سنہ 1948ء میں فلسطین میں قیام اسرائیل کے منحوس اقدام کے بعد امریکا اور اور اس کے فوری بعد سابق سوویت یونین نے اسرائیل کو تسلیم کیا۔ سنہ 1950ء میں بھارت نے بھی اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرلیا۔ اس وقت کے پہلے اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوریون نے بھارت کی طرف سے تسلیم کیے جانے کے ایک روز قبل کہا کہ ’بھارت سفارتی دباؤ کے نتیجے میں اسرائیل کو تسلیم کررہا ہے‘۔سنہ 1951ء میں بھارت نےاسرائیل میں اپنا قونصل خانہ قائم کر کے یہ ثابت کردیا کہ انڈیا اسرائیل کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کر کے فلسطینی قوم کے حقوق کے باب میں نئی پالیسی پر چلنا چاہتا ہے۔
اگرچہ شروع میں بھارت اور اسرائیل کے باہمی تعلقات انتہائی کم سطح پر رہے۔ اسرائیلی مورخین کا کہنا ہے کہ قیام اسرائیل کے پہلے چار عشروں کے دوران بھارت اور اسرائیل کے درمیان دو طرفہ تعلقات منفی انداز میں آگے بڑھے۔ کئی سال تک بھارت فلسطینیوں کے بنیادی حقوق اور مطالبات میں فلسطینی قوم کی واضح طرف داری کرتا رہا۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد بھارت کی پالیسی میں مزید تبدیلی آئی۔ سوویت یونین کے زوال سے قبل عرب ممالک کی بیشتر حمایت بھارت کی نسبت پاکستان کے ساتھ رہی۔ عرب ممالک کے ساتھ جاری محاذ آرائی بھارت کو اسرائیل کے مزید قریب لے گئی۔ سنہ 1992ء میں اسرائیل کی ’لومڑی‘ نما شاطر قرار دیے جانے صدرآنجہانی شمعون پیریز اپنی چکنی چپڑی سفارت کاری سے بھارت کو رام کرلیا اور بھارت نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کرنے کا اعلان کیا۔
بھارت اور اسرائیل کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد صہیونی ریاست کے بھارت میں مفادات درج ذیل ہیں۔
عالمی حمایت میں اضافہ
بھارت کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سفارت تعلقات کے قیام کے نتیجے میں اسرائیل کو دنیا میں تسلیم کرانے کا ایک نیا راستہ ملا۔ اندرون فلسطین اسرائیل نے فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقوں پر اپنا تسلط مزید مضبوط کرنا اور توسیع پسندانہ پالیسی میں شدت اختیار کرلی، تاہم اس کے باوجود عالمی سطح پر اسرائیل کے ساتھ نفرت میں اضافہ ہوا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق بین الاقوامی برادری نے فلسطین پر اسرائیلی وجود کو آئینی جواز فراہم کرنےسے انکار جاری رکھا اور اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات کی وجہ سے اسرائیل کو نفرت کی نظروں سے دیکھا جانے لگا۔
صہیونی ریاست نے اپنے قیام کے بعد ہی آئین اور قانون کے دائروں کو پامال کرنا شروع کیا مگرعالمی سطح پر اپنے غیرآئینی قدامات کی حمایت کے حصول میں صہینیوں کو کئی عشروں کے سفر سے گذرنا تھا۔ سیاسی سطح پر اسرائیلی حکومت نے بعض سیاسی جماعتوں کی جانب سے اسرائیلی ہتھکنڈوں کی حمایت کی گئی مگر اقوام اور عوام کی سطح پر صہیونی ریاست کو کوئی خاص پذیرائی نہیں ملی۔ بھارت صہیونی ریاست کے لیے تعلقات کے قیام کا ایک اہم ہدف ہے کیونکہ تنہا بھارت کی آبادی پوری دنیا کی آبادی کا 17 فی صد ہے۔
غیر معمولی اقتصادی فواید
بھارت اوراسرائیل دونوں کے درمیان سنہ 1992ء سےغیرمعمولی حجم کے دو طرفہ تجارتی اور کاروباری معاہدے شروع ہوئے۔ دو طرفہ تجارتی جم سنہ 1992ء میں 20 کروڑ ڈالرسے بڑھ کر 2017ء تک 2 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ اس میں اسرائیلی برآمدات کا حجم 20 فی صد رہا۔ اسرائیل اپنی ٹیکنالوجی کو بھارتی مارکیٹ تک لانے کے لیے کوشاں رہا ہے۔ اگرچہ دونوں ملکوں کے بعض معاہدوں کی منسوخی کے باوجود صہیونی ریاست نے بھارت کو اپنی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کیے، انسداد دہشت گردی کے لیے جدید آلات کی فراہمی کی آڑ میں بھارت کو تباہ کن ہتھیاروں کی فروخت شروع کی۔
سیاسی مفادات کا حصول
سیاسی مفادات کے حصول کے حوالے سے بھی اسرائیل اور بھارت کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتا رہا ہے۔ امریکا کی غیرمعمولی حمایت اور دباؤ کے باوجود بعض مواقع پر بھارت نے اسرائیل کا ساتھ نہیں دیا۔ عالمی فورمز پر بھارت کا فلسطینیوں کی حمایت میں ووٹ دینا اسرائیل باہمی تشویش کا موجب بنتا رہا ہے۔
اس کے باوجود موجودہ اسرائیلی وزیر دفاع آوی گیڈور لائبرمین نے اعتراف کیا ہے کہ بھارت کی مدد سے اسرائیل نے اپنے غیر آئینی اقدامات کو توسیع دینے کی بھرپور کوشش کی۔
بڑی چھتری
جنوبی ایشیا میں صہیونی ریاست کو ایک علاقائی سرپرست اور ’بڑی چھتری‘ کی تلاش تھی اور بھارت سے زیادہ موزوں صہیونیوں کے لیے اور کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ اسرائیل شروع ہی سے عالمی طاقتوں کی گود میں بیٹھنے کو اپنے وجود اور بقاء کے لیے ضروری خیال کرتا رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت بھی بیساکھیوں پر چل کر عالمی قوت بننے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ کئی سال تک کشیدگی کا شکار رہنے والے تعلقات کے بعد بالآخر اسرائیل برطانیہ اور امریکا کے بعد بھارت کے بہت زیادہ قریب ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ اگرچہ اس باب میں اسرائیل کو مزید کامیابیوں کےحصول کے لیے کئی مشکل دروازوں سے گزرنا ہوگا کیونکہ بھارت کو اسرائیل کی سرپرستی کے لیے کافی پاپڑ بیلنا ہوں گے۔
مذکورہ تمام اہم نکات کو باریکی سے دیکھا جائے تو یہ فلسطینیوں کی سفارتی شکست اور اسرائیل کی سفارتی کامیابیاں شمار کیے جائیں گے۔ بھارت فلسطینیوں کے لیے حمایت کا ایک بڑا میدان بن سکتا تھا۔ ایسا نہ ہونے کی ذمہ داری فلسطینی قیادت کو قبول کرنی چاہیے کیونکہ سفارتی میدان میں اسرائیل بھارت کو لبھانے میں فلسطینیوں پر بازی لے گیا۔ یہ فلسطینیوں کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ یہی نہیں کہ فلسطینی قیادت نے بھارت کے سفارت میدان میں ناکامی حاصل کی بلکہ یورپی سطح پر بھی کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔ ہم بھارت سے فایدہ اٹھا سکتے تھے، اسرائیل کی حیثیت افریقا سے زیادہ نہیں تھی۔
بھارت۔ اسرائیل تعلقات کے فروغ اور اسرائیل کی بھارت میں غیرمعمولی دلچسپی کے ضمن میں درج ذیل مفید تجاویز پیش کی جاسکتی ہیں۔
سفارتی محاذ میں سرگرمی
فلسطینی قیادت کو سفارتی محاذ پر سرگرم ہونا ہوگا۔ اسرائیل سالانہ کروڑوں ڈالر کے فواید سفارتی محاذوں پر کامیابیوں کے نتیجے میں سمیٹ رہا ہے۔ حال ہی میں موجودہ اسرائیلی حکومت نے بیرون ملک رہنے والے مال دار یہودیوں کے ساتھ معاہدے کیے۔ ان معاہدوں میں بیرون ملک یہودیوں کو اسرائیل کے دفاع اورصہیونی ریاست کے غیرآئینی اقدامات کی حمایت کی مہمات پر مامور کیا گیا۔
اسرائیلی بائیکاٹ کی مہم کو موثر بنانا
فلسطینی اتھارٹی کو بھی بیرون ملک مقیم فلسطینیوں، عربوں اور دیگر مسلمان شہریوں کو اسرائیل کے بائیکاٹ کے لیے فعال بنانا ہوگا۔
قضیہ فلسطین کی مرکزیت
فلسطینیوں کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے قضیہ فلسطین کو مرکزیت دینے کی کوششیں موقت کا تقاضا ہے۔ فلسطینیوں کی صفوں میں اتحاد عالمی سطح پر فلسطین کی حمایت کے حصول کے لیے کرین کا درجہ رکھتا ہے۔ جب تک فلسطینی قوم کی صفوں میں اتحاد کو فروغ نہیں دے گی اس وقت تک فلسطینی عالمی سطح پر اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتے۔
جرات مندانہ فیصلے
فلسطینی قوم کے درینہ حقوق اور مطالبات کے لیے جرات مندانہ اقدامات اور فیصلوں کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں جرات مندانہ فیصلوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لینا بھی ہوسکت ہے۔ اگر فلسطینی قیادت صہیونی کو تسلیم کرنےسے انکار کرے گی تو پوری دنیا میں اسرائیل کو غاصب ریاست قرار دینے کا موقف مضبوط ہوگا۔
مزاحمت تیز کرنے کی ضرورت
موجودہ حالات کا تقاضا ہے کہ فلسطین میں عوامی سطح پر صہیونی ریاست کے خلاف مزاحمت میں تیزی لائی جائے۔ صہیونی ریاست نہتے فلسطینیوں کے خلاف وحشیانہ نسل پرستی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ صہیونی ریاست کا مکروہ اور قبیح چہرہ بے نقاب کرنے کے لیے موثر داخلی اور خارجی حکمت عملی کی ضروررت ہے۔
اسرائیل سے مراسم کے قیام کی روک تھام
عرب ممالک اور دیگر مسلمان نے صہیونی ریاست کو تسلی کرنے کا مقابلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس سلسلے کی روک تھام کرنا ہوگی۔ عرب ملکوں پر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہوگا اور جن ملکوں نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کررکھے ہیں انہیں اپنے اقدامات اور فیصلوں پر نظرثانی کرنا ہوگی۔
ہر فلسطینی ملک کا سفیر بن جائے
دنیا بھر میں پھیلے ہر فلسطینی کو اپنے وطن کے لیے سفیر کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ فلسطینی جہاں بھی موجود ہیں۔ فلسطینی قوم صہیونی ریاست کےقابضانہ عزائم کے خلاف سفارتی محاذ کو موثر بنانا ہوگا۔
قصہ مختصر یہ کہ عالمی سطح پر فلسطینیوں کی حمایت میں کمی بہت بڑے نقصان کا موجب بنے گی۔ اسرائیل کو بھارت کے ساتھ مراسم کے قیام اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے طویل سفارتی مہم چلانی پڑی مگر فلسطینی قیادت نے میدان خالی چھوڑ کر بہت بڑا نقصان کیا ہے۔ اب بھی فلسطینی قیادت کے پاس بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات بحال کرنے کا موقع موجود ہے اور موقع پر ضائع کرنے کا کوئی جواز نہیں۔