فلسطینی شہرغزہ آبادی کے اعتبار سے دنیا کا گنجان آباد ا ور مسائل کے لحاظ سے بھی دنیا کا مفلوک الحال شہر شمار ہوتا ہے-
امیر ترین عرب دنیا کے قلب میں واقع اس کے شہر کے باسیوں بے بسی اور کسمپرسی داستان نہایت المناک ہے -مسائلستان کی اس وادی کی مشکلات کا سبب گزشتہ آٹھ ماہ سے مسلط کردہ اسرائیلی معاشی ناکہ بندی ہے-جون2007 ء میں شہر کا کنٹرول اسلامی تحریک مزاحمت(حماس کے پاس آنے کے بعد اسرائیل نے بیرونی دنیا سے ملانے والے تمام راستے بند کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کو واجب الادا ٹیکس کی روقوم بھی روک لیں، جس کے بعد ہر آنے والادن اہل غزہ کے موت اور بھوک میں اضافے کا باعث بنتا گیا- معاشی طور پر مفلوج کر دینے والی ناکہ بندی کے باعث شہر میں موت کا راج ہے-ہسپتالوں میں کئی ماہ سے ایمر جنسی نافذ ہے- اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق غزہ کے پانچ بڑے ہسپتالوں میں کم ازکم پانچ ہزار افراد زیر علاج ہیں، جن میں سے ایک ہزار افراد کے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی تجاویز دی جا چکی ہیں، راستوں کی بندش اور بیرون ملک علاج کی سہولت نہ ملنے کے باعث مریض 70 زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں، جبکہ کینسر، ہیپاٹئٹس، گردوں ـ، امراض قلب اور جلد کے مہلک امراض کی وجہ سے بیشتر مریضوں کی حالت خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے-
غزہ کے ڈیڑھ ملین سے زائد آباد ی کے اس شہر کے روزانہ کم از کم2 لاکھ ٹن خوراک کے ذخیرے کی ضـرورت ہوتی ہے، جبکہ گزشتہ نصف برس سے زائد عرصے کے دوران مطلوبہ مقدار کا دسواں حصہ بھی غزہ نہیں پہنچ پارہا-حال ہی میں فلسطینی محکمہ شماریات ڈویژن کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق غزہ میں فی کس آمدنی صرف ساٹھ سے ستر ڈالر تک رہ گئی ہے، 2006 ء میں فی کس شرح آمدنی اڑھائی سو سے زیادہ تھی-غربت کی سطح دو سال قبل30فیصد تھی، اب بڑھ کر70 فیصد ہو چکی ہے- اشیاء خوردنوش کی قلت کے باعث شہری دن بھر میں صرف ایک وقت کا کھانا بھی مہیا نہیں کر پاتے-
فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے’’اونروا‘‘ نے غزہ کی راہداریوں پراسرائیلی فوج کی موجودگی اور اشیائے خوردونوش اور ادویات کی غزہ داخلے میں رکاوٹ پرسخت احتجاج کیا- غزہ کے دورے کے دوران اونروا کے ڈائریکٹر نے کہا کہ اسرائیلی حکام کی رکاوٹوں کی وجہ سے عالمی ادارے کو شہریوں کے علاج معالجے اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں سخت مشکلات کا سامنا ہے-غزہ شہر میں داخلے کے لیے اہم بیرونی راستوں، رفح کراسنگ پوائنٹ، کرم ابو سالم کراسنگ پوائنٹ اور المنطار کراسنگ پوائنٹ جیسے اہم مقامات پر سامان خوردونوش کے ذخیرے موجود ہیں جو خراب ہو رہے ہیں-حال ہی میں قطر اور سعودی عرب کی جانب سے غزہ کے لیے بھیجے گئے امدادی سامان کے ٹرک رفح کراسنگ پوائنٹ کے دوسری طرف کئی دن تک کھڑے رہے ، انہیں فلسطین میں داخل نہ ہونے دیا گیا ، بعدازاں وہ سامان واپس کردیاگیا- عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں جب باہر سے سامان کی آمد بند ہے اور مقامی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے شہریوں کے مسائل کو دو چند ہو گئے ہیں-
غرب اردن اور عسقلان سے غزہ کے لیے بجلی کی چار سپلائی لائنیں کام کر رہی ہیں- ان کے علاوہ شہر میں مقامی سطح پر بجلی تیار کرنے کے متعددپلانٹ بھی لگائے گئے ہیں، ان کارخانوں کے لیے ایندھن کی سپلائی مقبوضہ علاقوں ہی سے کی جاتی ہے-معاشی ناکہ بندی کے بعد اب تک اسرائیل ایک درجن سے زائد مرتبہ غزہ کی بجلی اور ایندھن بند کر چکا ہے، جس کی وجہ سے کئی کئی دن تک شہر اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے-حال ہی میں ایندھن اور بجلی کی سپلائی روکنے پر پوری دنیا میں اسرائیل پر تنقید کی گئی -عالمی تنقید کے بعد اسرائیل نے جزوی طور پر بجلی بحال کی- غزہ کی بجلی کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا کہ بجلی کی بندش کی وجہ غزہ کے شہریوں کا حماس سے تعاون کرنا ہے- غزہ کی پٹی میں رہنے والے اگر اسرائیل سے تعاون چاہتے ہیں تو حماس کے خلاف بغاوت کر دیں بصورت دیگر معاشی ناکہ بندی اور فوجی کارروائی کا سلسلہ جاری رہے گا –
اہل غزہ خوراک کی قلت اور کثرت امرض کے علاوہ امن و امان کے فقدان کابھی شکار ہیں- اسرائیل فوج کے روزانہ حملوں اور بمباری نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے- غزہ کے ہر خاندان سے جنازے اٹھ رہے ہیں اور صف ماتم بچھی ہوئی ہے- اسرائیلی انسانی حقوق کے ایک ادارے ’’بستلیم ‘‘نے اعتراف کیا ہے کہ قابض فوج نے گزشتہ چند ماہ کے دوران غزہ میں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں کیں – بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا- غزہ میں شادی کی ایک تقریب پر حملے میں حال ہی میں کئی خواتین اور بچوں کی شہادت فوج کی بد نام زمانہ کارروائیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے-
اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے علاوہ خانہ جنگی بھی اور حماس فتح لڑائی مستقل روگ ہے-گزشتہ دو برس سے حماس اور فتح کے درمیان کشیدگی سے پیدا ہونے والا یہ طوفان کئی قیمتی جانیں نگل چکا ہے-
غزہ کے بیشتر شہری ملازم پیشہ ہیں، جن کی تنخواہیں فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کے براہ راست کنٹرول میں ہیں-گزشتہ آٹھ ماہ سے اتھارٹی نے غزہ کے بیس ہزارملازمین کی تنخواہیں روک رکھی ہیں-تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے صحت، تعلیم،سکیورٹی سے متعلق اداروں کے ہزاروں افراد کئی بار فلسطینی اتھارٹی کے خلاف احتجاج کر چکے ہے-
یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ اسرائیل کی مسلط کردہ ناکہ بندی، قتل وغارت گری اور مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود حماس کی عوامی مقبولیت میں نہ صرف کوئی کمی نہیں آئی بلکہ الٹا اسرائیل کے خلاف غیض وغضب بڑھتا جارہا ہے- بزور طاقت مزاحمت کچلنے کا اسرائیلی خواب بھی چکنا چور ہوتادکھائی دے رہا ہے- حال ہی میں عرب خبر رساں ادارے’’ قدس پریس‘‘ نے محمودعباس اور اسماعیل ھنیہ کی مقبولیت کے حوالے سے ایک عوامی سروے کا اہتمام کیا-فلسطینی شہریوں تک محدوداس سروے میں64 فیصدرائے دہندگان نے اسماعیل ھنیہ کی حمایت کی20 فیصد نے محمود عباس ،جبکہ 16 فیصد نے کوئی رائے ظاہر کرنے سے انکار کر دیا-
دوسری جانب اسرائیل معاشی ناکہ بندی کی وجہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے میزائل حملے قرار دیتا ہے- تل ابیب کادعوی ہے کہ غزہ پر حماس کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا اور مزاحمت کار مقامی سطح پر راکٹ تیار کرنے اور مصر سے اسلحہ اسمگل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں-اسرائیلی خفیہ ادارے’’موساد‘‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مجاہدین کے پاس پانچ ہزار سے زائد راکٹ تیار حالت میں موجود ہیں جبکہ مختلف عسکری تنظیموں نے گزشتہ ایک بر س میں بیس ہزارجنگجوؤں کو ٹریننگ دی-
بہر کیف اسرائیلی کی مسلط کردہ جنگ کا سبب کچھ بھی ہویہ واضح ہے کہ غزہ کے شہری اب مزید کسی بحران کے متحمل نہیں ہو سکتے- اسرائیل غزہ پر کسی بڑے اور فیصلہ کن حملے کی تیاری کر رہا کثیرآبادی کے اس شہر میں انسانی جانوں کے ضیاع اور بڑے پیمانے پر مادی و معنوی نقصان کا باعث بن سکتاہے-اسرائیلی فوج کی جنگی کارروائیوں کے تسلسل سے ایسا لگ رہا ہے فوج حماس پر پسپائی اختیار کرنے کے لیے دباؤ بڑھارہی ہے اور حماس اپنے موقف پر قائم رہی حالات کوئی بھی سنگین صورت اختیار کر سکتے ہیں-
صدر بش کی آمد جلتی پہ تیل ڈالنے یا پانی بہانے کا باعث بنے گا:
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اپنے دور حکمرانی کے آخری برس جس بے تابی سے مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے ہلکان دکھائی دیتے ہیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اب صرف مسئلہ فلسطین کا غم کھائے جارہا ہے اور ا س باب میں ان کی کاوشوں سے فلسطین کے دیرینہ تنازع کا حل اب چند دنوں کی بات رہ گئی ہے-ان کے حالیہ دورہ مشرق وسطی پیچھے بھی سب سے اہم ہدف یہی تنازع دکھائی دے رہا ہے-لیکن فی الواقع ان کی مشرق وسطی آمد و رفت محض فلسطین اسرائیل تنازع کے تک محدود نہیں بلکہ اس دورے کے دو دیگر مقاصد ایران کے خلاف عرب ممالک کے تعاون کا حصول اور عرب ممالک خصوصا سعودی عرب سے تیل کی قیمتوں میں کمی کی درخواست کرنا بھی تھے-ان تینوں اہداف کے نتائج تک پہنچنے کے لیے فی الحال وقت در کار ہے ، تاہم معروضی حالات یہ بتاتے ہیں صدر بش اپنے اپنے دور حکومت کے آخر میں عرب ممالک کی جانب سے مایوس ہو کر واپس ہوئے ہیں-
جہاں تک مسئلہ فلسطین کے لیے صدر بش کی کوششوں کا تعلق ہے،ان کے دعوے ایک جانب ،زمینی حقائق کے پیش نظر اب بھی دور دور تک مسئلے کے حل اور خطے میں پائیدار امن کے امکانات کی کوئی قندیل روشن نظر نہیں آتی – صدر بش نے اپنے مرتب کردہ خاکوں میں رنگ بھرنے اور نومبر2007 ء میں ہونے والی امن کانفرنس کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنے دور اقتدار کا مشرق وسطی کے لیے طویل ترین دورہ کرکے واپس جا چکے ہیں- ایک ہفتے پر مشتمل سفرکے دوران سب سے پہلے ان کی ملاقات اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ سے تھی- اسرائیلی وزیر اعظم انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کر دے تاکہ آزاد فلسطینی ریاست کی داغ بیل ڈالی جا سکے- انہوں نے امن عمل آگے بڑھانے کے لیے جنرل ولیم فریزر کی سربراہی میں ایک سہ رکنی کمیشن بھی قائم کرنے کا اعلان کیا – صدر بش نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین دونو کو خطے میں قیام امن کے لیے تلخ فیصلے کرنا ہوں گے اور اب وقت آگیا ہے کہ دونوں حکومتیں آزمائش کی اس گھڑی میں فیصلہ کرگزریں- فلسطین لازمی طور پر فلسطینیوں کی سر زمین اور اسرائیل یہودیوں کی سرزمین ہونی چاہیے- مسئلہ فلسطین حل کرنے کی فریقین کی کوششیں حوصلہ افزاء ہیں تاہم اس سلسلے میں اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کہ فلسطینیوں کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے- اس دوران انہوں نے اپنے فلسطینی ہم منصب محمود عباس سے رام اللہ میں ملاقات کی اورن سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطین سے مزاحمت کے خاتمے کے لیے ٹھوس قدم اٹھائیں تاکہ اسرائیل کو اعتماد میں لے کر امن عمل آگے بڑھایا جا سکے-
فتح پارٹی کے ملک بدر راہنما فاروق قدومی اس دورے کے بارے میں یوں تبصرہ کرتے ہیں -’’جہاں تک اسرائیل سے مقبوضہ علاقے خالی کرانے کے مطالبے کا تعلق ہے تو اس کی کوئی وضاحت موجود نہیں کہ اسرائیل کون سے مقبوضہ علاقے خالی کرے جنہیں فلسطینی ریاست میں شامل کیا جا سکے- فلسطینی اتھارٹی جن علاقوں سے انخلاء کے بارے میں فلسطینی اتھارٹی زور دیتی آئی ہے ، ان میں غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس شامل ہیں، جبکہ اسرائیل ان دونوں علاقوں سے نہ صرف انخلاء کے کسی منصوبے پر عمل درآمد سے گریزاں ہے بلکہ دونوں متنازعہ علاقوں میں مزید یہودی آباد کاری کررہا ہے-
ایسے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدر بش کا آزاد فلسطینی ریاست کا تصور بھی محض ایک خیالی پلاؤ ہے-امریکہ اسرائیل سے اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں کر پایا- قیام امن کے لیے انہوں نے دوسرا مطالبہ صدر محمود عباس سے کیا ہے وہ فلسطین سے عسکریت پسندی کا خاتمہ کریں- فلسطین کی تحریک آزادی جسے اسرائیل ایٹمی قوت ہو کر ختم نہیں کر سکا، تنہا محمود عباس کے لیے کیسے ممکن ہو گا کہ وہ پورے تمام فلسطینیوں کے دلوں میں یہودیوں کی محبت پیدا کریں، جبکہ اسرائیلی بمباری سے روزانہ ان کے گھروں سے لاشیں اٹھتی ہوں ایسے میں فلسطینیوں کے دلوں میں نرم گوشہ کیسے پیدا کیا جاسکتاہے؟- امریکہ ماضـی میں بھی دونوں ریاستوں کے قیادت سے اسی طرح کے مطالبات کرتا رہا ہے، تاہم اس کا کوئی مثبت نتیجہ اب تک سامنے نہیں آسکا‘‘-
2000ء میں سابق امریکہ صدر بل کلنٹن نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ’’ فلسطین روڈ میپ‘‘ کے نام سے ایک فارمولہ پیش کیا اور اس پر ببانگ دھل عمل درآمد کرانے کی کوششیں شروع کیں- ان کا دعوی تھا کہ یہ مسئلہ ان کے دور صدارت میں حل ہو جائے گا اور آزا د فلسطینی ریاست کاقیام ان کا سنہری کارنامہ ہو گا – ان کے بعد صدر جار ج بش نے زمام کار سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ وہ ایک برس کے اندر اندر مسئلہ فلسطین کا حل نکال لیں گے -لیکن آٹھ برس بیت جانے کے بعد بھی صدر بش کا یہ دعوی فی الحال ایک زبانی دعوے کے اور کچھ نہیں-
سوال یہ ہے کہ امریکہ کی آج تک کی جانے والی کوششیں کیوں رائیگا جارہی ہیں اور ایسا کونسا محرک ہے جو امریکی کوششوں کی تکمیل میں رکاوٹ بنا ہوا ہے- اس سوال کا جواب مصری وزیر خارجہ احمد ابو لغیط نے بڑے احسن انداز میں دیا ہے-انہوں نے کہاکہ اگر امریکہ اپنی کوششوں کو پایہ تکمیل تک پہنچتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے تو اسے دو اہم امور پر غور کرنا ہو گا-
1- امریکہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کو ایک نظر سے دیکھے-قیام امن اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے صرف مطالبات تک محدود نہ رہے بلکہ اسرائیل عمل درآمد پر مجبور کرے-2- دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس وقت تک امریکی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک فلسطین میں اسرائیل مخالف جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا- بد قسمتی سے آج تک قیام امن کی کوششوں میں نہ صرف فلسطینی عوام کی تمام نمائندہ جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیاگیا بلکہ عرب ممالک اور امت مسلم ممالک سے بھی کوئی صلاح مشورہ نہیں کیا گیا- قیام امن کا راستہ فلسطینی عوام کے اندر سے ہو کر گزرتا ہے، وہ لوگ جن کے لیے الگ ریاست کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے اگر انہیں ان کی مرضی کی ریاست نہیں مل پاتی تو جنگ و جدل کا سلسلہ پھر بھی جاری رہے گا –
صدر بش کے حالیہ دورے کے حوالے سے فتح پارٹی کے گروپ کے علاوہ فلسطین کی دیگر جماعتوں کے موقف میں یکسانیت پائی جاتی ہے- تمام عسکری اور سیاسی جماعتیں اس نکتے پر متفق ہیں کہ صدر بش کے فلسطین آمد سے فلسطینی عوام کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے-حماس، جہاد اسلامی اور فلسطین پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ وغیرہ نے صدر بش کے دورے کو محض ایک فریب قرار دیا –
دوسری جانب اسرائیلی محکمہ خارجہ کی طرف سے حال ہی میں جاری ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش مشرق وسطی میں اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہو چکے ہیں- انہوں نے جس طرح اپنے مقاصد کا تعین کیاتھا، اب تک اس پر کسی بھی پہلو سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی-رپورٹ میں کہاگیا کہ بش انتظامیہ خطے میں قیام امن ، فلسطین اسرائیل کے درمیان مفاہمت اور ایران کے خلاف فیصلہ کن عسکری کارروائی یا موثر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے میں ناکام ہو چکی ہے- 2008ء صدر بش کے دور صدارت کا آخری سال ہے اور اب صدر بش اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں- رپورٹ میں کہاگیا کہ امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عسکریت پسندی کے خاتمے کی کوششوں میں ناکامی کی وجہ سے حماس اور دیگر اسلام پسند گروپوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے، جبکہ ایران بھی اپنے جوہری پروگرام میں مزید تیزی لا رہا ہے-فلسطین میں فتح پارٹی کے انتشار کے باعث بھی اسرائیلی و امریکی اہداف پورے نہیں ہو پائے-
جارج بش ہفتہ بھر کے سفر حاصل وصول کیا ہوا، اس بارے میں خود امریکی بھی کچھ زیادہ دل خوش کن قیاس آرائیاں نہیں کر تے دکھائے دیتے- امریکی صدر کی واپسی کے ساتھ ہی ایک وزارت دفاع کے ایک اعلی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک عربی اخبار کو تباتے ہوئے اعتراف کیا کہ صدر بش دورے کے طے شدہ مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں-خود امریکی اپوزیشن جماعتوں اور ہلیری کلنٹن کی جانب سے صدربش کے دورہ مشرق وسطی کو سختی سے تنقید کا نشانہ بنایاگیا-
غزہ ایک نظر میں
مصر اور بحر ابیض کے درمیان 375 مربع کلو میٹر طویل پٹی نماجزیرہ ’’غزہ کی پٹی ‘‘ کے نام سے مشہور ہے- آبادی کے اعتبار سے یہ دنیا سب سے گنجان آباد شہر ہے، جس کی کل آبادی 15 لاکھ سے زائد ہے -شہر میں26400 افراد فی مربع کلو میٹر آباد ہیں-شہر میں موجود پانچ مہاجر کیمپوں میں دو لاکھ فلسطینی آباد ہیں، جواہل شہر کی معیشت پر گراں بار ہیں-غزہ تاریخی اعتبار سے بھی اہم حیثیت کا حامل رہا ہے-
اسلام سے قبل یہ مصری بادشاہوں کا جنگی تیاریوں کا اڈاہوتا تھا- مشہور مصری بادشاہ دثیتموزی ثالث نے پندرہ قبل مسیح میں اسے شام کے ساتھ جنگ کے لیے اڈے کے طورپر استعمال کیا-آٹھ قبل مسیح میں یہ آشوریوں کے تسلط میں آگیا اس کے بعد مسلسل مصر کا حصہ رہا- ساتویں صدی عیسوی میں یہ خلافت اسلامیہ کے زیر نگیں آیا-1917ء میں پہلی عالمی جنگ کے دوران غزہ پر برطانوی جنرل اڈمونڈ ہنری ھینمان نے فوج کشی کر کے ترکی کی خلافت سے الگ کر لیا- 1947 ء کے تقسیم فلسطین کے اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق اسے آزاد عرب علاقہ قرار دیاگیا، جبکہ1948ء کے قیام اسرائیل کے دوران جنگ میں اس پر مصر نے قبضہ کر لیا-قیام اسرائیل کے بعد دیگر مقبوضہ علاقوں سے لاکھوں فلسطینی نقل مکانی کر کے غزہ میں پناہ گزیں ہوئے-
1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے اپنے تسلط میں لے لیا- 1993 کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مئی1994ء میں اسرائیلی فوجیں غزہ سے نکل گئیں تاہم یہاں پر چودہ مقامات پر غیر قانونی طور پر یہودی بستیاں تعمیر کی گئیں- 2005ء میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم ارئیل شیرون نے غزہ سے یہودی بستیوں کے انخلاء کا اعلان کیا اور 7781 یہودیوں کو غزہ سے دوسرے علاقوں میں منتقل کردیاگیا-2006ء کے شروع میں فلسطین میں مجلس قانون ساز کے انتخابات ہوئے جن میں اسرائیل مخالف جماعت حماس نے دوتہائی اکثریت حاصل کر کے حکومت بنائی- اسرائیل نے حماس حکومت تسلیم کرنے سے انکار کردیا- جون2007ء میں حماس اور الفتح کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور نوبت خانہ جنگی تک جاپہنچی- چنانچہ حماس نے فتح کے شدت پسند اور باغی عناصر کو غزہ سے نکال باہر کیا- اسی دوران اسرائیل نے حماس کے خلاف دائرہ تنگ کرنے کے لیے معاشی ناکہ بندی مسلط کی، جو تاحال قائم ہے-
امیر ترین عرب دنیا کے قلب میں واقع اس کے شہر کے باسیوں بے بسی اور کسمپرسی داستان نہایت المناک ہے -مسائلستان کی اس وادی کی مشکلات کا سبب گزشتہ آٹھ ماہ سے مسلط کردہ اسرائیلی معاشی ناکہ بندی ہے-جون2007 ء میں شہر کا کنٹرول اسلامی تحریک مزاحمت(حماس کے پاس آنے کے بعد اسرائیل نے بیرونی دنیا سے ملانے والے تمام راستے بند کرتے ہوئے فلسطینی اتھارٹی کو واجب الادا ٹیکس کی روقوم بھی روک لیں، جس کے بعد ہر آنے والادن اہل غزہ کے موت اور بھوک میں اضافے کا باعث بنتا گیا- معاشی طور پر مفلوج کر دینے والی ناکہ بندی کے باعث شہر میں موت کا راج ہے-ہسپتالوں میں کئی ماہ سے ایمر جنسی نافذ ہے- اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق غزہ کے پانچ بڑے ہسپتالوں میں کم ازکم پانچ ہزار افراد زیر علاج ہیں، جن میں سے ایک ہزار افراد کے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی تجاویز دی جا چکی ہیں، راستوں کی بندش اور بیرون ملک علاج کی سہولت نہ ملنے کے باعث مریض 70 زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں، جبکہ کینسر، ہیپاٹئٹس، گردوں ـ، امراض قلب اور جلد کے مہلک امراض کی وجہ سے بیشتر مریضوں کی حالت خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے-
غزہ کے ڈیڑھ ملین سے زائد آباد ی کے اس شہر کے روزانہ کم از کم2 لاکھ ٹن خوراک کے ذخیرے کی ضـرورت ہوتی ہے، جبکہ گزشتہ نصف برس سے زائد عرصے کے دوران مطلوبہ مقدار کا دسواں حصہ بھی غزہ نہیں پہنچ پارہا-حال ہی میں فلسطینی محکمہ شماریات ڈویژن کے جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق غزہ میں فی کس آمدنی صرف ساٹھ سے ستر ڈالر تک رہ گئی ہے، 2006 ء میں فی کس شرح آمدنی اڑھائی سو سے زیادہ تھی-غربت کی سطح دو سال قبل30فیصد تھی، اب بڑھ کر70 فیصد ہو چکی ہے- اشیاء خوردنوش کی قلت کے باعث شہری دن بھر میں صرف ایک وقت کا کھانا بھی مہیا نہیں کر پاتے-
فلسطینی پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کے ادارے’’اونروا‘‘ نے غزہ کی راہداریوں پراسرائیلی فوج کی موجودگی اور اشیائے خوردونوش اور ادویات کی غزہ داخلے میں رکاوٹ پرسخت احتجاج کیا- غزہ کے دورے کے دوران اونروا کے ڈائریکٹر نے کہا کہ اسرائیلی حکام کی رکاوٹوں کی وجہ سے عالمی ادارے کو شہریوں کے علاج معالجے اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں سخت مشکلات کا سامنا ہے-غزہ شہر میں داخلے کے لیے اہم بیرونی راستوں، رفح کراسنگ پوائنٹ، کرم ابو سالم کراسنگ پوائنٹ اور المنطار کراسنگ پوائنٹ جیسے اہم مقامات پر سامان خوردونوش کے ذخیرے موجود ہیں جو خراب ہو رہے ہیں-حال ہی میں قطر اور سعودی عرب کی جانب سے غزہ کے لیے بھیجے گئے امدادی سامان کے ٹرک رفح کراسنگ پوائنٹ کے دوسری طرف کئی دن تک کھڑے رہے ، انہیں فلسطین میں داخل نہ ہونے دیا گیا ، بعدازاں وہ سامان واپس کردیاگیا- عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں جب باہر سے سامان کی آمد بند ہے اور مقامی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے شہریوں کے مسائل کو دو چند ہو گئے ہیں-
غرب اردن اور عسقلان سے غزہ کے لیے بجلی کی چار سپلائی لائنیں کام کر رہی ہیں- ان کے علاوہ شہر میں مقامی سطح پر بجلی تیار کرنے کے متعددپلانٹ بھی لگائے گئے ہیں، ان کارخانوں کے لیے ایندھن کی سپلائی مقبوضہ علاقوں ہی سے کی جاتی ہے-معاشی ناکہ بندی کے بعد اب تک اسرائیل ایک درجن سے زائد مرتبہ غزہ کی بجلی اور ایندھن بند کر چکا ہے، جس کی وجہ سے کئی کئی دن تک شہر اندھیرے میں ڈوبا رہتا ہے-حال ہی میں ایندھن اور بجلی کی سپلائی روکنے پر پوری دنیا میں اسرائیل پر تنقید کی گئی -عالمی تنقید کے بعد اسرائیل نے جزوی طور پر بجلی بحال کی- غزہ کی بجلی کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے کہا کہ بجلی کی بندش کی وجہ غزہ کے شہریوں کا حماس سے تعاون کرنا ہے- غزہ کی پٹی میں رہنے والے اگر اسرائیل سے تعاون چاہتے ہیں تو حماس کے خلاف بغاوت کر دیں بصورت دیگر معاشی ناکہ بندی اور فوجی کارروائی کا سلسلہ جاری رہے گا –
اہل غزہ خوراک کی قلت اور کثرت امرض کے علاوہ امن و امان کے فقدان کابھی شکار ہیں- اسرائیل فوج کے روزانہ حملوں اور بمباری نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے- غزہ کے ہر خاندان سے جنازے اٹھ رہے ہیں اور صف ماتم بچھی ہوئی ہے- اسرائیلی انسانی حقوق کے ایک ادارے ’’بستلیم ‘‘نے اعتراف کیا ہے کہ قابض فوج نے گزشتہ چند ماہ کے دوران غزہ میں انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزیاں کیں – بے گناہ شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا- غزہ میں شادی کی ایک تقریب پر حملے میں حال ہی میں کئی خواتین اور بچوں کی شہادت فوج کی بد نام زمانہ کارروائیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے-
اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے علاوہ خانہ جنگی بھی اور حماس فتح لڑائی مستقل روگ ہے-گزشتہ دو برس سے حماس اور فتح کے درمیان کشیدگی سے پیدا ہونے والا یہ طوفان کئی قیمتی جانیں نگل چکا ہے-
غزہ کے بیشتر شہری ملازم پیشہ ہیں، جن کی تنخواہیں فلسطینی اتھارٹی اور صدر محمود عباس کے براہ راست کنٹرول میں ہیں-گزشتہ آٹھ ماہ سے اتھارٹی نے غزہ کے بیس ہزارملازمین کی تنخواہیں روک رکھی ہیں-تنخواہوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے صحت، تعلیم،سکیورٹی سے متعلق اداروں کے ہزاروں افراد کئی بار فلسطینی اتھارٹی کے خلاف احتجاج کر چکے ہے-
یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ اسرائیل کی مسلط کردہ ناکہ بندی، قتل وغارت گری اور مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باوجود حماس کی عوامی مقبولیت میں نہ صرف کوئی کمی نہیں آئی بلکہ الٹا اسرائیل کے خلاف غیض وغضب بڑھتا جارہا ہے- بزور طاقت مزاحمت کچلنے کا اسرائیلی خواب بھی چکنا چور ہوتادکھائی دے رہا ہے- حال ہی میں عرب خبر رساں ادارے’’ قدس پریس‘‘ نے محمودعباس اور اسماعیل ھنیہ کی مقبولیت کے حوالے سے ایک عوامی سروے کا اہتمام کیا-فلسطینی شہریوں تک محدوداس سروے میں64 فیصدرائے دہندگان نے اسماعیل ھنیہ کی حمایت کی20 فیصد نے محمود عباس ،جبکہ 16 فیصد نے کوئی رائے ظاہر کرنے سے انکار کر دیا-
دوسری جانب اسرائیل معاشی ناکہ بندی کی وجہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے میزائل حملے قرار دیتا ہے- تل ابیب کادعوی ہے کہ غزہ پر حماس کے کنٹرول سنبھالنے کے بعد عسکریت پسندی میں اضافہ ہوا اور مزاحمت کار مقامی سطح پر راکٹ تیار کرنے اور مصر سے اسلحہ اسمگل کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں-اسرائیلی خفیہ ادارے’’موساد‘‘ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مجاہدین کے پاس پانچ ہزار سے زائد راکٹ تیار حالت میں موجود ہیں جبکہ مختلف عسکری تنظیموں نے گزشتہ ایک بر س میں بیس ہزارجنگجوؤں کو ٹریننگ دی-
بہر کیف اسرائیلی کی مسلط کردہ جنگ کا سبب کچھ بھی ہویہ واضح ہے کہ غزہ کے شہری اب مزید کسی بحران کے متحمل نہیں ہو سکتے- اسرائیل غزہ پر کسی بڑے اور فیصلہ کن حملے کی تیاری کر رہا کثیرآبادی کے اس شہر میں انسانی جانوں کے ضیاع اور بڑے پیمانے پر مادی و معنوی نقصان کا باعث بن سکتاہے-اسرائیلی فوج کی جنگی کارروائیوں کے تسلسل سے ایسا لگ رہا ہے فوج حماس پر پسپائی اختیار کرنے کے لیے دباؤ بڑھارہی ہے اور حماس اپنے موقف پر قائم رہی حالات کوئی بھی سنگین صورت اختیار کر سکتے ہیں-
صدر بش کی آمد جلتی پہ تیل ڈالنے یا پانی بہانے کا باعث بنے گا:
امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اپنے دور حکمرانی کے آخری برس جس بے تابی سے مشرق وسطی میں قیام امن کے لیے ہلکان دکھائی دیتے ہیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ انہیں اب صرف مسئلہ فلسطین کا غم کھائے جارہا ہے اور ا س باب میں ان کی کاوشوں سے فلسطین کے دیرینہ تنازع کا حل اب چند دنوں کی بات رہ گئی ہے-ان کے حالیہ دورہ مشرق وسطی پیچھے بھی سب سے اہم ہدف یہی تنازع دکھائی دے رہا ہے-لیکن فی الواقع ان کی مشرق وسطی آمد و رفت محض فلسطین اسرائیل تنازع کے تک محدود نہیں بلکہ اس دورے کے دو دیگر مقاصد ایران کے خلاف عرب ممالک کے تعاون کا حصول اور عرب ممالک خصوصا سعودی عرب سے تیل کی قیمتوں میں کمی کی درخواست کرنا بھی تھے-ان تینوں اہداف کے نتائج تک پہنچنے کے لیے فی الحال وقت در کار ہے ، تاہم معروضی حالات یہ بتاتے ہیں صدر بش اپنے اپنے دور حکومت کے آخر میں عرب ممالک کی جانب سے مایوس ہو کر واپس ہوئے ہیں-
جہاں تک مسئلہ فلسطین کے لیے صدر بش کی کوششوں کا تعلق ہے،ان کے دعوے ایک جانب ،زمینی حقائق کے پیش نظر اب بھی دور دور تک مسئلے کے حل اور خطے میں پائیدار امن کے امکانات کی کوئی قندیل روشن نظر نہیں آتی – صدر بش نے اپنے مرتب کردہ خاکوں میں رنگ بھرنے اور نومبر2007 ء میں ہونے والی امن کانفرنس کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنے دور اقتدار کا مشرق وسطی کے لیے طویل ترین دورہ کرکے واپس جا چکے ہیں- ایک ہفتے پر مشتمل سفرکے دوران سب سے پہلے ان کی ملاقات اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ سے تھی- اسرائیلی وزیر اعظم انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل مقبوضہ فلسطینی علاقے خالی کر دے تاکہ آزاد فلسطینی ریاست کی داغ بیل ڈالی جا سکے- انہوں نے امن عمل آگے بڑھانے کے لیے جنرل ولیم فریزر کی سربراہی میں ایک سہ رکنی کمیشن بھی قائم کرنے کا اعلان کیا – صدر بش نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطین دونو کو خطے میں قیام امن کے لیے تلخ فیصلے کرنا ہوں گے اور اب وقت آگیا ہے کہ دونوں حکومتیں آزمائش کی اس گھڑی میں فیصلہ کرگزریں- فلسطین لازمی طور پر فلسطینیوں کی سر زمین اور اسرائیل یہودیوں کی سرزمین ہونی چاہیے- مسئلہ فلسطین حل کرنے کی فریقین کی کوششیں حوصلہ افزاء ہیں تاہم اس سلسلے میں اس امر کا خاص خیال رکھا جائے کہ فلسطینیوں کے مفادات کو نقصان نہ پہنچے- اس دوران انہوں نے اپنے فلسطینی ہم منصب محمود عباس سے رام اللہ میں ملاقات کی اورن سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطین سے مزاحمت کے خاتمے کے لیے ٹھوس قدم اٹھائیں تاکہ اسرائیل کو اعتماد میں لے کر امن عمل آگے بڑھایا جا سکے-
فتح پارٹی کے ملک بدر راہنما فاروق قدومی اس دورے کے بارے میں یوں تبصرہ کرتے ہیں -’’جہاں تک اسرائیل سے مقبوضہ علاقے خالی کرانے کے مطالبے کا تعلق ہے تو اس کی کوئی وضاحت موجود نہیں کہ اسرائیل کون سے مقبوضہ علاقے خالی کرے جنہیں فلسطینی ریاست میں شامل کیا جا سکے- فلسطینی اتھارٹی جن علاقوں سے انخلاء کے بارے میں فلسطینی اتھارٹی زور دیتی آئی ہے ، ان میں غرب اردن اور مقبوضہ بیت المقدس شامل ہیں، جبکہ اسرائیل ان دونوں علاقوں سے نہ صرف انخلاء کے کسی منصوبے پر عمل درآمد سے گریزاں ہے بلکہ دونوں متنازعہ علاقوں میں مزید یہودی آباد کاری کررہا ہے-
ایسے میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدر بش کا آزاد فلسطینی ریاست کا تصور بھی محض ایک خیالی پلاؤ ہے-امریکہ اسرائیل سے اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں کر پایا- قیام امن کے لیے انہوں نے دوسرا مطالبہ صدر محمود عباس سے کیا ہے وہ فلسطین سے عسکریت پسندی کا خاتمہ کریں- فلسطین کی تحریک آزادی جسے اسرائیل ایٹمی قوت ہو کر ختم نہیں کر سکا، تنہا محمود عباس کے لیے کیسے ممکن ہو گا کہ وہ پورے تمام فلسطینیوں کے دلوں میں یہودیوں کی محبت پیدا کریں، جبکہ اسرائیلی بمباری سے روزانہ ان کے گھروں سے لاشیں اٹھتی ہوں ایسے میں فلسطینیوں کے دلوں میں نرم گوشہ کیسے پیدا کیا جاسکتاہے؟- امریکہ ماضـی میں بھی دونوں ریاستوں کے قیادت سے اسی طرح کے مطالبات کرتا رہا ہے، تاہم اس کا کوئی مثبت نتیجہ اب تک سامنے نہیں آسکا‘‘-
2000ء میں سابق امریکہ صدر بل کلنٹن نے فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے ’’ فلسطین روڈ میپ‘‘ کے نام سے ایک فارمولہ پیش کیا اور اس پر ببانگ دھل عمل درآمد کرانے کی کوششیں شروع کیں- ان کا دعوی تھا کہ یہ مسئلہ ان کے دور صدارت میں حل ہو جائے گا اور آزا د فلسطینی ریاست کاقیام ان کا سنہری کارنامہ ہو گا – ان کے بعد صدر جار ج بش نے زمام کار سنبھالتے ہی اعلان کیا کہ وہ ایک برس کے اندر اندر مسئلہ فلسطین کا حل نکال لیں گے -لیکن آٹھ برس بیت جانے کے بعد بھی صدر بش کا یہ دعوی فی الحال ایک زبانی دعوے کے اور کچھ نہیں-
سوال یہ ہے کہ امریکہ کی آج تک کی جانے والی کوششیں کیوں رائیگا جارہی ہیں اور ایسا کونسا محرک ہے جو امریکی کوششوں کی تکمیل میں رکاوٹ بنا ہوا ہے- اس سوال کا جواب مصری وزیر خارجہ احمد ابو لغیط نے بڑے احسن انداز میں دیا ہے-انہوں نے کہاکہ اگر امریکہ اپنی کوششوں کو پایہ تکمیل تک پہنچتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے تو اسے دو اہم امور پر غور کرنا ہو گا-
1- امریکہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کو ایک نظر سے دیکھے-قیام امن اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے صرف مطالبات تک محدود نہ رہے بلکہ اسرائیل عمل درآمد پر مجبور کرے-2- دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس وقت تک امریکی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک فلسطین میں اسرائیل مخالف جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا- بد قسمتی سے آج تک قیام امن کی کوششوں میں نہ صرف فلسطینی عوام کی تمام نمائندہ جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیاگیا بلکہ عرب ممالک اور امت مسلم ممالک سے بھی کوئی صلاح مشورہ نہیں کیا گیا- قیام امن کا راستہ فلسطینی عوام کے اندر سے ہو کر گزرتا ہے، وہ لوگ جن کے لیے الگ ریاست کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے اگر انہیں ان کی مرضی کی ریاست نہیں مل پاتی تو جنگ و جدل کا سلسلہ پھر بھی جاری رہے گا –
صدر بش کے حالیہ دورے کے حوالے سے فتح پارٹی کے گروپ کے علاوہ فلسطین کی دیگر جماعتوں کے موقف میں یکسانیت پائی جاتی ہے- تمام عسکری اور سیاسی جماعتیں اس نکتے پر متفق ہیں کہ صدر بش کے فلسطین آمد سے فلسطینی عوام کے مسائل مزید بڑھ جائیں گے-حماس، جہاد اسلامی اور فلسطین پیپلز ڈیموکریٹک فرنٹ وغیرہ نے صدر بش کے دورے کو محض ایک فریب قرار دیا –
دوسری جانب اسرائیلی محکمہ خارجہ کی طرف سے حال ہی میں جاری ایک رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش مشرق وسطی میں اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہو چکے ہیں- انہوں نے جس طرح اپنے مقاصد کا تعین کیاتھا، اب تک اس پر کسی بھی پہلو سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی-رپورٹ میں کہاگیا کہ بش انتظامیہ خطے میں قیام امن ، فلسطین اسرائیل کے درمیان مفاہمت اور ایران کے خلاف فیصلہ کن عسکری کارروائی یا موثر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے میں ناکام ہو چکی ہے- 2008ء صدر بش کے دور صدارت کا آخری سال ہے اور اب صدر بش اپنی ساکھ بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں- رپورٹ میں کہاگیا کہ امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عسکریت پسندی کے خاتمے کی کوششوں میں ناکامی کی وجہ سے حماس اور دیگر اسلام پسند گروپوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے، جبکہ ایران بھی اپنے جوہری پروگرام میں مزید تیزی لا رہا ہے-فلسطین میں فتح پارٹی کے انتشار کے باعث بھی اسرائیلی و امریکی اہداف پورے نہیں ہو پائے-
جارج بش ہفتہ بھر کے سفر حاصل وصول کیا ہوا، اس بارے میں خود امریکی بھی کچھ زیادہ دل خوش کن قیاس آرائیاں نہیں کر تے دکھائے دیتے- امریکی صدر کی واپسی کے ساتھ ہی ایک وزارت دفاع کے ایک اعلی عہدیدار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک عربی اخبار کو تباتے ہوئے اعتراف کیا کہ صدر بش دورے کے طے شدہ مقاصد کے حصول میں ناکام رہے ہیں-خود امریکی اپوزیشن جماعتوں اور ہلیری کلنٹن کی جانب سے صدربش کے دورہ مشرق وسطی کو سختی سے تنقید کا نشانہ بنایاگیا-
غزہ ایک نظر میں
مصر اور بحر ابیض کے درمیان 375 مربع کلو میٹر طویل پٹی نماجزیرہ ’’غزہ کی پٹی ‘‘ کے نام سے مشہور ہے- آبادی کے اعتبار سے یہ دنیا سب سے گنجان آباد شہر ہے، جس کی کل آبادی 15 لاکھ سے زائد ہے -شہر میں26400 افراد فی مربع کلو میٹر آباد ہیں-شہر میں موجود پانچ مہاجر کیمپوں میں دو لاکھ فلسطینی آباد ہیں، جواہل شہر کی معیشت پر گراں بار ہیں-غزہ تاریخی اعتبار سے بھی اہم حیثیت کا حامل رہا ہے-
اسلام سے قبل یہ مصری بادشاہوں کا جنگی تیاریوں کا اڈاہوتا تھا- مشہور مصری بادشاہ دثیتموزی ثالث نے پندرہ قبل مسیح میں اسے شام کے ساتھ جنگ کے لیے اڈے کے طورپر استعمال کیا-آٹھ قبل مسیح میں یہ آشوریوں کے تسلط میں آگیا اس کے بعد مسلسل مصر کا حصہ رہا- ساتویں صدی عیسوی میں یہ خلافت اسلامیہ کے زیر نگیں آیا-1917ء میں پہلی عالمی جنگ کے دوران غزہ پر برطانوی جنرل اڈمونڈ ہنری ھینمان نے فوج کشی کر کے ترکی کی خلافت سے الگ کر لیا- 1947 ء کے تقسیم فلسطین کے اقوام متحدہ کے فیصلے کے مطابق اسے آزاد عرب علاقہ قرار دیاگیا، جبکہ1948ء کے قیام اسرائیل کے دوران جنگ میں اس پر مصر نے قبضہ کر لیا-قیام اسرائیل کے بعد دیگر مقبوضہ علاقوں سے لاکھوں فلسطینی نقل مکانی کر کے غزہ میں پناہ گزیں ہوئے-
1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے اپنے تسلط میں لے لیا- 1993 کے کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد مئی1994ء میں اسرائیلی فوجیں غزہ سے نکل گئیں تاہم یہاں پر چودہ مقامات پر غیر قانونی طور پر یہودی بستیاں تعمیر کی گئیں- 2005ء میں سابق اسرائیلی وزیر اعظم ارئیل شیرون نے غزہ سے یہودی بستیوں کے انخلاء کا اعلان کیا اور 7781 یہودیوں کو غزہ سے دوسرے علاقوں میں منتقل کردیاگیا-2006ء کے شروع میں فلسطین میں مجلس قانون ساز کے انتخابات ہوئے جن میں اسرائیل مخالف جماعت حماس نے دوتہائی اکثریت حاصل کر کے حکومت بنائی- اسرائیل نے حماس حکومت تسلیم کرنے سے انکار کردیا- جون2007ء میں حماس اور الفتح کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے اور نوبت خانہ جنگی تک جاپہنچی- چنانچہ حماس نے فتح کے شدت پسند اور باغی عناصر کو غزہ سے نکال باہر کیا- اسی دوران اسرائیل نے حماس کے خلاف دائرہ تنگ کرنے کے لیے معاشی ناکہ بندی مسلط کی، جو تاحال قائم ہے-