جمعه 15/نوامبر/2024

’دفاع القدس‘ حکومتوں اور عوام کی ذمہ داریاں!

منگل 26-دسمبر-2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے اعلان کے وقت امریکی انتظامیہ کا گمان تھا کہ اس اعلان کا معمولی رد عمل سامنے آئے گا۔ مگر امریکی یہ بھول گئے کہ عالم اسلام میں ٹرمپ کے اعلان کا شدید رد عمل  معرکہ القدس کے دفاع کا حصہ ہے۔

اسلامی سربراہ کانفرنس

بیت المقدس کے حوالے سے اسلامی تعاون تنظیم ’او آئی سی‘ کے کندھوں پر بھاری اخلاقی اور آئینی ذمہ داریاں  عاید ہوتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ او آئی سی کا قیام بھی ہے کیونکہ تمام مسلمان ملکوں کی یہ نمائندہ تنظیم سنہ 1969ء میں مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی کے سانحے کے بعد قائم کی گئی۔ پہلے اس کا نام اسلامی کانفرنس تنظیم رکھا گیا۔ آج القدس جن خطرناک  اور گھمبیر حالات سے دوچار ہے، اس کے قضیہ فلسطین کے مستقبل پربھی گہرے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایسے میں استنبول میں ہونے والی حالیہ اسلامی سربراہ کانفرنس کی توقعات بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اگرچہ اسلامی تعاون تنظیم اور اس کی ذیلی تنظیموں اور دیگر اس جیسے اداروں کا ’ٹریک ریکارڈ‘ کوئی تسلی بخش نہیں رہا ہے اور عالمی سطح پر یہ تنظیم فلسطینی قوم کے حقوق یا دنیا کے دوسرے خطوں میں مسلمانوں کے مسائل اور تنازعات کے حل میں کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکی ہے۔

حسب توقع استنبول میں ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس میں علامتی سیاسی قراردادیں منظور کی گئیں جب میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان القدس کو مسترد کرتے ہوئے ان سے فیصلے پر نظرثانی پر زور دیا گیا۔ اس قرارداد میں آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت اور مشرقی القدس کو اس کا دارالحکومت بنانے کا اعلان بھی کیا گیا مگر عملی طورپر ٹرمپ انتظامیہ پر دباؤ ڈالنے کا کوئی لائحہ عمل سامنے نہیں آیا، حالانکہ ’او آئی سی‘ امریکا پر سیاسی، سفارتی اور اقتصادی دباؤ ڈال سکتی ہے۔

ایسا نہ ہونے کے ٹھوس اسباب ومحرکات ہیں۔ سب سے بڑا محرک تو او آئی سی کے ارکان میں پایا جانے والا جمود اور مجرمانہ تساہل ہے۔ اس کے علاوہ تنظیم کے رکن ممالک میں پائے جانے والےباہمی اختلافات، سعودی عرب اور مصر جیسے ممالک کی کمزور نمائندگی، امریکا کے غیض وغضب کا خوف یا ترکی کے حوالےسے منفی موقف ایک ہی چھت تلے جمع ہونے والوں کو کوئی موثر فیصلہ کرنے کے لیے حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔

استنبول میں منعقدہ او آئی سی سربراہ کانفرنس میں منظور ہونے والی قراردادیں اپنے عمل درآمد کے لیے گراؤنڈ مانگتی اور عملی اقدامات کے لیے جرات مندانہ موقف کی متقاضی ہیں۔ ان قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے انفرادی اور اجتماعی، قومی، سرکاری، علاقائی اور عالمی سطح پر ہرمحاذ پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ او آئی سی  اور اسلامی برادری کو اپنی بعض قراردادوں کی اصلاح کی اشد ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر بار بار ’مشرقی بیت المقدس‘ کی اصطلاح استعمال کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے کیونکہ جب فلسطینی مملکت کے دارالحکومت کے لیے مشرقی بیت المقدس کی بات کی جاتی ہے تو ضمنا ہم مغربی بیت المقدس سے اسرائیل کے حق میں دستر بردار ہوجاتے ہیں۔ پوری فلسطینی قوم نے القدس کی مغربی اور مشرقی تقسیم کو بلا جواز اور ان کے قومی اور دیرینہ حقوق کی تنقیص قرار دیا ہے۔

استنبول کانفرنس مین عالمی سلامتی کونسل سے بھی القدس کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کو کہا گیا اور واضح کیا گیا کہ اگر سلامتی کونسل نے اپنا کام نہ کیا تو یہ معاملہ جنرل اسمبلی میں جائے گا۔ بالآخر وہی ہوا۔ امریکا نے سلامتی کونسل میں مصر کی جانب سے پیش کی گئی ایک لولی لنگڑی قرارداد اسرائیل کے حق میں ویٹو کردی۔ اس کے بعد ’ہم سب امن کے لیے متحد ہیں‘ کے عنوان سے جنرل اسمبلی کی قرارداد 377  مجریہ 1950کے فقرہ’اے‘ کے مطابق نئی میں قراردادپیش کی گئی۔ سلامتی کونسل میں قرارداد کی ناکامی کے چوبیس گھنٹے کے بعد کوریا کے بحران پرہنگامی اجلاس بلایا گیا۔ چونکہ کوریا کی وجہ سے عالمی امن یا کسی بڑی جارحیت کا خطرہ تھا اس لیے سلامتی کونسل کسی مستقل رکن کے خلاف منفی رائے شماری کی متحمل نہیں تھی۔

عرب  اور مسلمان ممالک کو اس امر کا بہ خوبی ادراک ہےکہ ڈونلڈ کے اعلان القدس کے مقدس شہر اور قضیہ فلسطین کے مستقبل پرتباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ القدس عرب اور اسلامی ممالک کی قومی سلامتی کی پہلی دیوار ہے۔ ایسے میں اجتماعی تنظیموں کی چھت بھی بھاری بیورو کریسی کے نتیجے میں دبی ہوئی اور ان اداروں کی کمر بھی جھک چکی ہے۔ ایسے میں تمام ممالک کو آپس میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔امریکا کے ساتھ تعلقات یا اسرائیل سے سفارتی مراسم کی بناء پر کسی مسلمان یا عرب ملکو کو قضیہ فلسطین اور القدس کے معاملے میں استثنیٰ نہیں دیا جاسکتا۔

عوام کا کردار

القدس کے معاملے میں عرب اور مسلمان حکومتوں کی سطح پر کوئی خوش خبری نہیں آئی۔ حالیہ امکانات اور اعدادو شمار کے مطابق مسلم دنیا امریکا جیسی سپر پاور کا مقابلہ کرنے کی سکت نہیں۔ حتیٰ کہ جنرل اسمبلی سے منظور ہونے والی قرارداد کا بھی عملا کوئی خاص اثر پڑتا دکھائی نہیں دیتا۔ طاقت کے توازن خلل اور موثر ممالک کے عزم کی کمزوری کے نتیجے میں ہمیں القدس کے معاملے میں کوئی اچھی خبر نہیں سنا سکتی۔

تاہم سرکاری سطح پر اگر کہیں جاندار موقف سامنے آیا تو وہ فلسطینی اتھارٹی کا ہے جس نے عملا امریکی اقدامات کو مسترد کرتے ہوئے امریکیوں سے ہرطرح کے رابطےت معطل کردیے ہیں۔ موجودہ حالات میں فلسطینی اتھارٹی نہ 1993ء سے پہلے والے حالات سے گذر رہی ہے۔ اوسلو معاہدے کے بعد قضیہ فلسطین ساںحات سے گذرا ہے، مگر یہ سانحات سرائیل سے سیکیورٹی تعاون روکنے یا فلسطینی مزاحمتی کارکنوں کے گرد گھیرا نرم کرنے  اور عالمی سیاسی اور قانونی میدان میں سرگرمی سے ختم نہیں ہوں گے۔

القدس کے حوالے سے عوامی اور قومی سطح پر امید کی کوئی کرن ہے تو وہ عرب، مسلمان اور دوسرے ملکوں میں ہونے والا عوامی احتجاج ہے۔

فلسطین کے علاقوں غرب اردن اور القدس میں شروع ہونے والی عوامی غیض وغضب کی لہرکے براہ راست اثرات صہیونی ریاست اور القدس بارے ٹرمپ کے فیصلے پر مرتب ہوں گے۔ فلسطینی اورعالمی سطح پر جاری عوامی احتجاج کی تحریک ہی القدس کا دفاع کرسکتی ہے۔

اس سے قبل دوسری تحریک انتفاضہ کے دوران صہیونی ریاست کو اپنی کئی سابقہ پالیسیوں پر نظرثانی کرنا پڑی۔ فلسطینی عوامی احتجاج کی تازہ کامیابی کی مثال اس سال موسم گرما میں بھی ملتی ہے جب اسرائیل نے مسجد اقصیٰ اور حرم قدسی میں الیکٹرانک گیٹ نصب کرنے اور کیمرے لگانے کا اعلان کیا تو فلسطینی عوام سڑکوں پر نکل آئے۔ بالآخر فلسطینی قوم کا احتجاج رنگ لے آیا اور اسرائیل کو مسجد اقصیٰ کی نگرانی کے لیے اپنے مذموم عزائم واپس لینا پڑے۔

ویسے بھی بیت المقدس صرف فلسطینیوں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ تمام عرب ممالک اور مسلم دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ عرب ممالک اور اسلامی دنیا پر القدس کے حوالے سے بھاری ذمہ داریاں عاید ہوتی ہیں۔ اس کے لیے عرب اور مسلمان ممالک میں عوامی احتجاج کی تحریک کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ کو عالم اسلام میں سامنے آنے والے عوامی رد عمل پر حیران ہیں کیونکہ یہ سب غیر متوقع ہے۔ مگر یہ کافی نہیں۔ عوامی احتجاج اپنی جگہ،عرب ممالک کی حکومتوں کو امریکا اور اسرائیل کے سامنے ڈٹ کر القدس کا دفاع کرنا ہوگا۔

لینک کوتاه:

کپی شد