حال ہی میں سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیر نے جنرل اسمبلی کے نیویارک میں منعقدہ اجلاس سے خطاب کیا۔ آج تک سعودی سربراہان اور وزاء نے ایسا صدمہ پہچانے والا خطاب شاید ہی کیا ہو جیسا کہ عادل الجبیر کی تقریر سے ظاہر ہوا۔ سعودی عرب نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حقوق کی کھل کر طرف داری کی مگر عادل الجبیر کی تقریر سے ایسے لگتا تھا کہ وہ فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیل کی طرف داری کررہے ہیں۔
عادل الجبیر نے کہا کہ ان کا ملک اس بات پر متفق ہے کہ اگر عالمی برادری تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل کی حامی ہے تو فلسطین۔ اسرائیل تنازع کا جاری رہنے کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے اسرائیلی مظالم کی مذمت تک نہیں کی بلکہ ایک قابض اور غاصب ریاست کا نام لے کر ’نزاع‘ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے معاملے کو گول کردیا۔
صہیونی ریاست کی طرف سعودی عرب کے جھکاؤ کے متعدد اسباب ہوسکتے ہیں۔ پہلا سبب شاید وہ ایک جملہ کو ضرب المثل بن چکا ہے کہ ’جو ملک امریکا کی خوشنودی چاہتا ہے وہ اسرائیل کو قبول کرلے‘ ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یہ جملہ گذشتہ ایک عشرے سے کافی مشہور ہوا ہے۔ یہ جملہ جنوبی سوڈان، اریٹیریا اور شمال عراق کے لوگوں نے مشہور کیا اور ایک ضرب المثل بن گیا مگر یہ مثال کلی طور پر درست نہیں ہوسکتی کیونکہ اس سارے موضوع میں اسرائیل واحد عامل نہیں بلکہ کئی عوامل علاحدہ علاحدہ اپنا اثر دکھاتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسرائیل معاون حامل ہے کلیدی عامل بھی نہیں۔ ایک متحرک طاقت کے بجائے ایک محدود قوت ہے۔
سعودی عرب کی جانب سے تنازع فلسطین کے حل کے لیے دو امن فارمولے پیش کیے مگر حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو سعودیہ علاقائی سیاسی تنازعات کے حل کے لیے کوئی قابل ذکر کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ سعودیہ نے سابق فرمانروا شاہ فہد جو ابھی بادشاہ نہیں بنے تھے نے 1981ء میں آٹھ نکاتی امن فارمولہ پیش کیا تھا۔ سعودیہ کی طرف سے دوسرا امن فارمولہ 2002ء میں شاہ عبداللہ مرحوم نے پیش کیا۔ ان دونوں امن فارمولوں نےسعودی عرب کے علاقائی مقام ومرتبے میں کوئی اضافہ نہیں کیا۔
سعودی عرب کے فیصلہ سازوں نے شاید یہ سوچا کہ مصر کے علاقے خطے میں چار اور قوتیں ترکی، ایران، خود سعودی عرب اور اسرائیل ہیں۔ اس لیے سعودی عرب کو ان چاروں میں سے کسی ایک کے ساتھ اتحاد کرنا کرکے اپنے اثرو نفوذ میں اضافہ کرنا ہوگا، ورنہ سعودیہ کو خطے میں کوئی زیادہ اہمیت نہیں مل پائے گی۔
ترکی کو ان سب ملکوں کے ساتھ کسی نا کسی شکل میں تحفظات رہے ہیں۔ ایران کے ساتھ تو سعودیہ کا ویسے ہی تنازع کبھی ختم نہ ہونے والا ہے، فطری طور پر سعودیہ کے لیے ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو گہرے کرنا مناسب تھا۔ مگر سعودی عرب نے اسلامی تحریکوں کے خوف سے بہت بڑی غلطی یہ کہ اس نے اسرائیل کی قربت اختیار کرنا شروع کی۔ سعودیہ یہ بھول گیا کہ وہ پہلے ہی عراق، شام اور یمن جیسے محاذوں میں کوئی کلید کردار ادانہیں کرسکا۔ ان کی نسبت ان ملکوں میں ترکی کا کردار سعودیہ سے زیادہ موثر رہا ہے۔
سعودی عرب میں ایک مسئلہ لبرل قوتوں کا عرج اور اقتدار حاصل کرنا ہے۔ خاص طور پر کویت اور عراق کی باہمی لڑائی کے بعد سعودی عرب کے ابلاغی، سیاسی اور کلیدی اداروں پرایسے لوگ فائز ہوئے جو صہیونی ریاست کے ساتھ ثقافتی قربت کو بہتر محسوس کرتےتھے۔ ان کا لبرلزم غیرانہیں اسرائیل کے قریب لانے کا باعث بنا۔
دوسری جانب اسرائیل میں بھی سعودی عرب میں آنے والی تبدیلیوں اور تل ابیب کے معاملے میں نرم گوشے کو محسوس کیا گیا۔ سابق اسرائیلی وزیرخارجہ زیپی لیونی نے 2009ء میں وزارت خارجہ کے حکام کو حکم دیا تھا کہ وہ سعودی قایدین کی تقاریر کو عبرانی زبان میں ترجمہ کرکے میڈیا میں شائع کرائیں، نیز ایسے مضامین جن میں فلسطینیوں کی مزاحمت کی مذمت اور اسرائیل کی مدح سرائی کی گئی ہو انہیں وزارت خارجہ کی ویب سائیٹ پر شائع کیا جائے۔
تمام تر احوال وحالات کے باوجود سعودی عرب کے لیے اپنے اثرو نفوذ کو استعمال کرنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے مذہب اور دین کا استعمال۔ سعودیہ کو اپنی تاریخی جدو جہد کو بھی تازہ کرنا ہوگا جس کی مثال 1948ء کی جنگ کے دوران دیکھی گئی جب سعودیہ کی فوج نے فلسطینی قوم کے ساتھ شانہ بہ شانہ جنگ میں حصہ لیا تھا۔ بعد ازاں سعودی عرب نے ہزاروں فلسطینیوں کو اپنے ہاں روز گار کی سہولت فراہم کی۔ مصر کے ساتھ مل کر سنہ 1967ء کی جنگ میں شکست کا توازن بہتر کرنے میں سعودیہ کا تاریخی کردار رہا۔ پھر سعودیہ نے شام میں کئی غیرمعمولی اہمیت کے منصوبوں میں شراکت کی۔ خطے کی اقوام شاہ فیصل بن عبدالعزیز آل سعود کے اس بیان کو فراموش نہیں کرسکتے جس میں وہ کہہ گئے تھے کہ وہ القدس کے لیے شہید بھی ہوسکتے ہیں۔