھٹن حالات میں وہی ان مٹھی بھر سرفروشوں کا حامی و ناصر ہے۔ یہ اسی ذات عالی کی مدد و نصرت کی ظاہری شکل ہے جب دشمن تمام تر مادی وسائل و اسلحے میں کمال کے ساتھ تسخیر کائنات کے دعویٰ کے باوجود غزہ کی سرزمین پر اپنے قدم رکھنے سے ڈرتا ہے۔ ابھی تو اعمال میں سستی اور ضعف پر اللہ رب العزت نے دشمن کے دل میں مسلمان کا اتنا خوف ڈالا کہ وہ اس کا سامنا کرنے سے کنی کتراتا ہے۔ بہادروں کی طرح دوبدو لڑنے کی بجائے فضائی اور دور بیٹھ کر حملے کر کے اپنی بزدلی پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ جب یہ امت اپنے اصل مقصد پر آجائے گی اور سراپا اتباع سنت کا نمونہ بن جائے گی تو اس وقت اللہ خود اپنے بندوں کی مدد کے لیے آجائے تو پھر کون مائی کا لال ہوگا جو مسلمانوں کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنا تو درکنار ان کے متعلق برا سوچے بھی۔
اس امر کی ضرورت ہے کہ سب مسلمان آپس میں ہر سطح پر متحد ہو جائیں۔ خواہ ملکی سطح پر ہوں یا محلے کی سطح پر۔ آپس کی رنجشوں کو دور کریں اور ایک ہو کر دشمن کی سازشوں کو سمجھتے ہوئے اس کے خلاف کمر بستہ ہو جائیں۔ جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے عمل میں زیادہ سے زیادہ سنت کا اہتمام کریں۔ مومن کا اصل ہتھیار تو اتباہ سنت ہے۔ درحقیقت یہ وہی نسخہ کیمیاء ہے جس کو حاصل کر کے چند صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین بھی ہزاروں کے لشکر کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر میدان جنگ میں لاشوں کے ڈھیر لگادیتے تھے۔ ان کی مومنانہ نظر سے ہی دشمن خوف کھا کر سرتسلیم خم کر دیتا تھا۔