دوم :اس کے برعکس محمود عباس کسی مرجعیت اور پروگرام کے تعین اور ان کے انجام کو سوچے سمجھے بغیر دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر راضی ہو گئے ہیں۔دوسری طرف چار رکنی کمیٹی پر نتین یاہو کے دباؤ اس بات میں کامیاب ہوئے کہ وہ اپنے بیان میں فلسطینی مملکت کے قیام کیلیے متعین مدت کے ذکر کو حذف کرے اور مسئلہ فلسطین سے متعلق سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کو حوالہ بھی نہ دے،اس سے اسرائیل کو لیت و لعل ، ٹال مٹول اور اپنے مفادات کے مطابق اپنی مرضی کی تفسیرو تشریح کرنے کی بڑی آزادی ملے گی جب کہ وہ اس وقت زمین پر یہودی تعمیرات جاری رکھیں گے اور زیر بحث مسائل پر اتفاق کے بغیر مذاکرات چلتے رہیں گے۔اس بات پر محمود عباس راضی ہو ہی چکے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کے بنیادی اجزاء پناہ گزینوں اور زمین کے مسائل زیر بحث نہیں آئیں گے۔ان کے بدلے حدود اور(اسرائیلی)امن و امان کے مسائل پر غور ہو گا۔
سوم : عباس اتھارٹی کے ساتھ راست مذاکرات کو ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف اسرائیلی منصوبوں سے علیحدہ کرنا ناممکن ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل کو ایسا علاقائی ماحول مطلوب ہے جس میںاس کو طویل مدتی اسٹریٹیجک تاثیر کی عملیات انجام دینے کا موقع ہو، اس سے پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے کہ اسرائیل نے عرب فریقوں کے ساتھ مذاکرات کو اپنے خفیہ منصوبوں کی تنفیذ کا ذریعہ بنایا، چنانچہ سابق اسرائیلی وزیراعظم مناحم بیگن نے ایک ایسے ہی موقع پر 1981ء میں عراقی ری ایکٹروں کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا اور دوسرے سابق وزیر اعظم ایہوداولمرٹ اناپولس کانفرنس کے فوراً بعد دسمبر 2008ء میں دمشق کے ریسرچ ادارے کو تباہ کرنے کا حکم دے دیا۔
چہارم : اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ عباس اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین راست مذاکرات کے نتیجے میں فتح اور حماس کے درمیان مصالحتی گفتگوکی کوئی امید باقی نہیں بچے گی۔ یہ بات صحیح ہے کہ مذاکرات سے پہلے بھی مصری مصالحتی فارمولے پر گفتگو کی کامیابی صفر کے درجے میں تھی ، اس لیے اس کے خلاف صہیونی، امریکی ویٹو تیار تھی۔
پنجم :عباس اتھارٹی کو اندازہ ہے کہ مذاکرات کے لیے خود اس کی وضع کردہ حدادنی ٰ سے پسپائی اس کو فلسطینی عوام کے نزدیک کمزور کرے گی ، اس لیے عباس اور فیاض حکومت کے ارکان نے وہ گھسا پٹا ریکارڈ بجانا شروع کر دیا ہے ، جس کی وجہ سے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی خطرے میں ہے اور مذاکرات سے انکار سے یہ بحران مزید گہرا ہو گا۔اس لیے یورپی مدد دینے والے تنخواہوں کی ادائیگی روک دیں گے۔
ششم : موجودہ حالات میں عرب مذاکرات کاررواں خاص طور پر دمشق و فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کے حق میں ہیں ۔فی الوقت اسرائیل کے نزدیک دمشق سے معاملات طے کرنے کو فوقیت حاصل ہے۔اس سے پہلے کبھی دمشق کے ساتھ سمجھوتے کے بارے میں کبھی گرمجوشی نہیں دیکھی گئی تھی۔یہاں تک کہ اندونی خفیہ ادارہ شابا ک کے صدر یوفال ڈسکن (جو دمشق کے مسئلے کو اپنے اداے کے اہتمام سے خارج مانتے ہیں،دمشق کے ساتھ فوری مذاکرات کیلیے نیتن یاہو پر بڑا دباؤ ڈا ل رہے ہیں)۔
اسرائیلی امن و امان کے ذمہ داروں کے نزدیک دمشق کے ساتھ تصفیہ کے جوش کیلیے جواز یہ ہے کہ اسطرح کا اقدام اسرائیل کے اسٹریٹیجک ماحول میں ایسی تبدیلی ہے جس کا کبھی پہلے موقع نہیں آیا، جبکہ موجودہ حالات علی حالہ طویل مد ت کیلیے چھوڑ دینا اپنے پہلو میں اسرائیل کے مقابلے سے پیدا ہونے والے خطرات کو کم کرنے کی ضمانت رہے گی، اس لیے محمود عباس نے جو تنازعات پیش کیے ہیں وہ دمشق کے ساتھ مذاکرات کے حالات کو بہتر بنائیں گے۔