مغرب میں عورتوں کے حقوق کا ڈھنڈورا تو خوب پیٹا جاتاہے- عورتوں کی آزادی کے نام پر فحاشی و عریانی کا بول بالا کیا جاتاہے- لیکن سچ تو یہ ہے کہ عورت کی آزادی کے نام پر شائیں شائیں کرنے والے مغربی معاشروں میں عورتوں کی حیثیت جنسی عیاشیوں کے گل دان سے بڑھ کر نہیں – اسرائیل نام کی ناجائز ریاست گوکہ مڈل ایسٹ میں قائم ہے لیکن وہاں عورتوں اور لڑکیوں پر ایسے ایسے ظلمت کدوں کے کوڑے برسائے جاتے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے –
انسانیت کا دم بھرنے والا ملک چاہے اسرائیل ہو یا سپین ‘ برطانیہ ہو یا امریکہ وہاں انسانی سمگلنگ کا کاروبار عروج پر ہے- انسانی تجارت کا پیشہ قدیم ترین ہے- گلوبلائزیشن کے اس دور میں بھی اس تجارت کی وحشت کو روکنا تو درکنار بلکہ اس کے روز افزوں کا روبار کے طوفان کی طغیانی کو کم تک نہیں کیاجاسکا- انسانی تجارت کا سب سے گھناؤنا کاروبار اسرائیل میں کیا جاتاہے-
اسرائیل سے تعلق رکھنے والی خاتون وکیل (دوریت شموئیلی ) جو انسداد انسانی تجارت کے حوالے سے کافی سرگرم ہیں ‘ نے یروشلم پوسٹ کو انٹرویو کے دوران بتایا کہ دنیا کا کوئی ملک فرقہ ‘ مذہب انسانی سمگلنگ اور عورتوں کے انسانی تشخص کو داغ دار کرنے کی اجازت نہیں دیتا لیکن صہیونی مملکت کے چپے چپے پر حوا کی بیٹیوں کی عظمت کے لباس کو تار تار کرنے کا کاروبار عروج پر ہے- اسرائیل میں قوانین اس حوالے سے خاصے غیر مبہم اور انسانی سمگلروں کو قانونی سپورٹ دینے میں معاون ثابت ہوتے ہیں-
اسرائیل پاکستان کے بعد دنیاکا دوسرا ملک ہے جو نظریاتی عقائد کی بنیادپر عالمی نقشے پر ابھرا- اسرائیل میں جنسی فلمیں بنانے اور بادہ و جام کی رنگینیوں کے دلدادہ حکمرانوں یا افسروں کو رام کرنے کے لئے کئی بینک ادارے اور کلب قائم ہیں- گزرے دنوں میں اسرائیل میں ایلات نام کا شہر تجارت میں خاصا مقبول تھا لیکن بعد میں تل ابیب ایلات پر بازی لے گیا- تل ابیب اب دنیا میں عورتوں کی لوٹ سیل ڈپووؤں کا سب سے بڑا مرکز ہے-
اسرائیلی وکیل شموئیلی نے میڈیا کے سامنے اس حوالے سے سنسنی خیز انکشافات سے آگاہ کیے- شموئیلی کا کہناہے کہ یہاں درآمدکی جانے والی لڑکیوں کو اس وقت تک رکھا جاتاہے جب تک تاجر اپنا منافع کھرا نہیں کرلیتے- کاروباری تماش بینوں سے نصف گھنٹے کے تیس ہزار شیکل ( اسرائیلی روپے ) وصول کرتے ہیں- حاصل شدہ رقم میں سے نصف گاہک کی شراب اور سگریٹ نوشی پر خرچ کر دیئے جاتے ہیں-
یوں حوا کی بیٹیاں صہیونیوں کے علمبرداروں کی ہرس و ہوس کی بھینٹ چڑھ کر ہر قدم پر اپنے قبائے ارزو کا جنازہ نکالنے پر مجبور کردی جاتی ہیں- اسرائیل یوں ملک کا کم اور عالمی نصرانیت کا قحبہ خانہ بن چکاہے- عورتوں کی تجارت کے حوالے سے عالمی سطح پر جو رپورٹ مرتب ہوئی ہے‘ کے مطابق اس وقت یونان‘ بلغاریہ‘ روس ‘ہالینڈ ‘چین‘ جاپان ‘ یوگوسلاویہ میں یہ دھندہ عروج پر ہے لیکن اس فہرست میں بھی اسرائیل نمبرون ہے- یوں اسرائیل کے چہرے سے انسانی حقوق کا نام نہاد میک اپ اور غازہ اتر چکاہے-
پچھلے دنوں روسی پارلیمنٹ کی ممبر میزولینا نے اپنی رپورٹ میں کف افسوس ملتے ہوئے لکھاتھاکہ کتنے شرم کی بات ہے کہ اسرائیل و یورپ میں سب سے زیادہ لڑکیوں کی سمگلنگ روس سے ہوتی ہے- عالمی سطح پر اسلحہ اور منشیات کی سمگلنگ کے بعد تیسرا نفع بخش کاروبار عورتوں کی لوٹ سیل کاہے اور اس نفع بخش کاروبار پر بھی یہودیوں کا غلبہ ہے – تل ابیب میں لڑکیوں کی تجارت کو زندہ گوشت کہاجاتاہے- حوا کی بیٹی کی ذلالت کی سب سے بڑی منڈی تل ابیب میں ہے- یہودی سرمایہ دار روسی اخباری صنعت پر بے دریغ دولت لٹاتے ہیں- میڈیا کے ذریعے خوبصورت لڑکیوں کوتل ابیب میں پرکشش نوکری کی آفرز دی جاتی ہیں اور پھر وہاں ‘ انہیں زبردستی قحبہ خانوں کے جہنم میں جھونک دیا جاتاہے-
روس اور یورپ میں با اثر مافیا کے حواری اور ایجنٹ لڑکیوں سے شادی کرکے ہنی مون منانے کے بہانے اسرائیل لے جا کر یہودی بھیڑ یوں کے بستروں کو گرم کرتے ہیں- این جی اوز اور خواتین تنظیمیں تمام قسم کی معلومات کے باوجود چپ سادھے رہتی ہیں کیونکہ انہیں جوگرانٹ ملتی ہے اس کے تانے بانے ان اداروں سے جا کر ملتے ہیں جو عالمی صہیونیت کے قبضہ میں ہیں- اسرائیل عربوں کے وسط میں قائم مصنوعی ریاست ہے جس کی بنیادوں میں عالمی سامراج کا ظلم اور یواین او کی نا انصافی شامل ہے-
مصنوعی ریاست کی ساٹھ سالہ زندگی پر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتاہے کہ یہودیوں نے مال کمانے کے لئے ماں بہن اور بیٹی کا مہذب ترین رشتہ رکھنے والی عورت کو بھی مالیاتی ایجنڈے کا حصہ بنارکھاہے- عرب میڈیا کے مطابق خام مال کی ترسیل سابق روسی ریاستوں سے فریب و فسوں کاری کے بل بوتے پر ممکن بنائی جاتی ہے- میڈیا میں بیس سے بائیس سالوں کی نوخیز و پرکشش حسیناؤں کو فضائی کمپنیوں ‘ ہوٹلوں اور اشتہاری اداروں میں ملازمت کرنے ‘ماڈل ویٹریا رقاصہ کا پیشہ اپنانے اور بالی وڈ میں اداکاری کے جوہر دکھانے کا جھانسہ دے کر ہمیشہ کے لئے صہیونی جال میں جکڑ لیا جاتا ہے –
سویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد روسی ریاست میں غربت کا طوفان چھاگیا- پرکشش معاوضوں کے عوض میڈیا میں چھپنے والے اشتہارات پر غریب و خوبصورت لڑکیوں کے انبار لگ جاتے جنہیں دھوکہ دہی سے آگے بھیج دیا جاتا- روس سے کم عمر طالبات کی سمگلنگ شروع ہوئی تو یوں سفید فام غلاموں کی تجارت کا کاروبار شروع ہوگیا جس کی سرمایہ کاری کا گڑھ تل ابیب بن گیا- اسرائیل نے دولت کی لالچ میں اپنے آئین و مذہب میں ترامیم کرڈالیں اور عورت کے تجارتی استعمال کو قانونی لبادہ پہنا کر اپنی خباثت کا ثبوت ہی خود عیاں کردیا- تاریخی اعتبار سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہودیت میں غیر اخلاقی کاروبار کرنے کا اختیار انہیں عطا کیا گیا ہے-
اسرائیل کے علاوہ امریکہ ‘ یورپ مشرق وسطی میں عورتوں کی خرید و فروخت کرنے والے عورتوں گردوں کا تعلق اسی گروہ یا مذہب کے پیروکاروں سے ہوگا کیونکہ دنیا کے کسی اور مذہب قانون اور سماج میں عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذلیل و رسوا کرنے کی اجازت نہیں ہے لیکن یاد رہے کہ اصل یہودی مذہب میں ایسا کرنا گناہ اور غیر قانونی ہے- اسرائیلی حکام جب کسی دوسرے ملک کے اعلی حکام سے کوئی کام نکلوانا چاہتے ہیں تو وہ حسین و جمیل تیز و طرار لڑکیوں کو استعمال کرتے ہیں-
اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں اور موساد میں جاذب نظر لڑکیوں کو بھرتی کیا جاتاہے اور پھر ان کی ٹریننگ کے لیے وہاں جدید قسم کے انسٹی ٹیوٹ قائم ہیں جہاں انہیں جاسوسی کے مختلف طریقے ‘آوازیں ریکارڈ کرنا ‘ تصویریں بنانا ‘ اسرائیل مخالف نامی گرامی رہنماؤں کو اپنی زلف گرہ گیرکا اسیر بنا کر تماشہ عبرت بنانے اور فلمیں بنانے کی تربیت دی جاتی ہے-
جاسوس لڑکیوں کو روانی کے ساتھ عربی سکھائی جاتی ہے – جولڑکیاں سخت ترین تربیت اور جاسوسی کا کورس پاس کرلیتی ہیں تو انہیں باقاعدہ موساد کے اعلی عہدوں پر فائز کردیا جاتاہے اور جو حسینا ئیں فیل ہوجاتی ہیں انہیں اسرائیلی فوج کے شعبہ انسانی سمگلنگ کے سپرد کردیا جاتا ہے – جو ان سے جسم فروشی کا دھندہ کرواتے ہیں- اگر چندبا ضمیر لڑکیاں جسم فروشی سے منکر ہوجاتی ہیں انہیں اذیت دی جاتی قید کی تنہائیوں کے سپرد کردیا جاتاہے – تاریخ کئی ایسے ابواب سے بھری ہوئی ہے- جس میں موساد سے تعلق رکھنے والی ایجنٹ حسینوں نے دشمنوں کو سرعام رسوا کیا-
اسرائیلی پولیس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ لڑکیوں کی تجارت کرنے والے مافیا کی سرپرستی کرتی ہے- ہودیوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ لڑکیوں اور عورتوں کو استعمال کرنے کار یکارڈ قائم کیا ہے- پوری دنیا کے یہودی آپس میں گہرے روابط رکھتے ہیں- روس میں رہنے والے یہودی تل ابیب کے تاجروں کو آرڈر پر مال پہنچاتے ہیں-
دنیا کی تجارت اور عالمی معیشت پر یہودیو ں کا قبضہ ہے بھلا جو قوم دولت کی لوٹ مار کے لئے ماں ایسی مقدس ہستی بہن ایسی سرتاپا وفا شخصیت اور بیٹی ایسے گرانقدر اثاثے کو بلا تامل استعمال کرنے کا گورکھ دھندہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتی بھلا وہ دنیا کی امیر ترین قوم کا اعزاز برقرار رکھنے میں کیونکر کامیاب نہ ہوگی-