یہ فتح انسانی حقوق کے علمبرداروں کے لئے ایک بڑی خوشخبری سے کسی طرح کم نہیں تھیں – لیکن ابھی یہ خوشیاں ماند بھی نہیں پڑی تھیں کہ جنیوا میں ہونے والی نسل پرستی مخالف کانفرنس میں اس کی قلعی کھل گئی- اس کانفرنس کے خلا ف سب سے پہلے جس نے زبان کھولی وہ اومابا کے سوا کوئی اور نہیں تھا- انہوں نے صاف الفاظ میں کہاکہ اس سربراہ اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں اسرائیل مخالف زبان استعمال کئے جانے کا خدشہ ہے- جو اجلاس کے منفی نتائج برآمد کرنے کا سبب بنے گا- یہی وجہ ہے کہ امریکہ اس میں شرکت نہیں کرے گا-
اس کے بعد امریکہ نے باقاعدہ اس کانفرنس کے بائیکاٹ کا حکم جاری کیا جسے یورپی یونین کے ممالک نے مستردکردیا – البتہ جرمنی ‘ ہالینڈ ‘ آسٹریلیا ‘ اٹلی اور فطری طور پر اسرائیل نے اس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا- البتہ یورپی یونین کے زیادہ تر ممالک نے امریکی و اسرائیلی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے اس کانفرنس میں شرکت کی- ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کی تقریر کے دوران کچھ ممالک کے نمائندے ایک مختصر وقفہ کے لئے واک آؤوٹ کرگئے- جب کہ صدر احمد ی نژاد اپنے وعدے پر قائم رہتے ہوئے دانستہ کسی کوزک پہنچائے بغیر حق گوئی میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی- تاہم امریکی بائیکاٹ کے باوجود صدر نژاد کو اس کانفرنس میں شرکت کے لئے مدعو کرنا اور انہیں اظہار خیال کے لئے موقع دینا اپنے آپ میں امریکی اور صہیونی عزائم کے لئے خفت کا سبب تو ہے ہی مگر انصاف پسندوں کے لئے یقیناً خوش آئند ہے- تعجب اس بات پر ہوتاہے کہ کانفرنس سے قبل ہی اس بات کا اندیشہ ظاہر کردیاگیا کہ صدر احمد ی نژاد ایک مرتبہ پھر اسرائیلی نسل پرستی کو چیلنج کریں گے- ہمارے خیال میں اگر صہیون نوازی کی یہ بنیاد صداقت پر مبنی ہے تو اس کے پرستاروں کو اس قسم کے اندیشوں میں گرفتار ہی نہیں ہونا چاہیے –
دنیا پر اس کی صداقت کو ثابت کردینا چاہیے لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ اب امریکی و اسرائیلی معیشت ہی نہیں بین الاقوامی ساکھ بھی متزلزل ہوتی جا رہی ہے ایرانی صدر کی حق گوئی قدرے ’’Anti Sematic‘‘ رہی ہے – یورپ جہاں برداشت کرگیا – حد تو یہ ہے کہ برطانیہ اور فرانس نے نہ صرف کوئی مخالفت کی بلکہ شرکت پر آمادگی کا اظہار بھی کردیا – پوپ بینڈکٹ نے بھی اس کانفرنس کی حمایت کی –
اس کانفرنس کے دوران جب صدراحمد ی نژاد نے اسرائیل کے خلاف انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا تو ان کی تقریر کو نہ صرف سنا گیا بلکہ اس کی خاطر خواہ پذیرائی بھی ہوئی- اس وقت جب کہ اسرائیلی معیشت بھی بحران کا شکار ہے- ہندوستان اسے سہارادینے میں پیش پیش ہے – یہ واقعہ کہ اسرائیل کے ازکار رفتہ اور بے کار اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار بھات ہے اور ابھی حال ہی میں بھارت نے ایک جاسوسی سیارہ اسرائیل ہی کے تعاون سے خلاء میں داغا ہے-
اسرائیل کی گرتی ساکھ کو سنبھالنے میں کن عناصر کا مفاد پوشیدہ ہے یہ تو جلد یا بدیر سامنے آ ہی جائے گا- بلکہ شائد لوگ یہ سمجھنے میں غلطی نہیں کریں گے حکومت کے ایوان میں بھی درپردہ ان لوگوں کی کارفرمائی ہے جو اسرائیل کے تعاون سے ’’ہندوراشٹر ‘‘ کے قیام کی منصوبہ بندی میں سرگرم عمل ہیں- لیکن عالمی سطح پر ہوا کا رخ وہ نہیں ہے جس کی طرف بھارتی سیاست کامرغ بادنما اشارہ کررہاہے- ایک تو صدر نژاد کی شرکت کے متعلق علم کے باوجود یورپی یونین کی شرکت ‘ کانفرنس میں ان کے خیالات کی پذیرائی- اگرچہ بعض ممالک نے اسرائیلی نسل پرستی کے خلاف صدر احمدی نژاد کی باتوں کا بائیکاٹ بھی کیا ہے اور پھر ایک اور خبر جس کا تعلق برطانوی وزیرخارجہ ڈیوڈ ملی بینڈ کے اس بیان سے ہے کہ ’’اسرائیل کے لئے اسلحہ کی تمام دنیا کی درخواستوں کا جائزہ غزہ کی موجودہ صورت حال کے لئے تناظر میں لیا جائے- اسلحہ کے لئے ملنے والی درخواستوں پر یورپی یونین اور برطانوی قوانین کے تحت غور کیا جائے گا-
ادھر اسرائیلی وزیرخارجہ نے روس امریکہ اور چین کو اسرائیل کے تحفظ کے لئے قریب نے کی دہائی دی ہے اور اس کے لئے پاکستان کا ہوا کھڑا کیا جار ہاہے- عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کی تباہی اور اس کے بعد خطے میں اس کی طاقت کو پوری یعنی پاک ‘ افغان سرحد ہی نہیںPAK AF- یا صہیون پرستی کا اگلا نشانہ Sematic Racismطرح کچل دینے کے بعد اب دونوں ممالک ہیں-
افغانستان کی تباہی کے لئے اسامہ کا ہوا کھڑا کیاگیاتو پاکستان کے لئے بیت اللہ محسود کا اور جب انہیں اسامہ سے بھی زیادہ خطرناک قرار دیا جار ہاہے – دونوں میں کچھ باتیں مشترک بتائی جا رہی ہیں اور اسرائیلی وزیرخارجہ باقاعدہ اعلان کررہاہے کہ خطرہ ہے اور ان دنوں پاکستان اور افغانستان نہ صرف اسرائیل کے لئے بلکہ سارے عالمی نظام کے لئے اشتراک سے اسامہ کے خیالات پر مشتمل اسلامی ریاست وجود میں آ سکتی ہے – پاکستان میں شدت پسندی کا خطرہ کتنا حقیقی ہے اس کا صحیح اندازہ تو نہیں لگایا جاسکتا مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں دو ہی ممالک کسی عقیدہ کی بنیاد پر وجود میں ئے ہیں –
ایک اسرائیل اور دوسرا پاکستان ‘پھر پاکستان ایٹمی ریاست بھی ہے گو اسرائیل کی طرح جنگجو ریاست نہیں- اسرائیلی وزیرخارجہ ایران کی ایٹمی طاقت کو فی الحال اس لئے کم سنگین قرار دے رہے ہیں کہ وہ ابھی ہتھیاروں کی شکل میں نہیں ہے جبکہ پاکستان تقریباً تین دہائی قبل ہی سے اسے حاصل کرچکاہے- صہیونیت کے لئے یہ کسی صورت گوارا نہیں کہ کوئی بھی ایسا ملک جو نظریاتی طور پر اسرائیل کے وجود کا قائل نہ ہو ایٹمی طاقت بن سکے – چنانچہ گرتی ہوئی معیشت اور تمام تر مالی بحران کے باوجود پاکستان اور افغانستان کے خاتمہ کے لئے جان توڑکوشش جاری ہے- امریکہ و اسرائیل اس بات سے بھی واقف ہیں کہ اس مشن میں کامیابی کے لئے ہندوستان کا تعاون ضروری ہے – چنانچہ 26/11کے لئے بد قسمتی سے بھارت کا انتخاب کیا گیاتھا- پاکستان کے حالات جو کچھ بھی ہیں اسے مزید غیر مستحکم کرنا اور تباہی کے دہانے تک پہنچادیناصہیونیت کی اولین ترجیحات میں سے ہے- مگر کون جانے کہیں اپنی اس ترجیح کو حاصل کرنے میں وہ خود ہی نیست و نابود ہو کر نہ رہ جائے-