سابق اسرائیلی وزیراعظم اور صدر شمعون پیریز کو دنیا کے سامنے امن کے ایک دانشمند ، شاندار اور پکے داعی اور ایک نا ختم ہونے والے بے معنی تنازعہ میں ایک سمجھدار آواز کے طور پر پیش کیا گیا۔ اب 93برس کی عمر میں ان کی وفات کے بعد بین الاقوامی میڈیا ، اسرائیلی کی اس نوبل امن انعام یافتہ شخصیت کو خراج تحسین پیش کر رہا ہے اور انہیں اسرائیل کے ”زیر ک بانیوں ”میں سے ایک کہا جا رہا ہے ۔ تاہم ان کی خصوصیات حقائق کی بجائے جذبات پر مبنی ہیں ، اس شخص کی اصل حیثیت اور وارثت پر بیشتر فلسطینی ، لبنانی اور مشرقی وسطیٰ میں امن و انصاف کے داعی یقینا پس و پیش کا شکار ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ شمعون پیریز کبھی بھی امن کیلیے کوشان نہیں رہے ، انہوں نے کبھی بھی کسی منصفانہ سیاسی سمجھوتوں کی کوشش نہیں کی جس سے ان کے اپنے عوام کے مستقبل کے تحفظ کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے حقوق اور وقار کی یقین دہانی حاصل ہوتی ہے ۔ حقیقت میں وہ ایک Maximalistتھے جو اپنے مقاصد کے حصول کے لیے طریق کار اور اس کی قیمت سے قطع نظر اپنے آئیڈیاز کو بیدردی سے آگے بڑھاتے رہے ۔ وہ ایسے لیڈر بھی تھے جنہیں سیاست کے شعبے میں کوئی خاص مہارت حاصل ہو ۔ اس کی بجائے وہ مخصوص قسم کے اسرائیلی سیاستدان تھے جو ضرورت اور موقع کی مناسبت سے اپنا کردار بدل کر خود کو نئی شکل میں ڈھال لیتے تھے۔
سات دہائیوں میں شمعون پیریز نے دو مرتبہ وزیراعظم اور ایک مرتبہ صدر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دی ، اگرچہ وہ کبھی بھی قومی انتخابات پوری طرح جیت نہ سکے تھے ، وہ بارہ مرتبہ کابینہ کے رکن بنے اور ان کے پاس وزیردفاع ، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کے عہدے رہے ہیں ۔ انہیں وطن میں ”جنگجو”اور عالمی فورمز پر ”امن کی فاختہ”کہا جاتا رہا ۔ ان کے دانش مند اور مہربان ہونے کے اس غلط تاثر کو مغربی میڈیا بڑی آسانی سے تسلیم کرتا رہا۔ لیکن بہتر لوگوں کے نزدیک شمعون پیریز ایک جھوٹے شخص ہی تھے۔ جیسا کہ ایہودباراک ، زیبی لیونی ، ایہوداولمرٹ اور دیگر کے مطابق شمعون پیریز کا ”امن کیلئے کوشاں رہنے”کا تاثر صرف نام کی حد تک ہی تھا اور یہ صرف ان لوگوں کے نزدیک سچ تھا جن کے خوابوں کو انہوں نے تکمیل تک پہنچایا۔اسرائیل جس پر اکثر و بیشتر فوجی جرنیلوں ہی کی حکمرانی رہی ہے ، اس پر حکومت کرنے کے لیے اس اندیشے کے تحت کہ انہیں زیادہ ”نرم خو”نا سمجھاجائے ، شمعون پیریز نے فلسطینی اور لبنانی کو شدید ظلم و ستم کا نشانہ بنایا ۔ ان کا ماضی سفاک جنگی جرائم سے بھرا پڑا ہے جن پر انہیں زندگی بھر کوئی سزا نہ ملی ۔
اگرچہ انہیں 1996ء میں لبنان کے قانا نامی گاؤں میں اقوام متحدہ کے شیلٹر پر بمباری کے احکامات دینے پر بھی یاد کیا جاتا ہے ، جس میں سینکڑوں معصوم اور بے گناہ لوگ ہلاک و زخمی ہوئے تھے ۔ ان کے نام سے منسوب جنگی جرائم کی فہرست ان کے کیرئر جتنی ہی طویل ہے ۔ وہ اپنی موت تک اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت کی غزہ میں جنگوں اور اس غربت زدہ برباد شدہ فلسطینی علاقے کے ہمیشہ جاری رہنے والے محاصرے کے حامی رہے ۔ حتی ٰ کہ صلح کار کے طور پر بھی وہ بری طرح ناکام رہے ۔ انہوں نے سیاسی معاہدے کے طور پر اوسلو معاہدہ کیے جو اسرائیل قبضے کو مضبوط کرتے اور فلسطین کے پاس جو تھوڑا بہت علاقہ بچ گیا تھا ، اسے نسل پرستی کے شکار جنوبی افریقہ کے الگ تھلک Bantustansکی طرح بنا دیتا۔ پھر بھی انہوں نے اپنے کیے کی ذمہ داری لی نا ہی اس سب کے نتیجے میں فلسطینیوں کو درپیش مشکلات کا کسی ندامت یا پچھتاوے کا اظہار کبھی کیا۔
ان کے طویل کیرئر کا آغاز قبضہ شدہ فلسطینی سر زمین پر اسرائیل کے قیام سے پہلے زیر زمین صہیونی ملیشیا میں شمولیت سے ہوا تھا ۔ ان کے جنگجو گروپ Haganahکو Plan Daletکی ذمہ داری سونپی گئی تھی جس کا مقصد فلسطینی آبادی کا اس کے تاریخی وطن سے نسلی صفایا کرنا تھا ۔ یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر یارون ازراہی کے مطابق ،”ڈیوڈ بن گوریان”شاگردوں”میں سے ایک ہونے کے باعث اسرائیل کے پہلے وزیراعظم شمعون پیریز نے اپنا طویل سیاسی کیریئر عوامی سپاٹ لائٹ میں گزارا، اگرچہ ان کے عظیم ترین کامیابیاں درپردہ رہیں ، ۔” ان کی ایک بڑی کامیابی تھی ، ایٹم بم۔ اگرچہ مشرق وسطیٰ کے مختلف ممالک جیسا کہ ایران اور عراق کو اکثر ان ایٹمی ہتھیاروں کی ملکیت پر نتائج بھگتنا پڑتے جو ان کے پاس تھے ہی نہیں ، مگر علاقے میں بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں کے بانی شمعون پیریز تھے۔
امریکا اور عرب ریاستوں دونوں کی نظروں میں ایک ریاست کا رتبہ حاصل کرنے کیلئے کہ جس پر حملہ نہ کیا جا سکے ، شمعون پیریز اپنے گرو کی طرح ایٹم بم کو کلید سمجھتے تھے ۔ امریکی احتجاج کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے شمعون پیریز نے برطانیہ ، فرانس ، ناروے اور دیگر کچھ ممالک کی درپردہ مدد سے اپنے ان ایٹمی عزائم میں تکمیل حاصل کر لی ۔ تاہم اپنے پورے کیرئر میں شمعون پیریز ”امن”کی بات کرتے رہے ۔ ان کو پرجوش انداز خطابت اور بظاہر، مخلص چہرہ ان کے حریفوں کو بھی سوٹ کرتا تھا ۔مثال کے طور پر امن پسند شمعون پیریز بامقابلہ جنگ پسند ایریل شیرون ، اسرائیل کو دنیا کے سامنے ایک صحتمند اور متوازن جمہوری اداروں والے ملک کے طور پر پیش کرتا ۔ اگرچہ اصل مذاق یہ ہے کہ شمعون پیریز ان کے حریفوں جن میں سابق اسرائیلی وز یراعظم یتزک شمیر بھی شامل ہیں، ان کے درمیان اختلافات با مشکل ہی دکھائی دیتا ہے اور جو اختلاف ہے بھی وہ اسرائیل کے اپنی سیاسی اور تاریخی سیاق و سباق سے متعلق ہے ۔مثال کے طورپر ، شمعون پیریز ہگانہ میں تھے تو یتزک شمیر جنہوں نے 1983-84ء اور پھر 1986-92ء میں حکومت کی ، دہشت گرد صہیونی پارلیمانی گروپ Lehiکے رکن تھے جسے Sterngangکے طور پر بھی جانا جاتا ہے ۔ اپنے جنگجو اور سیاسی کیرئر میں دونوں نے فلسطینیوں کے نسلی قتل عام ، جنگوؤں ، غیر قانونی یہودی بستیوں کو پھیلانے اور 1967ء کے بعد سے فلسطینی سرزمین پر فوجی قبضے پر توجہ مرکوز کیے رکھی ۔
تاہم ”عقلمند”شمعون پیریز اپنے الفاظ کا چناؤ احتیاط سے کرتے اور بلا شبہ ایک ہوشیار ڈپلومیٹ تھے جبکہ شمیر صاف گو اور ناموافق کردار رکھتے تھے ۔ جہاں تک سیاسی اختلافات کی بات ہے ، ان کی پالیسیوں کے نتائج عملی طور پر ایک ہی تھے ۔ اس کی ایک مثال 1984ء میں اسرائیل کی اتحادی حکومت ہے جس میں دائیں بازو کی لیکوڈ پارٹی کے شمیر اور لیبر پارٹی کے شمعون پیریز دونوں شامل تھے ، جو اس وقت ”امن کی فاختہ”کے طور پر اپنے دوبارہ جنم کے ابتدائی مرحلے میں تھے ۔ یہ دونوں افراد اسرائیل کے قابض علاقوں میں فلسطینیوں کے نقطہ نظر سے اسرائیلی قیادت کا بدترین ممکنہ Combinationتھے ۔ جب شمیر اور پیریز بین الاقوامی کمیونٹی کے سامنے بالترتیب ہارڈ لائز اور امن کے کوشاں شخصیت کا کردار نبھا رہے تھے ، یہ دونوں ان کے حکومت تشدد ، فلسطینی سرزمین پر غیر قانونی قبضے یہودی بستیوں کے توسیع کی پالیسی اپنائے ہوئے تھے۔ اس دوران فلسطینی سرزمین پر قبضے اور ان کے نسلی قتل عام کی پالیسی کے نتیجے میں 1984ء سے 1988ء کے درمیانی عرصے میں قابض سرزمین پر یہودی آبادکاروں کی تعداد میں واضح اضافہ ہوا ۔ اکتوبر 1994ء میں شمعون پیریز کو یاسر عرفات اور اسحاق رابن کے ہمراہ امن کا نوبل انعام دیا گیا ۔ رابن کو ایک یہودی انتہا پسند نے قتل کیا جبکہ یاسر عرفات کا مشتبہ طور پر زہر دیا گیا ، البتہ شمعون پیریز نے 93برس کی عمر پائی اور فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی جنگوؤں ، محاصر ے اور فوجی قبضے کو جواز فراہم کرتے ہوئے اسرائیلی کے مفادات کی وکالت کرتے رہے ۔اسرائیلی مغربی مین سٹریم میڈیا تو کسی ہیرو کے طور پر شمعون پیریز کی تعریف کر سکتا ہے مگر فلسطینی ، لبنانی اور دیگر بہت سے لوگوں کے نزدیک وہ ایک جنگی مجرم ہیں جو اپنی لاتعداد بداعمالیوں پر احتساب سے زندگی بھر بچتے رہے۔