دنیا کے ایک ارب سے زائد مسلمانوں کے ساتھ کم از کم ایک سو سال سے ایک ہی کہانی بار بار دہرائی جارہی ہے ۔پچھلے پانچ دنوں سے میں غزہ کے مختلف علاقوں رفح، خان یونس اور بیت حنون میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہ میرے لئے نیا نہیں ہے۔
غزہ کی مسجدیں، ہسپتال، اسکول، پولیس اسٹیشن، سرکاری دفاتر، صنعتی ادارے، ہوٹل اور کئی مارکیٹیں اسرائیلی بمباری سے تباہ کی جاچکی ہیں۔ اس تباہی کو دیکھ کر مجھے 2006ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران بیروت سے لے کر قانا تک ہونے والی تباہی یاد آرہی ہے۔ آج دوپہر غزہ کی طاحد مسجد کے تباہ شدہ مینار دیکھ کر مجھے جنوبی لبنان کے شہر قانا کی وہ مسجد یاد آئی جس کی چھت گر گئی تھی لیکن اس کے ایک مینار کا نیلا گنبد سلامت تھا۔ غزہ کا ایک تباہ شدہ اسپتال دیکھ کر مجھے 2003ء میں عراق کے شہر تکریت کا وہ اسپتال یاد آ رہا تھا جس کو میری آنکھوں کے سامنے امریکی ٹینکوں نے ملبے کا ڈھیر بنادیا تھا اور اس ڈھیر کی فلم بنانے کیلئے بھی مجھے امریکی فوج کے ایک کرنل سے اجازت لینی پڑی تھی۔
غزہ کے انٹرنیشنل امریکن اسکول کے ملبے میں طلبا و طالبات کی کتابیں اور کاپیاں بکھری دیکھ کر مجھے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام چلنے والے ایک اسکول کا ملبہ یاد آگیا جو نومبر 2001ء میں امریکی طیاروں کی بمباری کے دوران کئی گھنٹوں تک میری پناہ گاہ تھا۔ اس ملبے میں پناہ کے دوران میں افغان بچوں کی کاپیوں میں موجود ان کا ہوم ورک پڑھ کر وقت گزارتا رہا۔
غزہ کی تباہی دیکھ کر مجھے لبنان، عراق اور افغانستان کی تباہی یاد آرہی ہے۔ غزہ کے اسپتالوں میں پڑے زخمی بچے دیکھ کر مجھے بیروت، بغداد اور کابل کے ہسپتالوں میں پڑے زخمی بچے یاد آ رہے ہیں۔ ان سب کی ایک ہی کہانی ہے اور ان سب کا ایک ہی جرم ہے، ان کا جرم یہ ہے کہ یہ سب مسلمان ہیں۔غزہ میں میرے ٹیکسی ڈرائیور کا نام مروان ہے۔ وہ دو سال اسرائیل کی جیل میں گزار چکا ہے۔ بیروت میں میرے ٹیکسی ڈرائیور کا نام ابو جعفر تھا اور وہ چار سال اسرائیلی قید میں گزار چکا تھا۔
آج شام جب مروان مجھے اپنی قید کی کہانی سنا رہا تھا تو مجھے ایسے لگا کہ میں یہ کہانی پہلے بھی سن چکا ہوں۔ ایسی ہی کہانی مجھے بیروت میں ابوجعفر نے سنائی تھی۔ مروان کی کہانی سن کر میں ایک گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ مجھے ایسا لگا کہ شاید یہ ایک ارب مسلمانوں کی قید کی کہانی ہے۔ غزہ میں آکر میں خود کو بھی ایک قیدی محسوس کرتا ہوں۔ غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل ہے۔ 41کلو میٹر لمبی اور چھ کلو میٹر چوڑی اس جیل کو ایک طرف سے اسرائیلی ٹینکوں نے اور دو اطراف سے سمندر میں اسرائیل کے بحری جنگی جہازوں نے گھیر رکھا ہے۔
چوتھی طرف مصر کی سرحد ہے جہاں سے فلسطینیوں کی آمد و رفت کافی مشکل ہے۔ غزہ کی فضاؤں میں ہر وقت اسرائیل کے جنگی جہاز پرواز کرتے نظر آتے ہیں۔ غزہ سے فلسطین کے علاقے رم اللہ میں جانا ہوتو اسرائیل کی فوجی چوکی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسرائیل کے ٹینک ہر وقت فلسطینیوں کے اردگرد منڈلاتے رہتے ہیں۔ پرسوں خان یونس کے علاقے میں مجھے سڑک پر ایک لڑکے کی لاش پڑی نظر آئی۔ مروان نے ٹیکسی روک کر آس پاس دیکھا تو قریبی کھیتوں میں چھپے لوگوں نے اشارہ کیا کہ یہاں سے ہٹ جاؤ۔ ہم فوراً کچھ آگے چلے گئے اور رک کر صورتحال کا جائزہ لینے لگے۔ پتہ چلا کہ یہ لڑکا اپنی گدھا گاڑی پر سبزی لے کر جارہا تھا کہ اسے اپنے کھیتوں کے پاس ایک اسرائیلی ٹینک نظر آیا۔ فلسطینی لڑکے نے گدھا گاڑی روکی اور نیچے اتر کر ایک پتھر اٹھالیا۔ پتھر لے کر وہ ٹینک کے قریب گیا اور ایک اسرائیلی فوجی کو دے مارا۔ جواب میں اسرائیلی فوجی نے اپنی گولی سے فلسطینی لڑکے کا سینہ چھلنی کردیا اور پھر جو کوئی بھی لاش اٹھانے کیلئے آگے گیا اس پر گولی چلائی گئی۔
مروان نے بڑے فخر سے کہا کہ ہمارے بچے اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ پتھروں سے کرتے ہیں اور موت کو ایسے گلے لگاتے ہیں جیسے ماں اپنے بچے کو گلے سے لگا لیتی ہے۔ یہ سن کر میں خاموش رہا۔ کچھ دیر مروان بھی خاموش رہا۔ کافی دیر کی خاموشی کے بعد اس نے پوچھا کہ کیا آپ کے خیال میں اسرائیلی ٹینکوں کا مقابلہ پتھروں سے کرنے والے فلسطینی بہادر نہیں ہیں؟ میں نے اسے جواب میں کہا کہ ٹینکوں کا مقابلہ پتھروں سے کرنے والے یقیناً بہادر ہیں لیکن بہادری اور بے وقوفی میں فرق ہونا چاہئے۔ ٹینک کا مقابلہ اگر ٹینک سے نہیں ہوسکتا تو کم از کم رائفل سے کرنا چاہئے لیکن ہم مسلمان شوق شہادت میں ٹینکوں پر پتھر برسانے لگتے ہیں اور دشمن کی بجائے صرف اپنا نقصان کرلیتے ہیں۔ ہمیں جس قسم کے حالات کا قیدی بنادیا گیا ہے ان حالات سے نکلنے کیلئے ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو علم کے ہتھیار سے مسلح کرنا ہوگا۔ اگر علم کا ہتھیار ہمارے پاس موجود ہو اور ہم آپس میں لڑنا بند کردیں تو پھر ہماری بہادری ہمیں اس مقام تک لے جاسکتی ہے جہاں صلاح الدین ایوبی نے پہنچ کر بیت المقدس کو آزاد کروا لیا تھا۔ یہ سن کر مروان نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ 1967ء میں اسرائیل نے غزہ سے لے کر صحرائے سنیا تک قبضہ کرلیا تھا۔
اسرائیلی فوج قاہرہ کے دروازے تک پہنچ گئی تھی لہٰذا 1973ء میں مصر اور شام نے مل کر اسرائیل پر حملہ کیا، سعودی عرب اور پاکستان نے بھی عربوں کی مدد کی یہاں تک کہ پاکستان ائیرفورس نے اسرائیلی طیارے مار گرائے۔ امریکہ نے اقوام متحدہ کی مدد سے جنگ بندی کروا کر اسرائیل کو بچالیا اور پھر اسرائیل نے مسلمانوں کو تقسیم کرنے کیلئے مصر کا مقبوضہ علاقہ چھوڑ دیا لیکن غزہ پر قبضہ برقرار رکھا۔ 2005ء میں غزہ کا قبضہ چھوڑ کر اسے ایک انسانی جیل میں تبدیل کردیا گیا اوریہاں حماس کو الفتح سے لڑا دیا گیا۔مروان کو سمجھ آچکی تھی کہ علم اور اتحاد کے بغیر مسلمانوں کی بہادری کسی کام کی نہیں۔
ہم متحد نہ ہوئے تو ہمارے دشمن ہمیں دہشت گرد قرار دے کر اسی طرح مارتے رہیں گے جیسے غزہ میں مار رہے ہیں۔ مغرب کی جن فیکٹریوں کے میزائل غزہ پر برسائے گئے انہی فیکٹریوں کے میزائل امریکی جاسوس طیارے پاکستان کے قبائلی علاقوں پر بھی برساتے ہیں۔ پاکستانیوں کو فلسطینیوں کے انجام سے سبق سیکھنا چاہئے۔ پاکستانی معاشرے کو روشن خیالوں اور بنیاد پرستوں کی تقسیم سے بچانا چاہئے اور اندرونی استحکام پیدا کرنا چاہئے۔ اپنوں کے ساتھ بندوق کی زبان میں نہیں بلکہ اس زبان میں بات کی جائے جو ہمارے حکمران امریکہ اور بھارت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ اسرائیل نے مغرب کی مدد سے غزہ کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنادیا ہے۔ اس جیل کو توڑنے کیلئے ہمیں متحد ہونا ہوگا ورنہ دشمن گھیرا ڈال کر ہمیں بھی ہمارے اپنے ہی وطن میں قیدی بنا سکتا ہے۔