غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کے لیے روانہ کیے گئے ترک فلوٹیلا پر اسرائیل کے حملے نے جو بجلی پیدا کی ہے، وہ ابھی تک چمک رہی ہے۔ اس کی گونج بھی سنائی دے رہی ہے اور بہت کچھ جل بھی رہا ہے۔ سمندر کے پانیوں کو سرخ کرنے والا لہو رنگ لا رہا ہے۔
اسرائیل کے سرکاری اخبار Haaretz میں این بروما کا ایک آرٹیکل 9 جون کو شائع ہوا ہے۔ اس کا عنوان ہے کہ کیا اسرائیل ایک نارمل ملک ہے؟ یہ بات پیش نظر رہے کہ این بروما اسرائیل کے بارڈ کالج میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے پروفیسر ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب منظر عام پر آئی ہے جس کا ٹائٹل ہے:
Taming The God: Religion And Democracy on Three Continents.
اس طرز کے دانش وروں اور مفکرین کے ساتھ مستقلاً مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہاں کی خرابیوں کا جواز دوسروں میں تلاش کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مضمون کا آغاز بہت دلفریب انداز میں کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی کارکنوں کی حمایت میں نکلنے والے فلوٹیلا پر حملہ کرنے کا ظالمانہ فیصلہ کیا۔ اس کا خوفناک نتیجہ یہ تھا کہ 9 سول افراد اِن کے کمانڈوز کے حملے سے مارے گئے۔ اسرائیل کی طرف سے غزہ کا بحری محاصرہ کرنا، گھروں کو تباہ کرنا اور روزانہ کی بنیاد پر فلسطینیوں پر تشدد کرنا بلاشبہ ریاستی دہشت گردی ہے۔ تاہم سڑکوں کی ناکہ بندی سے اس کو جوڑنا درست نہیں، وہ الگ معاملہ ہے۔
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان کا ردّعمل سامنے آیا تو انہوں نے اسرائیل کے حملے کو انسانی ضمیر پر حملہ قرار دیا جسے ہر طرح کی لعنت ملامت کا مستحق کہا جانا درست بتایا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ تاریخ کا ایک نیا موڑ ہے۔ اب کچھ بھی پہلے کی طرح کا نہیں رہے گا۔ ان کا یہ بیان اور انداز سوائے پاگل پن کے کچھ نہیں ہے۔ جب بھی مختلف اسرائیلی حکومتوں کے بارے میں بقول این بروما بات کی جاتی ہے (میں موجودہ حکومت کو اس سے بری الزمہ قرار دیتا ہوں) تو ان کی طرف سے ہونے والے ریاستی تشدد کو بہت نمایاں کیا جاتا ہے، سخت ردّعمل ظاہر کیا جاتا ہے، لیکن جب یہی تشدد دوسرے ملکوں میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر خود ترکی میں اپنے شہریوں پر تشدد کیا جاتا ہے۔ ان دوسرے ملکوں کے لیڈروں کے جرائم پر ردّعمل اس قدر شدید نہیں ہوتا۔ پھر بہت سے نقاد سوال کرتے ہیں کہ پھر اسرائیل ہی کیوں؟
پروفیسر بروما لکھتے ہیں کہ اسرائیل کے تشدد کا پرچار کرنے والوں نے شاید یہ بات فراموش کر دی کہ شام کے صدر حافظ الاسد نے 1982ء میں ہما شہر میں اخوان المسلمون کے بیس ہزار ارکان کو قتل عام میں ختم کر ڈالا۔ اسرائیل کے مقابلے میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں مارے جانے والے مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اتنے مسلمان تو امریکہ نے بھی نہیں مارے۔ کوئی یہی دیکھ کر جمہوریہ کانگو میں ہونے والی خانہ جنگی میں چالیس لاکھ انسان مارے گئے تو پھر تاریخ کا موڑ لینے کا دعویٰ عجیب سا لگتا ہے، ان کے مطابق:
”ان ممالک نے بھی وہ کچھ نہیں کیا جو اسرائیل اس واقعہ کے بعد کر رہا ہے۔” پروفیسر این نے لکھا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں بات کرنے والے اسی طرح کی بات دوسرے ملکوں کے بارے میں نہیں کرتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔ چونکہ یہودی مخالفت سب میں رچی ہوئی ہے، اس لیے انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔
پروفیسر صاحب کا خیال یہ بھی ہے کہ 1973ء کی جنگ کے بعد اہل یورپ نے سکون کا سانس لیا کہ اچھا ہوا کہ اسرائیل نے خود کو ثابت کر دکھایا کہ وہ بھی جارحیت کر سکتا ہے۔ اس طرح ان اقوام نے جو مظالم کیے تھے، ان کو ذہنوں سے مٹانے کا راستہ کھل گیا۔ پھر انہوں نے جرائم اور مظالم کی پردہ پوشی کا راستہ یہ نکالا کہ اسرائیل کے مظالم کا جھوٹ سچ بیان کیا جائے اور اس یہودی ریاست کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ نازی اخبار Der Stuemer نے لکھا تھا کہ یہودی ہماری بدقسمتی ہیں۔ اب فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کے تنازعے نے اسے نیا رُخ دے دیا ہے۔
پروفیسر صاحب کے خیال میں اسرائیل کی جارحیت افسانہ ہے اور اس کے بارے میں دنیا کے معیار دوھرے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے دانش ور نے اسے ”اخلاقی نسل پرستی” کا نام دیا ہے۔ کسی افریقی یا ایشیائی قوم کی خون کی پیاس کی اس طرح سے تشہیر نہیں کی جاتی جس قدر ایک یورپی یا گورے کے ایسے کام کو اچھالا جاتا ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے اور کئی سوچتے ہوں گے کہ آخر کار وحشیوں سے آپ توقع ہی کیا کر سکتے ہیں؟ انہیں کسی خیر کا کیا پتہ؟
پروفیسر صاحب کا آرٹیکل اس کیفیت کو نو آبادیاتی جذبائیت قرار دیتا ہے۔ یہی نو آبادیاتی ذہنیت ان کے مطابق کئی ایک طریقوں سے اسرائیل کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔ ہم جنوبی افریقہ کے نسل پرست ماضی سے آگاہ ہیں۔ اسرائیل دنیا کو یورپی استعمار کی یاد دلاتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کو ایک ایسی نو آبادیات قرار دیا جاتا ہے، جس پر یورپ کی طرح گورے حکمرانی کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس حقیقت کو بہت سے لوگ بھول جاتے ہیں کہ بہت سے اسرائیلیوں کا اصل وطن ایران ہے، بغداد ہے، فلسطینیوں کو نوآبادیات کے غلام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب تک اسرائیل عرب علاقوں پر قابض رہے گا، اتنا ہی یہ غلامی اور بھی گہری ہو جائے گی۔
پروفیسر صاحب کے مطابق اسرائیل ایک جمہوریہ ہے۔ اس کو اس طرح سے دیکھنا درست نہیں جس طرح سے لوگ آمریتوں کو دیکھتے ہیں۔ ہمیں بنیامین نیتن یاہو سے ایران کے صدر احمدی نژاد سے کہیں زیادہ توقعات ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ اسرائیلی ایرانیوں سے برتر ہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیتن یاہو آزادانہ انتخاب میں اور قانون کی حکمرانی میں منتخب ہوئے جبکہ احمدی نژاد نے ایران کے جمہوری کردار کی ایسی کی تیسی کر دی ہے۔ اس لیے اسرائیل سے نارمل تعلقات جمہوریت کی قدر کرنے کا لازمی تقاضا ہیں۔
اگر کچھ ملک اسرائیل کو نارمل ملک تسلیم نہ کریں تو پھر اسرائیل کے پکے دفاع کے سپاہیوں کا معاملہ بھی یہی ہو گا۔ پروفیسر این بروما کے مطابق اسرائیل زخموں سے چور ایک ملک ہے۔ نازیوں کے جرائم بہت زیادہ تھے۔ اسرائیل کے لوگ ان جرائم کے شکار لوگوں کے وارث ہیں۔ اسرائیل کی مخالفت کرنے والے ترکی کے لوگ جدید دور کے نازی ہیں۔
پروفیسر این نے ایک اور بات لکھی ہے اور وہ اسرائیل کے بانیوں کو مخاطب کر کے لکھی ہے کہ وہ لوگ جو کچھ تھے، آج کا اسرائیل ان کی سو فیصد ضد ہے۔ وہ ایک نئی اور نارمل قوم بنانا چاہتے تھے۔ ان کے پیش نظر ایسی قوم تھی جس میں امن سے کام کرنے والے یہودی کھیتی باڑی کریں، فوج بنائیں اور ان بے سہارا یہودیوں جیسے نہ ہوں جن کو یورپی اقوام نے دبا دیا تھا۔ پھر ہولوکاسٹ ریاستی پروپیگنڈہ میں باری لے گیا۔
پروفیسر صاحب نے لکھا کہ یہودیوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہی ماضی کے ڈسے ہوئے لوگ ہیں۔ وہ اس سے فرار چاہتے ہیں۔ وہ اپنے ماضی سے فرار نہیں ہو سکتے۔ ان کے اقدام دوسروں کے مظالم کا جواز بنائے جا رہے ہیں، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
پروفیسر بروما کے اوپر بیان کردہ خیالات کی تہہ دَر تہہ حقیقت بیان کرتی ہے کہ اسرائیل کی جارحیت کا جواز موجود ہے۔ طیب اردگان کا تاریخ کا رُخ موڑنے کا دعویٰ بلا جواز ہے۔ فلوٹیلا پرحملہ چھوٹی بات ہے۔ غزہ کا محاصرہ معمول کا معاملہ ہے۔ اصل نکتہ تو یہ ہے کہ اہل یورپ نے اسرائیل کو ہدف بنا کراپنے جرائم کو پوشیدہ کر رکھا ہے۔ کس نے کس کے جرائم کو جواز بنایا ہے، یہ لوگ اور اسرائیل طے کریں۔ تاہم یہ ضرور حقیقت ہے کہ مظالم اسرائیل کے ہوں یا پھر یورپ اور امریکہ کے، نشانہ مسلمان بنتے ہیں اور بن رہے ہیں۔ یورپ اور امریکہ کی سلامتی کی جنگ پاکستان اور افغانستان میں لڑی جا رہی ہے۔ کون کس سے منصفی چاہے اور کس سے فریاد کرے کہ ان سب نے دستانے پہن رکھے ہیں اور ان کا دست دراز مسلمانوں کے سروں کو ان کے تن سے جدا کر رہا ہے۔ حذر اے چیرہ دستاں…
یورپی خارجہ حکمت عملی: نئے عالمی کردار کی جستجو
امریکہ اور یورپ دنیا میں خارجہ حکمت عملی کے متضاد، لیکن مقاصد کے اعتبار سے ہم آہنگ رویوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر عرب دنیا میں جمہوریت لانے کے لیے امریکہ طاقت کے استعمال کو ایک اہم آپشن قرار دیتا ہے۔ جبکہ عراق کے خلاف وہ اس کا مظاہرہ بھی کر چکا ہے۔ اس کے برعکس یورپ کا عرب دنیا میں جمہوریت لانے کا منصوبہ مذاکرات، تجارت اور تقافت کی مثلث کی شکل اختیار کرتا ہے۔ وہ قوت کے استعمال کو اس مقصد کے لیے اپنے معاشی مفادات کے خلاف قرار دیتا ہے۔ دونوں انداز اپنے طور پر جاری رہتے ہیں۔
اس کی ایک تازہ مثال ایران کا جوہری پروگرام ہے۔ امریکہ طاقت اور پابندیوں کے ہتھیار آزماتا ہے۔ اس نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایران کے خلاف پابندیاں لگانے پر مجبور کیا اور پھر خود بھی ایران کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا۔ بارک اوبامہ ایران کے خلاف چھوٹے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دے چکے ہیں۔
یورپ نے برطانیہ اور فرانس کے ویٹو اختیار کو امریکہ کی حمایت میں استعمال کرنے کے باوجود اپنی خارجہ پالیسی کی اعلیٰ ترین نمائندہ کیتھرائن ایشٹن کو ایران سے جوہری معاملے پر مذاکرات کا ٹاسک دیا ہے۔ انہوں نے ان مذاکرات کے لیے ماحول کو سازگار قرار دیا ہے۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ جیسے ہی یورپ میں موسم خزاں کا آغاز ہو گا، ایران سے مذاکرات کا عمل شروع ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بارے میں امریکہ کو ابھی اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی یورپی یونین کے حکام سے بات کی گئی ہے، تاہم یہ مذاکرات ہوں گے۔
کیتھرائن کا کہنا ہے کہ ایران یورینیم افزودہ کرنے سے باز رہے اور ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی کی شرائط کے مطابق کام کرے تو اس سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ بظاہر یہ امریکہ سے متصادم پالیسی ہے تاہم سلامتی کونسل کی قرارداد کی روح کے عین مطابق ہے جس کو ڈرافٹ کرنے والا امریکہ ہی تھا۔
اسی طرح سے فلسطین کے معاملہ میں کیتھرائن محمود عباس سے یہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ وہ اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے عرب لیگ سے مکمل تعاون کریں۔ گویا یہ اس جانب اشارہ ہے کہ عرب لیگ امریکہ اور اسرائیل کے مجوزہ حل کی حمایت کرتی ہے۔ غزہ کے محاصرے میں کمی لانے پر وہ اسرائیل کی تعریف کرتی ہیں۔ تاہم تین سال سے جاری محاصرے کی مذمت نہیں کرتیں۔ گویا اسرا ئیل کو یہ کریڈٹ دے رہی ہے کہ وہ اپنے رویے میں نرمی لا رہا ہے۔
یورپ کی خارجہ پالیسی کی تشکیل نو کے مراحل ان دنوں طے کیے جا رہے ہیں۔ اس نئی خارجہ پالیسی کا مقصد یورپ کو عالمگیر سطح پر ایک متحرک اور فعال عنصر کے طور پر اور امریکہ کے مساوی کردار میں ڈھالنا ہے۔ کیتھرائن کا کہنا ہے کہ آج کی دنیا میں سیاست کا ہر دروازہ، معیشت کی جانب کھلتا ہے اور یورپی خارجہ حکمت عملی کا یہی بنیادی نکتہ رہے گا۔