چهارشنبه 30/آوریل/2025

عرب لیگ کے اجلاس میں کیا طے ہوا

منگل 30-مارچ-2010

”ہم مشرق وسطیٰ کو ایٹمی اسلحے سے پاک خطہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل اپنا نیوکلیئرپروگرام بین الاقوامی بگرانی میں لائے۔ اسرائیل، بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکے۔ ہم امریکا کی اسرائیل نواز پالیسی کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔“ یہ الفاظ عرب لیگ کے سربرہی اجلاس کے اعلامیہ کے ہیں۔

عرب لیگ کا 22 واں سر براہ اجلاس لیبیا کے دارالحکومت ”سرت“میں ہوا۔ دو دن تک جاری رہنے والے اجلاس میں رکن ممالک نے مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ قارئین! اس اجلاس میں کیا کچھ ہوا ؟ اس پر تبصرے تجزیے و تبصرے سے قبل اس تنظیم کا مختصر سا تعارف لیتے ہیں تاکہ اس کی اہمیت اور افادیت کا قدرے اندازہ ہوسکے۔ ”عرب لیگ“ مڈل ایسٹ اور جنوبی افریقا کے 22 ممالک کا اتحاد ہے۔ یہ اتحاد 22 مارچ 1945ء کو قاہرہ میں 6 ممالک کے اتحاد سے وجود میں آیا جس میں مصر، عراق، شام، لبنان، سعودی عرب اور شام شامل ہوئے۔

عرب لیگ کے اہم مقاصد ممبران ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات قائم کرنا، تمام ممالک کی آزادی کا خیرمقدم اور عرب کے تمام ممالک کی ہر قسم کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ عرب لیگ ممبر ممالک کی سیاست، اکنامکس، کلچر اور سوشل پروگرامز کو پروموٹ کرنا بھی ہے تاکہ تمام عرب ممبران ممالک کی دلچسپی بڑھ جائے۔ عرب لیگ نے اپنے ممبران ممالک کے لیے ایک فورم ترتیب دیا جو ممبر ممالک کے مسائل حل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے جس میں 1958ء کی لیبنیز سول جنگ شامل ہے۔ 1945ء کو 6 ممالک کے اتحاد سے وجود میں آنے کے بعد سے اس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ اِس وقت اس کے ممبر ممالک کی تعداد 22 ہے۔ عرب لیگ میں 5 مئی 1945ء کو یمن، 28 مارچ 1953ء کو لیبیا، 19 جنوری 1956ء کو سوڈان، یکم اکتوبر 1958ء کو مراکش اور تیونس، 20 جولائی 1961ء کویت، 16 اگست 1962ء کو الجیریا، 12 جون 1972ء کو متحدہ عرب امارات، 11 ستمبر 1971ء کو بحرین اور قطر، 29 ستمبر 1971ء کو عمان، 26 نومبر 1973ء کو موریطانیہ، 14 فروری 1974ء کو صومالیہ، 9 ستمبر 1976ء کو فلسطین، 9 اپریل 1977ء کو جبوتی شامل ہوئے۔ 2003ء سے اریٹیریا، 2006ء سے وینزویلا اور 2007ء سے بھارت اس اتحاد میں Observer کی حیثیت سے شامل ہوئے ہیں۔مصر کے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کے بعد اس کی 1979ء میں عرب لیگ کی ممبرشپ منسوخ کردی گئی۔ 1987ء میں عرب لیگ کا قاہرہ میں موجود ہیڈکوارٹر تبدیل کرکے تیونس منتقل کر دیا گیا۔

عرب لیگ نے 1989ء میں دوبارہ مصر کی ممبر شپ بحال کردی اور قاہرہ کو دوبارہ ہیڈکوارٹر بنا دیا گیا۔ عرب لیگ کے اب تک چھوٹے بڑے اجلاس تو کئی ہوچکے ہیں لیکن سربراہی اجلاس 21ہوئے ہیں ۔22واں سربراہ اجلاس 27اور 28مارچ 2010ء کو لیبیا میں ہوا۔اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قطر کے امیر شیخ احمد بن خلیفہ الثانی نے کہا: ”عرب قیادت کے مابین رابطے کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے ۔“لیبیا کے معمر قذافی نے کہا: ”یہ وقت باتوں کا نہیں بلکہ ٹھوس عملی اقدامات کا ہے۔“ اجلاس میں ترک وزیر اعظم طیب اردگان ،اٹلی کے وزیراعظم برلسکونی اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کیمون نے بھی شرکت کی۔انہوں نے بھی یہودی بستیوں سے متعلق اسرائیلی فیصلوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی۔اجلاس کے آخر میں عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل ”عمرو موسٰی“نے کیا: ”ہم مشرق وسطیٰ کو ایٹمی اسلحے سے پاک خطہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
 
اسرائیل اپنا نیوکلیئرپروگرام بین الاقوامی بگرانی میں لائے۔ اسرائیل، بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکے۔ ہم امریکا کی اسرائیل نواز پالیسی کی پرزور مذمت کرتے ہیں۔“ آج سے دوسال پہلے 30 مارچ 2008ء کو دمشق میں ہونے والے سربراہ اجلاس میں ”عمرو موسیٰ“ نے کہاتھا: مشرقِ وسطیٰ میں قیام امن کے لیے مسئلہ فلسطین کا حل ناگزیر ہے ۔اسرائیل یہودی آباد کاروں کے ذریعے امن مذاکرات تباہ کررہا ہے۔ اگر اسرائیل نے رویہ نہ بدلا تو ہم سخت اقدامات پر مجبور ہوں گے۔“ عرب لیگ نے ایک متفقہ قرارداد میں یہ بھی کہا تھا: ”اگر ہم خطے کے سنگین حالات پر قابو پانے میں ناکام رہے تو پھر اس کے نتائج خوفناک ہوں گے جس کا ذمہ دار امریکا ،اسرائیل اور اس کے اتحادی ہی ہوں گے۔“ اصل بات یہ ہے امریکا اور دیگر عالمی طاقتیں اس خطے میں ہر حال میں اسرائیل کی بالادستی چاہتی ہیں۔

وہ کسی بھی صورت میں ”اسرائیل فلسطین تنازع“ کا حل نہیں چاہتی بلکہ اس علاقے میں مزید ایسے ناسور پیدا کرنا چاہتی ہیں جو صدیوں رستا رہے۔ اب دیکھیں ”لبنان شام“ کا مسئلہ ایک عرصے سے چل رہا ہے۔ ہزار کوششوں کے باوجود ختم ہوکے نہیں دے رہا۔ اگر علاقائی تنظیمیں اس کو حل کرنے کے لیے مل بیٹھی ہیں تو استعمار اس میں طرح طرح کی رکاوٹیں ڈالتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے سامراجی قوتوں کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے وہ عالم اسلام کے حکمرانوں خصوصاً عربوں کو متحد ومتفق نہ ہونے دیں تاکہ اس کے دیرینہ مقاصد ومطالب پورے ہوتے رہیں۔ اس کام کے لیے انہیں جو کچھ بھی کرنا پڑے وہ کرتے ہیں۔
 
تازہ خبر ہے سعود ی افواج کی تربیت ”بلیک واٹر “کرے گی۔سوچنے کی بات ہے اسرائیل نے فلسطینیوں پر چھ دہائیوں سے ظلم وستم کا بازار گرم کررکھا ہے۔ اپنے دفاع میں اگر مظلوم فلسطینی کچھ کرتے ہیں تو وہ دہشت گرد کہلاتے ہیں۔ اگر ایک بھی صہیونی مرتا ہے تو اس کا بدلہ لینے کے لیے ”یہودی رِبی“ تک چیخ اُٹھتے ہیں۔دوسری طرف مسلمانوں کا کون سا علاقہ اور خطہ ہے جہاں طاغوت نے شورش بپا نہ کررکھی ہو۔ فلسطین، عراق، افغانستان، کشمیر، صومالیہ، کوسوو ہر مسلمان ہی گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں۔گزشتہ دنوں بغداد کے قریب ایک اجتماعی قبر سے 14 تشدد زدہ لاشیں دریافت ہوئی ہیں۔ اسی طرح افغانستان کے علاقے دشت لیلیٰ میں بھی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی تھیں جس میں سیکڑوں کی تعداد میں تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوئی تھیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک ہزار ایسی اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں جن میں مظلوم مسلمانوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ کوسوو اور بوسنیا میں بھی اجتماعی قبریں دریافت ہوچکی ہیں۔
 
یہ سب انسانیت کش مظالم استعماری طاقتوں کی طرف سے مسلمانوں پر ہر جگہ روا رکھے جارہے ہیں۔ اس کے باوجود مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جارہا ہے۔ کون نہیں جانتا مسلمانوں نے جب بھی علاقے فتح کیے، وہاں کے لوگوں خصوصاً خواتین، بوڑھوں اور بچوں کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کیا۔فتح مکہ اور صلاح الدین ایوبی کا بیت المقدس فتح کرنے کے بعد عیسائیوں سے بہترین سلوک اس پر عادل شاہد ہے۔ اس کے برعکس 1492ء میں اسپین میں اسلامی حکومت ختم ہوئی۔ ساڑھے تین لاکھ مسلمانوں کو مذہبی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ان میں تقریباً 30 ہزار کو سزائے موت ملی اور 12000 کو زندہ جلادیا گیا۔

یہ تو تھی قدیم استعماری ذہنیت، اب ذرا جدید استعمار کی کہانی بھی سنیں۔ اس استعمار نے عالم اسلام کے لیے تین ہدف مقرر کیے ہوئے ہیں۔ نمبر ایک: عالم اسلام کا مختلف حیلوں بہانوں سے مستقل محاصرہ کیے رکھنا۔ نمبر دو: عالم اسلام کو تقسیم درتقسیم کرکے ٹکڑوں بلکہ ٹکڑیوں میں بانٹنا۔ نمبر تین: ہر ٹکڑے کو شکنجے میں کسنا اور پھر ایک ایک کرکے نگلنا۔ چنانچہ اس پر بہت پہلے سے عمل شروع کیا گیا تھا۔ لانگ ٹرم پالیسی کے تحت استعماری ایجنٹ مسلم ممالک کو ایک ایک کرکے ہضم کرتے چلے گئے۔ استعمار نے بلاداسلامیہ پر قبضہ کے ساتھ ساتھ فکری محنت جاری رکھی اور ابتدا ئی طور پر یہ دو کام بھی کئے۔ ایسے مسلمان مفکرین پیدا کیے جو مسلمانوں سے اسلام کی روح نکال دیں، اسلام کے نام پر ایسی تحریکیں چلائیں جو مسلمانوں کو استعمار کی حکومت تسلیم کرنے اور اس کی اطاعت کی ترغیب دیں بلکہ اسے واجب قرار دیں۔

نمبر دو: عیسائی مفکرین اور ان کے ایجنٹوں کا ایک ٹولہ پیدا کیا جو مسلمانوں کے درمیان مذہبی اور گروہی انتشار اور اختلافات کو بھڑکائے تا کہ امت کی وحدت پارہ پارہ ہوجائے۔ خلافتِ عثمانیہ کے بعد سے اس پر بتدریج کام ہوا اور ہورہا ہے۔ پہلے برطانیہ نے ملکوں پر شب خون مارا، پھر روس نے اور اب واحد سپر پاور امریکا اپنی خوںآ شام پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ آج یہ سوال ہر کس وناکس کی زبان پر ہے کہ مسلمانوں کی تنزلی، ادبار، بے بسی کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ عالمی طاغوتی قوتیں، مسلمان عوام یا پھر مسلم حکمران؟ مسلمانوں کے پاس بہترین محل وقوع ہے۔ دنیا کے 70 فیصد وسائل کے مالک ہیں۔ بے پناہ افرادی قوت ہے۔ جب مسلمان وسائل اور تعداد دونوں لحاظ سے زیادہ ہیں تو پھر پسماندہ کیوں؟ مظلوم کیوں؟ بے بس کیوں؟ زیردست کیوں؟ اسلام سب سے زیادہ پُرامن مذہب ہے لیکن آج قرآن کو کیوں دہشت گردی کا منبع کیوں کہا جارہا ہے؟ مسلمان کو کیوں دہشت کی علامت قرار دیا جارہا ہے؟ اس کی وجہ کسی بھی بصارت اور بصیرت والے پر مخفی نہیں۔ مغرب اس کے پردے میں اپنے گھناؤنے جرائم اور کھلی جارحیت اور بدترین دہشت گردی چھپانا چاہتا ہے۔
 
او آئی سی کے بعد مسلمانوں کی سب سے بڑی نمایندہ تنظیم ”عرب لیگ “شمار ہوتی ہے ۔اس نمایندہ تنظیم کا لیبیا میں ہونے والا دو روزہ اجلاس بغیرکسی ٹھوس نتیجے کے ہی ختم ہوگیا ہے۔ ان حالات میں جبکہ فلسطین، عراق، افغانستان، صومالیہ، کشمیر، شیشان کے مسلمانوں پر طاغوت نے عرصہٴ حیات تنگ کررکھا ہے۔ مقدس ہستیوں کے نازیبا خاکے شایع کیے جارہے ہیں۔ قرآن کو ”دہشت گردی“ کی تعلیم کا منبع قرار دیا جارہا ہے۔ اس پر بے ہودہ فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ پورا عالم کفر کمر کس کر مسلمانوں کے خلاف نظریاتی، سیاسی، معاشی، سماجی، معاشرتی ہر میدان میں برسرپیکار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا عالم اسلام کے حکمران باہمی اتفاق واتحاد سے مل بیٹھ کر کوئی حل نکالتے۔ کوئی توانا لائحہ عمل تیار کرتے۔ کوئی مضبوط موقف اختیار کرتے۔ کوئی ٹھوس قرارداد منظور کرتے تاکہ عالم اسلام پر طاغوت کی ہمہ جہت یلغار کو روکا جاسکتا۔ القدس کو یہود یوں کے خونی پنجے سے آزاد کروایا جا سکتا

 
بشکریہ روزنامہ جنگ

لینک کوتاه:

کپی شد

مطالب بیشتر از انور غازی