ایک طویل مدت تک تعطل کا شکار رہنے والے عرب اسرائیل مذاکرات کے بعد ایک بار پھر توقع پیدا ہوئی ہے کہ فلسطینی قیادت اوراسرائیلی حکومت عہدیدار مذاکرات کی میز پرآمنے سامنے براجمان ہوں گے- یہ تجویز دراصل امریکا نے فلسطینی صدر محمود عباس کو پیش کی تھی جس کے بعد عرب لیگ کی کمیٹی نے اس پر غورکیا- محمود عباس کو عربوں کی پشت پناہی درکار تھی چنانچہ عرب لیگ کی ایک متعلقہ کمیٹی نے اس بات پر آمادگی کا اظہار کیا کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان بالواسطہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جانے چاہئیں – حقیقت یہ ہے کہ مصر اور اردن کی جانب سے فلسطینی صدرپر شدید دباؤ تھاکہ امریکا کی اس تجویز کومان لیا جائے اور بالواسطہ مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں کیونکہ فروری 2010ء کے وسط میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے مصر کے صدر حسنی مبارک سے اس بارے میں ٹیلی فون پر گفتگو کی کہ وہ یہ مذاکرات بغیر کسی تاخیر کے شروع کرنا چاہتاہے-
اسرائیل کی تاسیس کسی جنگ اور فتح کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اسرائیل کا قیام سازشوں کے نتیجے میں مذاکرات اور معاہدوں کے بعد وجودمیں آیا اور تاریخ گواہ ہے کہ آج تک معاہدے اور مذاکرات ہی اس ناپاک ریاست کے وجود کو باقی رکھے ہوئے ہیں- ریاست اسرائیل کو وجود بخشنے کے لیے سب سے پہلے 2نومبر 1917ء کو برطانوی سیکرٹری خارجہ آرتھرجیمز بالفور نے اپنی حکومت کی طرف سے ایک اعلامیہ جاری کیا جسے ’’اعلان بالفور ‘‘ کے نام سے تاریخ میں لکھا اور پڑھا جا تاہے- اس اعلامیہ کی منظوری برطانوی کابینہ کے اجلاس منعقدہ 31اکتوبر 1917ء میں دی گئی تھی -یہ اعلامیہ مذکورہ سیکرٹری خارجہ کی طرف سے برطانوی یہودی کمیونٹی کے سربراہ والٹر روشچلڈ کو ارسال کیاگیاتھا جس میں برطانوی حکومت کی طرف سے اس بات کااعلان کیاگیاتھا فلسطینیوں کے قومی وطن کو یہودیوں کی آماجگاہ کے طور پر تسلیم کرلیاگیاہے- یہ اعلامیہ صہیونی تحریک کی کتنی بڑی کامیابی تھا اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ آج تک پوری دنیا کے یہودیوں اور اسرائیل کے اندر 2نومبرکی تاریخ کو ایک قومی دن کے طور پرتہوار کی صورت میں منایا جاتاہے- اس اعلامیے کی اصل دستاویز شاہی لائبریری برطانیہ میں آج بھی محفوظ ہے –
اسرائیل کے قیام کے لیے پہلی باقاعدہ تحریک 1919ء کی امن کانفرنس کے بعد پیش کی گئی ، اس ’’امن کانفرنس ‘‘ کا نتیجہ بہت جلد دوسری جنگ عظیم کے طور پر دنیا کو بھگتنا پڑا- یہ کانفرنس پہلی جنگ عظیم کے بعد پیرس میں منعقد ہوئی اوراس میں دنیا کے تیس بڑے ممالک دنیا کے نئے نقشے کی ترتیب کے نام پر بندر بانٹ میں مصروف کار رہے-اس کانفرنس کے فیصلے کے نتیجے میں فلسطین کے صوبے کو سلطنت عثمانیہ سے کاٹ کر الگ کردیاگیاتھا- اس کانفرنس کے بعد صہیونی تنظیم نے اسرائیل کے خواب کا پہلا مسودہ 3فروری 1919ء کو پیش کیا- اس مودے میں پانچ بنیادی نکات تحریر تھے جن کا خلاصہ اور لب لباب یہ تھاکہ فلسطینی علاقے کو یہودیوں کی سرزمین کی حیثیت سے اصولی طور پر تسلیم کیاجائے- اس کانفرنس میں اس مسودے کو یادداشت کی حیثیت دی گئی گویا دوسرے لفظوں میں ایک طرح سے مان لیاگیا- یاد رہے کہ اسی امن کانفرنس کے نتیجے میں لیگ آف نیشن کا قیام عمل میں آیاتھا-
امن کانفرنس کے نتائج تو غیروں سے تعلق رکھتے ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کے قیام میں اپنوں نے بھی کوئی کم کردارادا نہیں کیا- قیام اسرائیل کا پہلا تاسیسی معاہدہ دراصل حجاز بادشاہ کے بیٹے شاہ فیصل اور شیم وژم یہودی کے درمیان ہونے والامعاہدہ تھا جس پر 3جنوری 1919ء کو ان دونوں نے دستخط کیے- شاید اسی کامیابی کے نتیجے میں شیم وژم یہودی کو بعد میں عالمی صہیونی تنظیم کا صدر بھی بنالیاگیاتھا- یہ معاہدہ عرب یہودتعاون کا معاہدہ تھا اس وعدے کے ساتھ کہ ایک فریق فلسطین میں یہودی ریاست کی راہ ہموار کرے گا تو دوسرا فریق بقیہ مشرق وسطی کو عرب سرزمین کے طورپر تسلیم کرلے گا- اس معاہدے کے دوران شیم وژم یہودی نے عرب لباس زیب تن کیے رکھا تاکہ دوستی کا ناٹک برقرار رہے – اس معاہدے کے فوراً بعد شیم وژم یہودی پیرس کے لیے روانہ ہوگیا جہاں اس نے امن کانفرنس میں صہیونی تنظیم کے وفد کی سربراہی کی – شاہ فیصل اور شیم وژم یہودی کے درمیان اس معاہدے کے لیے برطانوی خفیہ ایجنسی ایک عرصے سے متحرک تھی اور اس سے پہلے بھی 1918ء میں شاہ فیصل کو شیشے میں اتار نے کے لیے شیم وژم یہودی کے ساتھ متعدد ملاقاتوں کا انتظام کیاگیاتھا- حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس معاہدے میں یہ بھی طے کرلیاگیاتھاکہ امن کانفرنس کے بعد ایک کمیشن کے ذریعے عرب ریاست اور یہودی ریاست کی حدود کا تعین بھی کیاجائے گا-
دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ کا ادارہ قائم ہوا اور 29نومبر1947ء کو جنرل اسمبلی کی قراردادنمبر181کے ذریعے فلسطین کے علاقے کو دوحصوں میں تقسیم کردیاگیا- 32فیصدیہودی آبادی کو 58فیصد علاقہ مرحمت کردیاگیا اور بقیہ ریگستانی علاقہ فلسطینیوں کی قسمت میں لکھ دیاگیا، اقوام متحدہ کا یہ ادارہ اپنے آغاز سے ہی بڑی طاقتوں کے خنجر کے طور پر امت مسلمہ کی کمر میں پیوست ہوتارہاہے- اس کے نتیجے میں 1947ء کے آخرمیں فلسطینیوں نے اپنے ایمان وزمین کے تحفظ کی سول جنگ شروع کردی اور 1948ء کے آغاز تک عرب افواج آزادی کے نام سے دیگر عرب علاقوں سے بھی سرفروشان اسلام اس جنگ میں شریک ہوگئے- ’’امن عالم ‘‘ کے ٹھیکیدار برطانیہ کے بوئے ہوئے اس بیج پر 1948ء کے وسط میں باقاعدہ عرب اسرائیل جنگ شروع ہوچکی تھی اور دونوں طرف سے بھاری توپ خانے کا استعمال اور بعد میں فضائی حملے بھی شروع ہوگئے- بڑی طاقتوں کی مداخلت پر ایک بار پھر ’’مذاکرات ‘‘ کی میز سجی اور 2فروری 1949ء کو مصر نے ،23مارچ 1949ء کو لبنان نے 3اپریل 1949ء کو اردن نے اور 20جولائی کو بالآخر شام نے بھی اس عارضی امن معاہدے پر دستخط کردیے- اس معاہدے کے نتیجے میں فلسطین اور اردن کا 18فیصدمزید علاقہ اسرائیل کو مل گیا جو اقوام متحدہ کے اعلان کردہ علاقے سے پچاس فیصد زائد تھا، لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوگئے اور اتنے ہی عرب شہداء کے خون رائیگاں گئے اور اس معاہدے کے بعد مغربی آقا اور اسرائیلی حکمران عرب قیادت سے بہت خوش ہوگئے-
1949ء کے عارضی امن معاہدے کے نتیجے میں قائم ہونے والی سرحد ’’خط سبز ‘‘ کہلائی جو 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ تک اسرائیل اور پڑوسی ممالک کے درمیان ملکی سرحدوں کاکام کرتی رہی- اسرائیل کے قیام سے آج تک امن معاہدے، مذاکرات ،اقوام متحدہ کی قراردادیں اور عالمی سفارتی دباؤ صرف امت مسلمہ کی نام نہاد قیادت کو دبانے کے کام ہی آتی رہی ہیں اور اسرائیل کو یہ سب کچھ خونی جنگوں سے بھی نہیں روک سکا- چنانچہ جب بھی اسرائیل کو اپنی آبادی کے لیے علاقے اور زمین کی ضرورت پڑتی ہے وہ دنیا بھر کے قوانین اور اخلاقی و انسانی معیارات کو بالائے طاق رکھ کر وہ پڑوسیوں پر چڑھ دوڑتاہے اورعالمی طاقتیں ہمیشہ اسی کا ساتھ دیتی ہیں- اسی کی ایک مثال 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ ہے – چھ روزہ یہ جنگ 5جون سے 10جون 1967ء کے دوران جاری رہی جو مصر اوراسرائیل کے درمیان تو براہ راست رہی اور اردن جس نے کچھ ہی عرصہ قبل 30مئی کو مصر سے مشترکہ دفاع کامعاہدہ کیاتھا وہ بھی چارو ناچار اس میں شریک ہوگیااور اردن نے دوسری طرف سے مغربی مقبوضہ بیت المقدس پر حملہ کردیا جبکہ بقیہ عرب ممالک پہلے تو امن معاہدوں کی لکیروں کو پیٹتے رہے اور پھر انہوں نے ’’اخلاقی مدد ‘‘ ضرور کردی- اس جنگ کے بعد اسرائیل نے مزید عرب علاقوں پر قبضہ کرلیا اور کم وبیش دس لاکھ عرب مسلمان نفوس اس علاقے میں اسرائیل کے زیر تسلط آگئے-
1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ستر کی دہائی میں ’’امن مذاکرات ‘‘ کا پھر باقاعدہ آغاز ہوا اور اسرائیلی تنازع کے حل کے لیے کچھ عرب ریاستیں اس بات پر آمادہ ہوئیں کہ بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جانا چاہیے- ان مساعی کے آغاز کے سب سے پہلے مصر اسرائیل امن معاہدہ عمل میں آیا وار 26مارچ 1979ء میں واشنگٹن ڈی سی کے اندر اس پر دونوں ریاستوں کی مقتدر شخصیات نے دستخط کیے – یہ معاہدہ کیمپ ڈیوڈ ملاقات کا نتیجہ تھا جو اس معاہدے سے کم و بیش ایک سال قبل 1978ء میں منعقد ہوئی تھی ،امریکا کی ثالثی میں مصرکے سابق صدر انور سادات نے اسرائیلی وزیراعظم سے یہ ملاقات کی اور اس سے پہلے اسی مصری صدر نے 1977ء میں اسرائیل کا دورہ بھی کیاتھا- اس معاہدے کے نتیجے میں دونوں ریاستوں نے ایک دوسرے کے حق حکومت کو تسلیم کیاتھا، اسرائیل نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں قبضہ کیے گئے کچھ علاقے مصر کو لوٹائے تھے اور مصر نے اسرائیل کو اجازت دی کہ وہ نہر سویز کو اپنے جہازوں کے استعمال میں لاسکتاہے- اس طرح وہ پہلا مسلمان ملک تھا جس نے اسرائیل کے ناپاک وجود کو تسلیم کیا جس کے نتیجے میں مصرکوعالم اسلام کی شدید مزاحمت کا سامنا کرناپڑا اور مصر کی اسلامی سربراہی کانفرنس کی رکنیت بھی معطل رہی- اس معاہدے کے کچھ ہی مدت بعد مصرکے اسلامی جہاد کے نوجوانوں نے اس معاہدے کی پاداش میں صدر انور سادات پر قاتلانہ حملہ کرکے اسے ٹھکانے لگادیاتھا-
1991ء کی خلیج جنگ کے بعدایک اور کوشش کی گئی اور اس بار اسپین نے میزبانی کی اور روس بھی اس کے ساتھ شامل کاررہااور اس طرح دوسری دنیاؤں کو بھی فکر ہوئی کہ عرب اسرائیل تنازع حل کرایا جائے کیونکہ خلیج کی جنگ میں ان انسانیت کے ٹھیکیداروں کے معاشی مفادات داؤ پر لگ گئے تھے اور اب اپنے اپنے سود بچانے کی فکر میں 30اکتوبر1991ء کواسپین کے دارالحکومت میں امن کانفرنس کاانعقاد کیاگیا جو تین دن تک جاری رہی اور اسرائیلی و فلسطینی نمائندوں کے علاوہ لبنان، اردن اور شام سمیت متعدد عرب ممالک بھی شامل ہوئے- اس امن کانفرنس سے کیا نتیجہ نکلناتھا اس بات کا اندازہ صرف اسی بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اس ’’امن کانفرنس‘‘ کی منصوبہ کاری امریکا کے صدر جارج ڈبلیو بش اور وزیر خارجہ جیمز بیکر نے تیار کی تھی- مشرق وسطی کے بارے میں امریکی پالیسی بلامبالغہ ان محاوروں پر پوری اترتی ہے کہ اندھا ہمیشہ اپنوں کو ہی ریوڑیاں بانٹتا ہے ، بلی سے چھیچھڑوں کی چوکیداری کو توقع عبث ہے اور مسئلہ فلسطین میں دیگر عرب ممالک اسی طرح امریکا کی طرف دیکھتے رہتے ہیں جیسے لڑنے والی بلیاں روٹی کی تقسیم پر بندر کی طرف دیکھ رہی تھیں-
20اگست 1993ء کو ناروے کے شہر اوسلو میں بھی اسی طرح کا ایک کھیل کھیلاگیا اور اسپین کی امن کانفرنس کی سفارشات کی روشنی میں ایک معاہدہ تیار کیاگیا جسے اوسلو معاہدے کانام دیاگیا اور 13ستمبر 1993ء کو واشنگٹن ڈی سی کے اندر امریکی صدر، فلسطینی راہنما یاسرعرفات اور اسرائیلی وزیراعظم یازک رابن کی موجودگی میں فلسطینیوں کی طرف سے محمود عباس نے، اسرائیل کے وزیرخارجہ شمعون پیریز نے اپنے ملک کی طرف سے امریکی وزیرخارجہ وارن کرسٹوفر نے امریکا کی طرف سے اور روسی وزیرخارجہ اینڈری کوزریو نے اپنے ملک کی طرف سے اس پر دستخط کیے-اس معاہدے کی خاص بات یہ تھی کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیلی راہنما اور اسرائیلی قیادت براہ راست آمنے سامنے بیٹھے تھے اور بھری محفل میں انہوں نے بہت سے لوگوں کے سامنے اس معاہدے پر دستخط کیے تھے- اس معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی نیشنل اتھارٹی وجود میں آگئی- یہ ایک طرح فلسطینی ریاست کی راہ ہموار کرنے کا ایک عندیہ تھا جس کے بدلے فلسطینی قیادت نے اسرائیل کو تسلیم کرنے پر رضا مندی ظاہر کردی تھی- اس معاہدے پر فلسطینیوں کے اندر شدید بے چینی پھیل گئی اور بہت شدید مختلف سامنے آئی اور فلسطینیوں کے مذہبی اور محب وطن عنصر نے اس معاہدے کو یکسر مسترد کردیا-
اسی طرح کا ایک معاہدہ طویل قتل و غارت گری کے بعد شدید دباؤ کے نتیجے میں اردن سے بھی کرایاگیا اور 1994ء میں اردن اور اسرائیل کے حکومتی نمائندوں نے اردن اسرائیل امن معاہدے پر دستخط کردیے- اوسلو معاہدہ جو یاسرعرفات اور اسرائیل کے درمیان ہوا اس کے نتیجے میں اردن کو فلسطینی تنازع سے ایک حد تک باہر کردیاگیاتھا اور یوں 25جولائی 1994ء کو واشنگٹن ڈی سی کے اندر ہی اردن کے ’’شہنشاہ ‘‘ شاہ حسین اور اسرائیلی وزیراعظم رابن نے امریکی صدر کی موجودگی میں دستخط کیے اور یوں اردن وہ دوسرا ملک قرار پایا جس نے اسرائیل کے ناپاک وجود کو امت مسلمہ کی خواہشات کے برعکس تسلیم کرلیا – 26اکتوبر1994ء کو اردن اوراسرائیل نے ایک اور معاہدے پر دستخط کیے، یہ معاہدہ اسرائیل کی ایک وادی میں کرایا گیا جس پر اسرائیلی وزیراعظم اوراردن کے وزیراعظم نے دستخط کیے ، اسرائیلی سرزمین پر ہونے والے معاہدے میں بہت خوشی کا اظہار کیاگیااور بے شمار رنگ برنگے غبارے ہوا میں چھوڑے گئے اور بہت بڑی تقریب کا اہتمام بھی کیاگیاجس میں امریکا کی صف اول کی تمام قیادت موجود تھی – یہ دراصل خوشی کا اظہار تھا کہ ارد ن کی قیادت کو اسرائیل نے گویا اپنی سرزمین پر کھینچ کر اپنی مرضی کی شرائط پر دستخط کروائے ہیں اور اردن کی قیادت بھی اس سبکی اور شکست خوردگی پر بے حد مسرور تھی-