علیحدہ ہونے کے بعد اس ملک یعنی صومالیہ لینڈ کو ابھی دنیا کے کئی ممالک نے تسلیم نہیں کیا تھا مگر اسرائیلی صہیونی لابی اس ملک میں خاصی دلچسپی لے رہی جو کہ پوری دنیا کے لیے باعث تشویش ہے۔یہ نیا ملک جس کو صومالیہ لینڈ کہا جا تا ہے شمال میں واقع ہے اور اس کا دارالخلافہ ہرجیسا ہے ۔18مئی 1991ء کو اس کی صومالیہ سے علیحدگی کا اعلان کیا گیا اور یہ ملک صومالیہ لینڈ صومالیہ کے دگرگوں حالات کے تحت معر ض وجود میں آیا جس کا کل رقبہ 137600مربع کلومیٹر ہے۔
صومالیہ لینڈ کی ریاست اس میں وقت دو مختلف قسم کی سیاسی جماعتیں قائم ہیں جو کہ وقتاً فوقتاً وزارت حکومت کے عہدوں پر انتخابات کے بعد براجمان ہوئیں۔ ان سیاسی پارٹیوں میں مشہور پارٹیاں یہ ہیں:
UDUB(1)یعنی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی جس کا سربراہ طاہر ریالی کا ھن ہے۔
Kulmiye(2)یعنی متحدہ الائنس جس کا سربراہ احمد محمود سلانیہ ہے۔
UDC(3)یعنی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی جس کا سربراہ فیصل علی دراپی ہے۔ جو کہ پورے صومالیہ لینڈ کا مشہور آدمی ہے اور اس کی پارٹی صومالیہ کے اکثر لوگوں پر مشتمل ہے اور ایک بڑی جماعت مانی جاتی ہے۔
صومالیہ لینڈ کی تقسیم اس طرح کی گئی ہے کہ اس کو مختلف علاقوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں
(1)توکسطیر
(2)سول (یہ علاقہ صومالیہ لینڈ اور اس کے ساتھ ملے ہوئے ملک پونٹالینڈ کے درمیان متنازعہ علاقہ ہے اور اس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان متعدد بار کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور کئی دفع آپس کی لڑائی اور جھڑپوں میں دونوں جانب سے کافی تعداد میں فوجی قتل اور زخمی ہو چکے ہیں مگر کافی تگ و دو کے بعد اب یہ پورا علاقہ صومالیہ لینڈ کے زیر تسلط ہے )
(4)سناج
(5) اوول
(6)ساحل
اور اس کے علاوہ اور بھی علاقے ہیں جو کہ صومالیہ لینڈ میں شامل ہیں اور حکومتی امور میں مکمل معاونت کرتے ہیں ۔صومالیہ لینڈ میں کافی بڑی بڑی یونیورسٹیاں بھی شامل ہیںجو کہ ملک میں تعلیمی فرائض انجام دے رہی ہیں جن میں یونیورسٹی برعو، جامعہ ہرجیسا اور جامعہ عمود کافی مشہور و معروف ہیں اور اسکے علاوہ کئی دوسری یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں جو ملک میں تعلیمی فرائض انجام دے رہیں ہیںاور اس کے علاوہ صومالیہ لینڈ میں دو تاریخی اہمیت کے حامل علاقے بھی شامل ہیںجن میں ذبلع شہر کو صومالیہ کی تاریخ میں کافی اہمیت حاصل ہے
صومالیہ لینڈ میں صہیونیوں کی دلچسپی کافی تشویش کا باعث ہوتی جا رہی ہے کیونکہ انہوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ان کا ملک اسرائیل صومالیہ لینڈ کو علیحدہ ملک تسلیم کرنے کیلئے تیار ہے اور ایک علیحدہ ملک ہونے کی حیثت سے انکو عالمی مراعات دینے اور ان کی پوری طرح مدد کرنے کو تیار ہے۔
اسرائیل میں عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اخبار ہارٹز کی خبر کے مطابق اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک انٹرویو کے دوران پوری صراحت اور واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اسرائیل صومالیہ لینڈ کو علیحدہ ملک تسلیم کرنے کو تیار ہے اور علیحدہ ملک ہونے کی حیثیت سے اس کو عالمی مراعات دینے کا خواہاں ہے اور اس کی پوری مدد کرنے کو تیار ہے ۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسرائیل نے 1960کو صومالیہ کو تسلیم کیا تھا جس وقت صومالیہ نے حکومت برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی اور اس وقت صومالیہ کے دونوں علاقے شمالی اور جنوب ایک ساتھ تھے جن کو ملا کر جمہوریہ صومالیہ کی بنیاد رکھی گئی تھی اور موغادیشو شہر کو اس کا دارالخلافہ بنایا گیا تھا۔
انہوں نے اس بات پر زور دے کر کہا کہ ہم تو صومالیہ لینڈ کو تسلیم کرنے کیلیے تیار ہیں مگر ابھی تک صومالیہ لینڈ نے ہم سے کسی قسم کا اس بارے میں کوئی سفارتی رابطہ نہیں کیا ہے۔
اسرائیلی ترجمان ہالمرنے کہا کہ صہیونی ملک اسرائیل کے قرن افریقا میں موجود دوسرے ممالک کے ساتھ کافی اچھے تعلقات ہیں اور اسرائیل وقتاً فوقتاًان کی مدد کرتا رہتا ہے اور خاص کر تنزانیا ، یوگینڈا اور جمہوریہ جیوتی کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کافی اچھے جا رہے ہیں۔
دوسرا افغانستان
صومالیہ کے بدترین حالات ، خانہ جنگی اور قانون کی حکمرانی نہ ہونے کے بارے میں اسرائیل کی وزارت خارجہ کے ترجمان ہالمر نے کہا کہ صومالیہ دوسرا افغانستان بنتا جا رہا ہے جو کہ بحیرہ احمر پر واقع ہے اور اسرائیل چاہتا ہے کہ بحیرہ احمر پر ایک ایسا مسلمان ملک ہو جو کہ ذرا پر امن ہو اور قرن افریقا میں اسرائیل کو اچھا دوست ہو گا لیکن صومالیہ نے جب سے برطانیہ سے آزادی حاصل کی ہے یہاں مسلمانوں کی حکومت رہی ہے مگر یہ حکومتیں بہت کمزور ہیں جو حالات اور ملک کے کنٹرول کرنے کے لیے تمام ادوار میں ناکام رہیں ہیں اب جبکہ صومالیہ لینڈ علیحدہ ملک بن گیا ہے اور چھوٹا ہونے کے ناطے سے یہاں امن قائم ہونا زیادہ آسان ہے تو اسرائیل چاہتا ہے کہ وہاں امن قائم کرنے اور مسلم حکومت کو مستحکم کرنے میں بھرپور مدد کرے تاکہ دونوں ملکر بحیرہ احمر سے فائدہ اٹھائیں اور اس کو آپس میں تقسیم کر لیں تاکہ دونوں ملکوں کو بحیرہ احمر کو استعمال کرنے کی پوری آزادی ہو اور ایک دوسرے کی چیقلش سے محفوظ رہیں۔
اسرائیل کے عبرانی زبان اخباروں کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل چاہتا ہے کہ صومالیہ لینڈ میں واقع بندرگاہوں پر اپنا بحری فوجی بیس قائم کرے اور ایک بڑی بحری قوت غوطہ خوری اور اس سے متعلقہ شعبہ کا مکمل سسٹم وہاں بنائے اور خاص طور پر صومالیہ کی بندرگاہ بربرہ میں آبدوزوں کیلئے اور بحری فوجی اڈے کیلئے علیحدہ گودی بنانا چاہتا ہے۔جہاں پر ایک وسیع ایک بحری جنگی جہازوں کا بیڑا ہو جو سمندر میں موجود ہر طرح کی مشکلات سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہو ااور ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک ہماری ضرورت پوری کرے ہم اس کی ضرورت پوری کریں گے۔ اسرائیل اس کے ساتھ ساتھ اپنی کوشش کر رہا ہے کہ صومالیہ لینڈسے ملحقہ ملک پونٹا لیند سے اپنے تعلقات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دے،کیونکہ دونوں ملکوں میں ذاتی حکومتیں ہیں جو کہ غیر مستحکم ہیں اور خاص طور پر صومالیہ لینڈ کو اہمیت دینے کی وجہ یہی ہے کہ صومالیہ لینڈ بحرالاحمر کے اسٹریٹیجک مقام پر واقع ہے
بحیرہ احمر
صومالیہ لینڈ بحیرہ احمرپر واقع ہے اور اس کے ساحلوں کی لمبائی 3334کلومیٹر ہے اور اس کا پھیلاؤاور تعلق راست باب مندب اور خیلج عدن تک ہے جو کہ ان تمام جہازوں کی گزرگاہ ہے جو کہ بحیرہ احمر میں تجارتی سامان لے کر سوئز نہر کی طرف جاتے ہیں ،صہیونی حکومتوں کی پوری کوشش ہے صومالیہ کی بحری قذاقوں کی جگہ خود سنبھال لے اورصومالیہ لینڈ کی مدد کے نام پر اور صومالیہ میں بحری قزاقی اور دہشت گردی و ختم کرنے کے نام پر اور صومالیہ قزاقی اور دہشت گردی کو ختم کرنے کے بہانے وہاں پر اپنے قدم مضبوط کرے۔
اسرائیلی وزیرخارجہ ایویگڈو لیبرمان نے اس مقصد کے حصول کیلئے 2009ء میں قرن افریقا میں واقع بعض ممالک کے دورے کئے اور ایتھوپیا کا دارالحکومت ادیس ابابا اس کے دورے کا پہلا مقام تھا اس کے بعد یوگینڈاکے دورے کے بعد دیگر افریقی ممالک کا دورہ کیا اور اس درمیان وہاں پر موجود صومالیہ لینڈ کے بعض مسلم حکومتی عہدیداروں سے ملاقاتیں کیں۔ دورے کا مقصد یہی تھا کہ افریقا کے علاقے میں موجود قدرتی ثراوت اور قیمتی ذخائر جیسے تیل ، قیمتی پتھر ،قیمتی دھاتوں اور زرخیز زمین سے فائدہ اٹھایا جائے اور بحیرہ احمر میں قدم جمانے کیلئے صحیح ملک کا اندازہ لگایا جائے ۔
اکثر عالمی تجزیہ نگاروں کا اس بارے میں یہ خیال ہے کہ اسرائیل کو بحیرہ احمر کیساتھ لگاؤ اس لیے ہے کہ وہ ایسا راستہ ہے جو نہر سوئز کو بحیرہ عرب اور بحیرہ ہند سے ملاتا ہے اور یہ راستہ خصوصی طورپر ان جہازوں کی گزر گاہ ہے جو کہ ایران کا اسلحہ لے کر بحری راستہ سے لبنان جاتے ہیں اور یہ اسلحہ اور غذائی اجناس حزب اللہ تک پہنچاتے ہیں جن کے ذریعے فلسطینیوں کی بھی کچھ مدد ہوتی ہے۔صومالیہ لینڈ کی اس وقت محل وقوع کے لحاظ سے کافی زیادہ اہمیت ہے ، کیونکہ یہ بحیرہ احمر کے اوپر واقع ہے جہاں سے گزرنے والے جہاز کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے ۔
دوسری جانب صومالیہ لینڈ کی ڈپلو میٹک اہمیت بھی اپنی جگہ ہے کیونکہ اس کے تعلقات ایتھوپیا سے کافی اچھے ہیں اور ایتھوپیا کے تعلقات امریکا اور اسرائیل سے کافی اچھے ہیں اور ایتھوپیاسے صومالیہ لینڈ کی مشہور اور اہم بندرگا ہ بربرہ کافی قریب ہے جس کی وجہ سے اس بندرگاہ کو آسانی سے استعمال کیا جا سکتا ہے اور اس پر اپنی مرضی سے کنٹرول سنبھالا جا سکتا ہے۔تیسرا یہ کہ صومالیہ کے سفارتی تعلقات ابھی زیادہ ممالک سے نہیں ہے اسی وجہ سے صومالیہ لینڈ کے صدر احمدسلانیو مغربی ممالک کے دورے کرنے کے خواہا ں ہیں جہاں سے ان کو کوئی مدد مل سکے جسے اسرائیل اپنے مقاصد ہموار کرنے کیلئے استعمال کر سکے۔حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ کسی طرح بحیرہ احمر پر واقع صومالیہ لینڈ میں اپنے قدم جمانے میں کسی طرح کامیاب ہو جائے تاکہ اس کی بحیرہ احمرپر پوری طرح اس کی اجارہ داری قائم ہو جائے اور سمندر کے ذریعہ پوری دنیا میں ہونے والی بحری تجارت پر اس کی مکمل دسترس ہو جائے اور اس کے ساتھ ساتھ باب مندب اور خلیج عدن پر ہونے والی تجارتی سرگرمیاں اسرائیل کے کنٹرول میں آ جائیں۔
اسرائیلی تجارت بڑھ جائے اور اس کے ساتھ ساتھ یورپ و امریکا اور دوسرے ممالک سے آنے والے تجارتی بحری جہازوں کو جو کہ مسلم ممالک کی طرف سے سازوسامان اور اسلحہ وغیرہ لے کر جاتے ہیں وہ پر امن طریقہ سے جائیں۔ہر جہاز پر نطر رکھنااس کیلیے آسان ہواور اسی طرح ایران کے جہاز جو دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ان کو اپنی مرضی کے ساتھ راہ داری دی جائے اوراسرائیل چاہتا ہے کہ مسلم ممالک اور خاص طور پر وہ ممالک جہاں اسرائیل نے اپنی جارحیت شروع کر رکھی ہے اور ان پر اپنا ناجائز قبضہ جما رکھا ہے جیسے فلسطین و لبنان وغیر ہ ان ملکوں کو جانیو الے امدادی جہازوںکو خیلج عدن یا باب مندب پر ہی روک سکے اور آگے بڑھنے نہ دے۔
اسرائیل کے بلیک واٹر اہلکار کافی عرصے سے صومالیہ قزاقوں کے ساتھ ملک کر جہازوں کو اغوا کرتے اور ان کے بدلے تاوان وصول کرتے ہیں
اب اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ صومالیہ لینڈ کیساتھ مل کرابحیرہ احمر اور اس کے آس پاس کے علاقے پراپنی اجارہ داری قائم کرے اور اپنے جنگی بیڑے اور فورس کو مستحکم کر کے اپنے ناپاک عزائم پورے کر سکے۔اس سے سعودی عرب ،یمن،شام ، عراق،اور پاکستان کے علاوہ ترکی اور وہ ممالک جن کا کاروبار بحیرہ احمر کے ذریعہ ہوتا ہے ان پر اسرائیل کی دسترس ہو جائے گی وہ سب اسرائیل کی جارحیت سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے اور گریٹر اسرائیل کے پلان کا منصوبہ آگے بڑھنا شروع ہو جائے گا۔
اسرائیل کے اس خطرناک منصوبے کو بڑے اہم انداز سے مسلم ممالک کو سمجھنا چاہیے اور مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ صومالیہ لینڈ کی مدد کریں اور وہاں امن قائم کرنے کی اپنی بھرپور کوشش کریں اور اپنے خصوصی تعاون کے ساتھ صومالیہ لینڈ کی مسلم حکومت کو مضبوط کریں۔اس کی بحریہ کو طاقتور بنائیں تاکہ آنے والے کل میں ہمیں کسی بھی نئی پریشانی اور اسرائیل کے ہاتھوں مزید ذلت و رسوائی کا سامنا نہ کرنا پڑے