حال ہی میں امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر نے دورہ مشرقِ وسطیٰ کے دوران شام سمیت مختلف عرب ممالک کے سربراہوں اور اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ سے طویل ملاقاتوں اور مشرق وسطیٰ کے تنازع پر مذاکرات کے بعد علاقے میں پائی جانے والی کشمکش اور کشیدگی کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے اس دورے کو کامیاب بنانے اور عرب اسرائیل اختلافات کم کر کے مفاہمت کی راہ ہموار کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے کیونکہ اس وقت یہ خطہ ہی سب سے زیادہ کشیدگی ، محاذ آرائی اور مزاحمت کی لپیٹ میں ہے۔
ان سے ملاقات اور مذاکرات کے دوران عرب حکمرانوں نے خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لئے اپنی تجاویز بھی پیش کی تھیں۔ ان کا موٴقف یہ تھا کہ اسرائیل نہ صرف عربوں کے مقبوضہ علاقے خالی کرے بلکہ اسے ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے معاہدہ اوسلو اور معاہدہ کیمپ ڈیوڈ کی بھی پابندی کرتے ہوئے حماس کے خلاف جارحانہ سرگرمیاں بند کرنے اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ یہودی آباد کاروں کے ذریعے فلسطینی بستیوں کو محصور کرنے کی پالیسی ترک کر دینی چاہئے صرف اسی طرح قیام امن کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ حماس کے ساتھ اختلافات کے خاتمے کے لئے اس کی سیاسی برتری اور مقبولیت کو نظر انداز کرنے کی پالیسی بھی ترک کرنا ہو گی۔
اس پس منظر میں اسرائیل کی طرف سے ایک ایسی پیشکش سامنے آئی ہے جس کا ماضی میں تصور بھی ممکن نہ تھا چنانچہ شام سے خوشگوار تعلقات کے قیام کے لئے اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے شام کے صدر بشار الاسد کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ شام سے دوستی کی خاطر گولان سے دستبردار ہونے کو تیار ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کے قیام کے لئے اسرائیل یہ کڑوی گولی نگلنے میں بھی تاخیر نہیں کرے گا۔
اسرائیل نے یہ پیغام ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان کے ذریعے بھیجا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اسرائیل کی طرف سے یہ پیشکش ایسے وقت سامنے آئی ہے جبکہ شام کی طرف سے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ حال ہی میں شام کے صدر بشارالاسد کا یہ بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے دوست ممالک اسرائیل سے مذاکرات کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں اور شام علاقے میں قیام امن کے لئے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں غور کر سکتا ہے۔
صدر جمی کارٹر نے بھی اپنے دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ شام اسرائیل سے مذاکرات میں دلچسپی لے رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گولان کی پہاڑیوں کے بارے میں 50 فیصد تنازعات پہلے ہی حل ہو چکے ہیں۔ عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کے علاوہ بیت المقدس اور مصر کے وسیع سرحدی علاقے پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ مصر کے کچھ مقبوضہ علاقے واگزار کر دیئے گئے لیکن باقی علاقوں سے اسرائیل دستبردار ہونے کے لئے تیار نہ تھا چنانچہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر واقع تمام علاقے آج بھی اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔
گولان کے پہاڑی علاقے شام کے لئے زبردست دفاعی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان پہاڑوں پر مورچہ بند اسرائیلی فوج آسانی کے ساتھ پیش قدمی کر سکتی ہے اور میدانی علاقوں میں مقیم شامی فوج کے لئے اس کی پیش قدمی کو روکنا خاصا دشوار بلکہ بڑی حد تک ناممکن ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں شامی اور اسرائیلی فوجوں کے درمیان جھڑپوں کی صورت میں ہمیشہ اسرائیلی فوجوں کو بالادستی حاصل رہی۔ شام کا مطالبہ یہ رہا ہے کہ جب تک اسرائیلی اس کے مقبوضہ علاقے یعنی گولان کی پہاڑیاں خالی نہیں کرتا اس سے مذاکرات ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصر اور اردن کے ساتھ اسرائیل کے مذاکرات کے باوجود شام کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار نہ ہو سکی۔
اسرائیل کی طرف سے حماس اور حزب اللہ کی سرپرستی اور ایران کے ساتھ دفاعی اشتراک و تعاون کی جو الزام تراشی کی جاتی رہی اس کا ہرگز کوئی جواز نہ تھا۔ اگر اسرائیل اپنے دفاع اور عربوں کے خلاف جارحیت کے لئے امریکہ سمیت متعدد مغربی ممالک سے مالی امداد اور دفاعی ساز و سامان حاصل کر سکتا ہے تو پھر شام کو ایک مسلمان اور عرب ملک ہونے کے حوالے سے حماس، حزب اللہ، لبنان اور ایران کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کے قیام کا پورا پورا حق حاصل ہے اور اسے اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو اس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف کرنا ہو گا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کے لئے تنازع فلسطین کا حل انتہائی ناگزیر اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے اس لئے کہ مشرق وسطیٰ کے تمام مسائل اور تنازعات نے اسی ایک مسئلہ یعنی تنازع فلسطین کے بطن سے جنم لیا ہے اور امریکہ، برطانیہ ،روس ، فرانس اور دوسری مغربی طاقتوں کی تائید و حمایت اور سرپرستی کے نتیجے میں ہی اسرائیل کا قیام عمل میں آیا جس کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کی یہاں آمد اور آباد کاری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ انہوں نے فلسطینی مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کرنا شروع کیا اور کچھ املاک اونے پونے خرید کر ایک یہودی ریاست کے قیام کو عمل شکل دینے کی راہ ہموار کی۔
اسرائیل کے عزائم ہرگز ڈھکے چھپے نہیں وہ صرف ایک محدود ریاست کے قیام پر ہی مطمئن نہیں بلکہ اس کا مقصد پوری عرب دنیا پر قبضہ کرنا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی قومی اسمبلی کی عمارت پر مستقبل کے اسرائیل کا جو نقشہ کندہ کیا ہے اس میں عراق و شام کے علاوہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہودیوں کا کہنا ہے کہ جس سرزمین میں ان کے بزرگوں کی ہڈیاں دفن ہیں وہ اس پر قبضہ کر کے رہیں گے۔ ادھراسرائیل مشرق وسطیٰ کے بنیادی تنازع یعنی تنازع فلسطین کو حل کرنے پر تیار نہیں یہاں تک کہ ایک غیرقانونی دیوار کی تعمیر سے جسے اسرائیلی عدالت عظمیٰ نے بھی غلط اقدام قرار دیا تھا، اسرائیلی حکومت باز نہیں آئی اور اس کی تعمیر مکمل کر کے متعدد فلسطینی آبادیوں کو محصور کر کے غزہ کی پٹی کے ساتھ ان کے رابطے کاٹ دیئے گئے ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں تیل کی سپلائی پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کو غزہ میں ساڑھے چھ لاکھ سے زائد فلسطینی مہاجرین کو خوراک اور دوسری ضروریات کی فراہمی بند کرنا پڑی۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق اسرائیل کی طرف سے یہاں ایک لٹر تیل کی فراہمی بھی بند کر دی گئی ہے اس پر حماس کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ عوام اسرائیلی جارحیت اور معاشی ناکہ بندی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی پابندیوں کے بعد فلسطینی عوام اسرائیل کے خلاف کھڑے ہونے پر مجبور ہوں گے اور ان رکاوٹوں کو دور کرنا ان کا آئینی و قانونی حق ہے۔ اس پس منظر میں لیبیا کی طرف سے غزہ کو ایک نازی کیمپ قرار دینا بالکل درست تھا ۔
لیبیا کے ترجمان کے یہ ریمارکس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران سامنے آئے جس پر برطانیہ، فرانس ، امریکہ اور بعض مغربی ممالک کے وفود اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔ اس پس منظر میں اسرائیل کی طرف سے شام کا مقبوضہ علاقہ یعنی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ ختم کرنے پر اظہار آمادگی بڑی حیرت انگیز پیشکش ہے اور جب تک اس کی تفصیلات سامنے نہیں آتیں اس وقت تک یہ کہنا ممکن ہی نہیں کہ شام کے لئے یہ پیشکش قابل قبول بھی ہو گی یا نہیں اور اس کے نتیجے میں تنازع فلسطین کے حل اور شام اور اسرائیل کے درمیان خوشگوار تعلقات کا قیام ممکن بھی ہو سکے گا یا نہیں۔
ان سے ملاقات اور مذاکرات کے دوران عرب حکمرانوں نے خطے میں کشیدگی کم کرنے کے لئے اپنی تجاویز بھی پیش کی تھیں۔ ان کا موٴقف یہ تھا کہ اسرائیل نہ صرف عربوں کے مقبوضہ علاقے خالی کرے بلکہ اسے ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لئے معاہدہ اوسلو اور معاہدہ کیمپ ڈیوڈ کی بھی پابندی کرتے ہوئے حماس کے خلاف جارحانہ سرگرمیاں بند کرنے اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ یہودی آباد کاروں کے ذریعے فلسطینی بستیوں کو محصور کرنے کی پالیسی ترک کر دینی چاہئے صرف اسی طرح قیام امن کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ حماس کے ساتھ اختلافات کے خاتمے کے لئے اس کی سیاسی برتری اور مقبولیت کو نظر انداز کرنے کی پالیسی بھی ترک کرنا ہو گی۔
اس پس منظر میں اسرائیل کی طرف سے ایک ایسی پیشکش سامنے آئی ہے جس کا ماضی میں تصور بھی ممکن نہ تھا چنانچہ شام سے خوشگوار تعلقات کے قیام کے لئے اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے شام کے صدر بشار الاسد کو پیغام بھیجا ہے کہ وہ شام سے دوستی کی خاطر گولان سے دستبردار ہونے کو تیار ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کے قیام کے لئے اسرائیل یہ کڑوی گولی نگلنے میں بھی تاخیر نہیں کرے گا۔
اسرائیل نے یہ پیغام ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان کے ذریعے بھیجا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اسرائیل کی طرف سے یہ پیشکش ایسے وقت سامنے آئی ہے جبکہ شام کی طرف سے بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے مثبت اشارے مل رہے ہیں۔ حال ہی میں شام کے صدر بشارالاسد کا یہ بیان سامنے آیا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے دوست ممالک اسرائیل سے مذاکرات کی بحالی کی کوشش کر رہے ہیں اور شام علاقے میں قیام امن کے لئے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے بارے میں غور کر سکتا ہے۔
صدر جمی کارٹر نے بھی اپنے دورہ مشرق وسطیٰ کے دوران اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ شام اسرائیل سے مذاکرات میں دلچسپی لے رہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان گولان کی پہاڑیوں کے بارے میں 50 فیصد تنازعات پہلے ہی حل ہو چکے ہیں۔ عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں کے علاوہ بیت المقدس اور مصر کے وسیع سرحدی علاقے پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ مصر کے کچھ مقبوضہ علاقے واگزار کر دیئے گئے لیکن باقی علاقوں سے اسرائیل دستبردار ہونے کے لئے تیار نہ تھا چنانچہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر واقع تمام علاقے آج بھی اسرائیل کے کنٹرول میں ہیں۔
گولان کے پہاڑی علاقے شام کے لئے زبردست دفاعی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ان پہاڑوں پر مورچہ بند اسرائیلی فوج آسانی کے ساتھ پیش قدمی کر سکتی ہے اور میدانی علاقوں میں مقیم شامی فوج کے لئے اس کی پیش قدمی کو روکنا خاصا دشوار بلکہ بڑی حد تک ناممکن ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس علاقے میں شامی اور اسرائیلی فوجوں کے درمیان جھڑپوں کی صورت میں ہمیشہ اسرائیلی فوجوں کو بالادستی حاصل رہی۔ شام کا مطالبہ یہ رہا ہے کہ جب تک اسرائیلی اس کے مقبوضہ علاقے یعنی گولان کی پہاڑیاں خالی نہیں کرتا اس سے مذاکرات ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصر اور اردن کے ساتھ اسرائیل کے مذاکرات کے باوجود شام کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار نہ ہو سکی۔
اسرائیل کی طرف سے حماس اور حزب اللہ کی سرپرستی اور ایران کے ساتھ دفاعی اشتراک و تعاون کی جو الزام تراشی کی جاتی رہی اس کا ہرگز کوئی جواز نہ تھا۔ اگر اسرائیل اپنے دفاع اور عربوں کے خلاف جارحیت کے لئے امریکہ سمیت متعدد مغربی ممالک سے مالی امداد اور دفاعی ساز و سامان حاصل کر سکتا ہے تو پھر شام کو ایک مسلمان اور عرب ملک ہونے کے حوالے سے حماس، حزب اللہ، لبنان اور ایران کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کے قیام کا پورا پورا حق حاصل ہے اور اسے اس حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو اس حقیقت کا کھلے دل سے اعتراف کرنا ہو گا کہ مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے قیام کے لئے تنازع فلسطین کا حل انتہائی ناگزیر اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے اس لئے کہ مشرق وسطیٰ کے تمام مسائل اور تنازعات نے اسی ایک مسئلہ یعنی تنازع فلسطین کے بطن سے جنم لیا ہے اور امریکہ، برطانیہ ،روس ، فرانس اور دوسری مغربی طاقتوں کی تائید و حمایت اور سرپرستی کے نتیجے میں ہی اسرائیل کا قیام عمل میں آیا جس کے بعد دنیا بھر سے یہودیوں کی یہاں آمد اور آباد کاری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ انہوں نے فلسطینی مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کرنا شروع کیا اور کچھ املاک اونے پونے خرید کر ایک یہودی ریاست کے قیام کو عمل شکل دینے کی راہ ہموار کی۔
اسرائیل کے عزائم ہرگز ڈھکے چھپے نہیں وہ صرف ایک محدود ریاست کے قیام پر ہی مطمئن نہیں بلکہ اس کا مقصد پوری عرب دنیا پر قبضہ کرنا ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی قومی اسمبلی کی عمارت پر مستقبل کے اسرائیل کا جو نقشہ کندہ کیا ہے اس میں عراق و شام کے علاوہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہودیوں کا کہنا ہے کہ جس سرزمین میں ان کے بزرگوں کی ہڈیاں دفن ہیں وہ اس پر قبضہ کر کے رہیں گے۔ ادھراسرائیل مشرق وسطیٰ کے بنیادی تنازع یعنی تنازع فلسطین کو حل کرنے پر تیار نہیں یہاں تک کہ ایک غیرقانونی دیوار کی تعمیر سے جسے اسرائیلی عدالت عظمیٰ نے بھی غلط اقدام قرار دیا تھا، اسرائیلی حکومت باز نہیں آئی اور اس کی تعمیر مکمل کر کے متعدد فلسطینی آبادیوں کو محصور کر کے غزہ کی پٹی کے ساتھ ان کے رابطے کاٹ دیئے گئے ۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں تیل کی سپلائی پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کو غزہ میں ساڑھے چھ لاکھ سے زائد فلسطینی مہاجرین کو خوراک اور دوسری ضروریات کی فراہمی بند کرنا پڑی۔ اقوام متحدہ کے ترجمان کے مطابق اسرائیل کی طرف سے یہاں ایک لٹر تیل کی فراہمی بھی بند کر دی گئی ہے اس پر حماس کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ عوام اسرائیلی جارحیت اور معاشی ناکہ بندی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی پابندیوں کے بعد فلسطینی عوام اسرائیل کے خلاف کھڑے ہونے پر مجبور ہوں گے اور ان رکاوٹوں کو دور کرنا ان کا آئینی و قانونی حق ہے۔ اس پس منظر میں لیبیا کی طرف سے غزہ کو ایک نازی کیمپ قرار دینا بالکل درست تھا ۔
لیبیا کے ترجمان کے یہ ریمارکس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس کے دوران سامنے آئے جس پر برطانیہ، فرانس ، امریکہ اور بعض مغربی ممالک کے وفود اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔ اس پس منظر میں اسرائیل کی طرف سے شام کا مقبوضہ علاقہ یعنی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ ختم کرنے پر اظہار آمادگی بڑی حیرت انگیز پیشکش ہے اور جب تک اس کی تفصیلات سامنے نہیں آتیں اس وقت تک یہ کہنا ممکن ہی نہیں کہ شام کے لئے یہ پیشکش قابل قبول بھی ہو گی یا نہیں اور اس کے نتیجے میں تنازع فلسطین کے حل اور شام اور اسرائیل کے درمیان خوشگوار تعلقات کا قیام ممکن بھی ہو سکے گا یا نہیں۔