آج ہر چار میں سے ایک فلسطینی بچہ کو نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے جس کی بنیادی وجہ 2014ء میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر ہونے والی وہ بدترین جارحیت ہے جوان کے ذہن میں فقش ہوکر رہ گئی، اس بات کا انکشاف یورو ہیومن رائٹس مانیٹر نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں کیا ہے۔ یہ رپورٹ جسے 100000 hours of isolation یعنی ”غزہ کی تنہائی کے ایک لاکھ گھنٹے” کا عنوان دیا گیا ہے اس میں اسرائیل کی جانب سے گزشتہ دس سال سے جاری غزہ کی ناکہ بندی اور اس کے ناگفتہ بہ حالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق غزہ میں غربت کی شرح65 فیصد ہے اور 72فیصد رہائشی غذائی قلت کا شکار ہیں اسی طرح وہاں کی 80فیصد عوام بین الاقوامی امداد پر جی رہے ہیں جب کہ اس علاقہ میں بے روز گاری کی شرح 43 فیصد ہے۔ دوسری طرف غزہ رفتہ رفتہ اندھیرے میں ڈوبتا جارہا ہے اور شہر کا واحد پاور پلانٹ ایندھن کی کمیابی کی وجہ سے بند ہونے کے قریب ہے اور فی الوقت یومیہ صرف چار گھنٹے ہی بجلی کی ترسیل ممکن ہو پارہی ہے جس کی وجہ سے غزہ کے ہسپتالوں میں سینکڑوں مریضوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں جن کے علاج اور آپریشنز کے لئے مناسب مقدار میں بجلی دستیاب نہیں ہے۔
غزہ کی پٹی کی کل لمبائی 41کلو میٹر ہے جب کہ اس کی چوڑائی سے کم از کم 6اور زیادہ سے زیادہ 12 کلومیٹر ہے مصر اس کے جنوب مغرب میں ہے جس سے اس کی 11کلومیٹر سرحد لگتی ہے اور یہیں سب سے بڑا کراسنگ بارڈر رفح واقع ہے۔ جب کہ اس کے شمال اور مشرق میں اسرائیل واقع ہے جس سے اس کی 51 کلومیٹر طویل سرحد لگتی ہے اور بحیرہ احمر اس کے مغرب میں ہے۔ غزہ کے اس چھوٹے سے رقبے میں 20لاکھ فلسطینی آباد ہیں جو کہ بدترین حالات میں اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور اگر موجودہ شرح سے آبادی بڑھتی رہے تو آئندہ پانچ سالوں میں اس کی آبادی 22لاکھ تک پہنچ جائے گی۔
مصر نے جب تک دونوں علاقوں کے درمیان نکلی ہوئی خفیہ سرنگوں سے منہ پھیرے رکھا اس وقت تک صورتحال اتنی خراب نہ تھی عام ضروریات زندگی کی اشیاء مثلاً خوراک، اودیات، تعمیراتی سامان وغیرہ باآسانی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا تھا جو کہ غزہ کے رہنے والوں کے لئے بڑی سہولت تھی جو کہ ایک طرف سمندر اور دو اطراف سے اسرائیل کی جانب سے گھرے ہوئے تھے۔ لیکن جولائی 2013ء میں سابق مصری صدر محمدمرسی کے معزول کئے جانے کے غزہ کے رہائشیوں پر ایک نئی مصیبت آن پڑی۔ سات کراسنگ مقامات میںسے جو کہ غزہ کو باقی دنیا سے ملاتے ہیں، ان میں سے چھ کو بند کردیا گیا تھا۔
اس افسوسناک رپورٹ میں بتایا گیا ہے اگر غزہ کی موجودہ بدترین معاشی صورتحال اسی طرح برقرار رہی تو 2020ء تک غزہ انسانی رہائش کے قابل نہیں رہے گا۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی وتجارت نے اپنے ایک سالانہ تجزیہ میں غزہ کی اقتصادی ومعاشی بدحالی کا مکمل طور پر ذمہ دار اسرائیل کو ٹہریا ہے۔ 2014ء میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجہ میں اس علاقہ سے پانچ لاکھ فلسطینی نقل مکانی پر مجبور ہوئے نصف شہر مکمل طور پر کھنڈرات میں تبدیل ہوچکے ہیں اسرائیل کی جانب سے مسلط کردہ جنگ نے فلسطینیوں کی جمع پونجی بھی ختم کردی اور اب غزہ کی تقریبا سو فیصد آبادی کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے۔ غزہ کی خام ملکی پیداوار یعنی GDP گزشتہ سا ل کی نسبت 15 فیصد کم ہوچکا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق غزہ کی معاشی تنزالی کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے جس کی جانب سے غزہ پرلاگو کی جانے والی اقتصادی پابندیوں اور کے ساتھ ساتھ اس کی بندر گاہ کا کنٹرول سنبھال کر اس نے فلسطینیوں کے لئے علاقائی اور عالمی تجارت کے دروازے بند کردئیے ہیں۔
غزہ کے اندر کسی قسم کے کار خانے یا صنعت کا کوئی وجود نہیں ہے جس کے نتیجہ میں یہاں سے کوئی سامان برآمد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس علاقہ میں ترقی کا عمل رک گیا ہے۔ غزہ کی دس سال سے جاری ناکہ بندی کی عالمی سطح پر سفارتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مذمت جاری ہے اور اس علاقہ میں رہائشی سہولیات وضروریات زندگی کی دستیابی کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ اسرائیل نے 2006ء سے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے جب حماس نے اس علاقے میں انتخابات جیتے لیکن اگلے سال 2007ء میں اسرائیل نے اس ناکہ بندی کو مزید سخت کردیا جب حماس نے ایک اور فلسطینی تنظیم الفتح کو غزہ سے باہر نکال دیا۔ 2010ء سے ترکی اس بات پر اصرار کرتا چلا آیا ہے کہ اس کے اسرائیل سے تعلقات اسی صورت میں بحال ہوسکتے ہیں جب اسرائیل غزہ کی ناکہ بندی مکمل طور پر ختم کردے تاہم اسرائیل اس بات پر راضی نہیں ہے کیوں کہ اس کے خیال میں جب تک حماس کے زیر کنٹرول غزہ سے اس کے خلاف کارروئیاں جاری ہیں وہ یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا۔
2005ء تک غزہ کا کنٹرول اسرائیل کے پاس تھا اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے یک طرفہ طور پر اسے خالی کردیا تھا اس کے بعد سے اب تک اسرائیل نے تین دفعہ غزہ میں جنگ چھیڑی۔ پہلی دسمبر 2008ء میں شروع ہوئی جب کہ دوسری جنگ 14نومبر 2012ء میںہوئی اور تیسری جنگ 2014ء میں چھیڑی جس کے بعد سے حالات کافی کشیدہ ہیں۔ کریم شالوم کے کراسنگ بارڈر سے غزہ کے رہائشی تقریبا 40فیصد ضروریات زندگی کی اشیاء حاصل کرتے ہیں۔ جب اسرائیل میں تعطیلات ہوتی ہیں یا پھر عسکری کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ بارڈر بند کردیا جاتا ہے چنانچہ لوگ اس عرصے میں ذخیرہ کی گئی اشیاء کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ اور بہت ساری اہم ضروریات کی اشیاء ہیں جنہیں اسرائیل اس کراسنگ بارڈر سے لے جانے کی اجازت نہیں دیتا اس کے بقول ہوسکتا ہے ان اشیاء سے ہتھیار بنائے جائیں یہی وجہ ہے کہ بہت سارا تعمیراتی سامان اس بارڈر سے نہیں لے جایا جا سکتا جس کی وجہ سے اس کی غزہ میں قلت پیدا ہوگئی ہے اور کئی ملین ڈالرز کی منصوبے تعطل کا شکار ہیں۔
(تلخیص وترجمہ: محمد احمد۔۔۔ بشکریہ: الجزیرہ )