جمعه 15/نوامبر/2024

صدر اوباما کا دورہ مسلم دنیا اور مضمرات

بدھ 3-جون-2009

قارئین (صدر امریکہ) اوباما مصر جا رہے ہیں اور مصر جاتے ہوئے وہ سعودی عرب میں بھی رکیں گے اورخادم حرمین شریفین سے ملاقات بھی کریں گے ۔ ۔ ۔ واضح رہے کہ صدر امریکہ نے اپنے دورہ ترکی (اپریل میں ہونے والے دورے)کے دوران یہ پیغام دیا تھا کہ وہ مسلمانان عالم کی طرف خیر سگالی کا ہاتھ بڑھانے کیلئے تیار ہیں ۔لیکن اب سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اوباما نے مسلمانوں کو خیر سگالی کا پیغام دینے کے لیے مصر کا انتخاب کیوں کیا ہے ؟

قارئین!آپ اس پر وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ ضرور پڑھ لیں ۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
صدراوباما اس ہفتے مصر میں مسلم دنیا سے خطاب کرنے والے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کا اصرار ہے کہ صدر اوباما کا خطاب دنیا بھر میں مسلمانوں کے لئے کچھ اہم پیغامات اور امریکی پالیسیوں میں تبدیلی کے اشارے لئے ہوئے ہوگا۔ دنیا کے کئی ملکوں کی طرح امریکہ میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ صدر اوباما نے مسلم دنیا سے مخاطب ہونے کے لئے مصر کا انتخاب کیوں کیا ؟ اور خود مصر میں یہ بحث جاری ہے کہ صدر اوباما کو اپنے خطاب میں کیا کہنا چاہئے؟قاہرہ ، ایک کروڑ ساٹھ لاکھ آبادی کا شہر ،اس مشہور دریا کے کنارے آباد ہے جسے مصری تاریخ کی شہ رگ قرار دیا جاتا ہے ، فراعنہ اور تہذیبوں کی سرزمین۔ اورکچھ کے نزدیک آج کی عرب دنیا کا قلب۔ صدر اوباما چار جون کو یہاں مسلم دنیا سے مخاطب ہونگے اس پر قاہرہ والوں کو کوئی اعتراض نہیں۔ایک خاتون کا کہنا ہے کہ جو بھی کوئی مصر آتا ہے ہم اس کا استقبال کرتے ہیں۔ ہمیں اوباما کے آنے کی بہت خوشی ہے۔

ایک اور مصری نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ مصر کی حیثیت عرب دنیا میں ماں جیسی ہے ،الازہر بھی قاہرہ میں ہے ،ہم اوباما کی آمد پر خوش ہیں۔ یقینا انہیں یہ اپنے گھر جیسا لگے گا۔قاہرہ کی ا مریکن یونیورسٹی کے ماہر سیاسی سماجیات سعید صادق کہتے ہیں کہ صدر اوباما کے لئے مصر ایک آسان انتخاب تھا۔ ان کا کہناتھا کہ مصر ہمیشہ امریکہ کا قریبی اتحادی رہا ہے۔ اس کی پالیسیاں اعتدال پسندانہ ہیں ،اس نے اسرائیل سے صلح میں پہل کی ،اور اب اسرائیل فلسطین تنازعے کے حل میں اس کا کردار بہت اہم ہے۔مگرمصر کے انتخاب کی کوئی سٹریٹیجک وجہ بھی تو ہوگی۔ سعید صادق کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ عرب مسلم دنیا کا ہے ،ایشائی مسلم دنیا کا نہیں۔

اپریل میں اپنے دورہ ترکی کے دوران صدر اوباما نے مسلمانوں کی طرف خیر سگالی کا ہاتھ بڑھانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔ سعید صادق کہتے ہیں کہ مصری تبدیلی کی باتوں سے خوش ہیں مگر کچھ عملا بھی تو ہو۔ان کا کہنا ہے کہ سب سے پہلا مسئلہ فلسطین کا ہے۔ امریکی حکومتیں اب تک اسرائیل کی توسیع پسندی کی غیر مشروط سرپرستی کرتی رہی ہیں۔ تو اگر اوباما واقعتا کسی ٹائم ٹیبل یا لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہیں تو اسلامی دنیا میں اسے ضرور پسند کیا جائے گا۔ اس سے کئی انقلابی اور انتہا پسند سوچ کے اسلامی گروپوں کی حوصلہ شکنی ہوگی مگر محمد مہدی عاکف کو اس کا یقین نہیں۔

وہ مصر کے سب سے بڑے اپوزیشن گروپ اخوان المسلمین کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اوباما اور مصر آنے والے ہر لیڈر کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ صدر اوباما کو پچھلے امریکی صدور سے کافی کچھ ورثے میں ملا ہے۔ اس ورثے میں عراق ،افغانستان اور فلسطین میں مسلمانوں کی ہلاکتیں ،،ان کا بے گھر ہونا اور اسرائیل کے لئے واشنگٹن کی حمایت شامل ہیں مگریہ کہتے ہیں کہ انہیں صدر اوباما کا وڑن جاننے میں زیادہ دلچسپی ہے بہ نسبت ان کی طرف سے دوستی کے عملی مظاہرے کے۔ وہ کہتے ہیں کہ عرب اور مسلم دنیا توقع کرتی ہے کہ صدر اوباما کے نظریات انسانیت کے بنیادی اصولوں سے ہم آہنگ ہوں ،،مثلا یہ کہ وہ بے انصافی ،جبر ،آمریت ،بد عنوانی اور دنیا کے کسی حصے میں ظلم برداشت نہیں کریں۔ مگر سعید صادق کا کہنا ہے کہ افغان جنگ ہو ، اسرائیل فلسطین تنازعہ۔ یا پھر فوجی حکومتوں کے لئے واشنگٹن کی غیر متزلزل حمایت۔ مسلمانوں کو صرف اچھی اچھی باتوں میں دلچسپی نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کوئی ٹھوس پروگرام ،کوئی واضح ٹائم ٹیبل ہونا چاہئے۔ عالم اسلام کو اس سے بڑا مضبوط پیغام ملے گا۔ امریکی ماہرین مانتے ہیں کہ اسلامی دنیا خصوصا مشرق وسطی میں امریکہ پر بھروسہ کم ہی کیا جاتا ہے۔ اس لئے صدر اوباما قاہرہ میں جو کچھ کہیں گے اسے غور سے سنا ضرور جائے گا مگر مسلم دنیا کی نظریں ان اقدامات پرزیادہ رہیں گی جو وہ قاہرہ سے واپس آکراٹھائیں گے۔

دنیا کے مسلمان، صدر اوباما کی اْس تقریر کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں جو وہ عنقریب مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں کر نے والے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ صدر اوباما اِس تقریر میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کے لیئے ایک نئی راہ کا تعین کریں گے۔ امریکہ میں رہنے والے عرب اور مسلمان یہ جاننے کے منتظر ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیئے صدر اوباما کا منصوبہ کیا ہے۔ امریکی ریاست مشی گن کے جنوب مشرقی حصے میں تین لاکھ عرب امریکی آباد ہیں۔ ڈیٹرائٹ کی نواحی بستی، Dearborn کی ایک تہائی آبادی عرب امریکیوں پر مشتمل ہے اور ان میں سے بہت لوگ مسلمان ہیں۔Dearborn کے عرب امریکی نیشنل میوزم کی ایک کارکن Fay Saad کہتی ہیں کہ ہم اس بستی کو Beirut Littleکہتے ہیں لیکن یہاں عراقی، فلسطینی اور یمنی غرض بہت سے ملکوں کے لوگ آباد ہیں۔ جب کوئی مشکل وقت آ پڑتا ہے تو ہم سب اکٹھے ہو جاتے ہیں، اور اچھے وقت میں بھی ہم سب مِل بیٹھتے ہیں۔ Fay Saad کے لیئے، 2006 بڑا مشکل وقت تھا۔ ایک اسرائیلی بم سے بیروت میں ان کا خاندانی گھر تباہ ہو گیا، اور ان کی دادی اور خالہ شہید ہو گئیں۔
 
وہ کہتی ہیں ’’میری دادی امریکی بموں سےشہید ہوئیں۔ وہ بم امریکہ میں تیار کیئے گئے تھے۔ اگر امریکہ ہمارے بم، اور ہمارا گولہ بارود عرب ملکوں کو تباہ کرنے کے لیئے اسرائیل کو دیتا ہے تو یہ سرا سر ناانصافی ہے۔‘‘ Anan Ameriِاس میوزیم کی ڈائریکٹر ہیں۔ وہ فلسطینی امریکی ہیں۔ انہیں امید ہے کہ صدر اوباما کی تقریر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مستقل امن کے قیام کی راہ میں پہلا قدم ثابت ہوگی۔ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے لیئے فلسطین کا لفظ استعمال کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’یہ ایسا مسئلہ ہے جو ایک طویل عرصے سے چلا آرہا ہے۔ اسے راتوں رات حل نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کم از کم اس ارادے کا اظہار تو کیا جارہا ہے اور ہمیں یہ تاثر مِل رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کا مسئلہ اہم ہے۔ اسے منصفانہ انداز میں حل کیا جانا چاہئے اور فلسطینیوں کے مسائل کے حل میں ان کے ساتھ انصاف کیا جانا چاہیئے۔‘‘Dearborn میں عرب امریکی کمیونٹی اپنا اخبار بھی شائع کرتی ہے۔

بہت سے حالیہ مضامین کا موضوع اوباما کی وہ تقریر ہے جو وہ عنقریب کرنے والے ہیں۔ Siblani Osama اس اخبار کے پبلشر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امن کے اقدام کی ابتدا کرنے کے لیئے، صدر اوباما کو یہاں امریکہ میں کچھ لوگوں سے مدد لینی چاہئیں جو اس کام کے لئے انتہائی موزوں ہیں۔ ان میں سے ایک تو صدر کارٹر ہیں، اور دوسرے عرب امریکی ہیں۔ان میں سے کچھ عرب امریکی کیلی فورنیا میں رہتے ہیں۔ خالد سلیمان لاس اینجلس شہر کی حکومت میں ملازم ہیں۔ انھوں نے صدر اوباما کی تقریر سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’مجھے امید ہے کہ وہ قاہرہ میں امید کا پیغام دیں گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ امریکہ مسلمانوں کے ساتھ تعلقات میں واقعی مخلص ہے۔ وہ گذشتہ آٹھ برسوں کا تاثر تبدیل کر دیں گے اور ظاہر ہے کہ وہ جو کچھ کہیں اس پر عمل بھی ہونا چاہئے۔‘‘ امریکہ کے مشرقی ساحل پر رہنے والی Malika Rushdan کہتی ہیں کہ محض ایک تقریر سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ صدر اوباما مسلمانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنا سکتے ہیں یا نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ا ن کا کام بہت مشکل ہے کیوں کہ ان پر بہت بڑی ذمے داری ہے اور انہیں بہت لمبا سفر طے کرنا ہے۔

جہاں تک ساری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا سوال ہے، تو ابھی اس سلسلے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ یونیورسٹی آف مشی گن کے پروفیسر اور مصنف ، Cole Juanکہتے ہیں کہ عربوں اور اسرائیل کے درمیان امن کی کوششوں میں کامیابی اور مسلمانوں کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے امکانات ، تقریر کے چند مہینوں بعد واضح ہو جائیں گے ’’جنوری میں فلسطینیوں کے نئے انتخابات ہوں گے۔ اگر یہ انتخابات صحیح طریقے سے ہو جاتے ہیں تو ایک ایسی حکومت بن سکتی ہے جس کے ساتھ مذاکرات کیئے جا سکتے ہیں۔ اوباما کے سامنے اس قسم کے چیلنج ہیںلیکن یہ ایسے چیلنج نہیں ہیں جن کا مقابلہ نہ کیا جا سکے۔‘‘ امریکہ میں آباد بہت سے عرب اور مسلمان شہری، مسٹر اوباما کی ذاتی زندگی کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ ایک افریقی مسلمان کے بیٹے ہیں اور انھوں نے کچھ وقت دنیا میں مسلمان آبادی کے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا میں گذارا ہے لیکن بہت سے لوگ یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیا وہ اپنے ذاتی پس منظر اور بین الاقوامی خیر سگالی کے سہارے، خارجہ پالیسی کے ان مشکل چیلنجوں سے نمٹ سکتے ہیں جن کا سامنا انہیں مشرقِ وسطیٰ میں کرنا پڑے گا۔

لینک کوتاه:

کپی شد