پنج شنبه 01/می/2025

خطے میں اسرائیلی فوجی عنصر

اتوار 15-نومبر-2009

اس خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ پس پردہ کوئی نہ کوئی ضرور بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کو پروان چڑھا رہا ہے۔ یہ کوئی دانش مندانہ فعل نہیں کیونکہ بھارت اور اسرائیل کے فوجی تعلقات کی نوعیت بڑی سنگین ہے اور اسے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی فوجی پالیسیوں میں ایک اہم عنصر کی حیثیت حاصل ہے۔

نائن الیون کے بعد سے افغانستان میں اسرائیلی عنصر خفیہ طور پر ہمیشہ سے موجود رہا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل ان ابتدائی ممالک میں شامل ہے جو سوویت یونین کے خاتمے اور آزاد وسط ایشیائی ممالک کے وجود میں آنے کے بعد ان ملکوں کے انرجی سیکٹر میں داخل ہوئے۔

اسرائیل بھارت کو دفاعی ساز و سامان فراہم اور اسکی تیاری میں مدد دینے والا اہم ملک ہے جب بھارت دیگر ملکوں کے ہمراہ بش انتظامیہ کے میزائل ڈیفنس سسٹم کا بڑھ چڑھ کر خیر مقدم کر رہا تھا تو اس موقع پر بھی اسرائیل کا سایہ موجود تھا اور اس بارے میں ہم اس اہم کردار کو جانتے ہیں جو اسرائیل میزائل ڈیفنس صلاحیت کے حصول میں بھارت کی بھرپور مدد کے ذریعے ادا کر رہا ہے جبکہ اسرائیلی لیبل کے ذریعے امریکی ٹیکنالوجی اور ہتھیار بھی منتقل کئے جا رہے ہیں لہٰذا یہ کوئی حیرانگی کی بات نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک فوجی معاہدہ ہو رہا ہے اس بار بھارت اور اسرائیل ایک ارب دس کروڑ ڈلر کا معاہدہ کر رہے ہیں جس کے تحت بھارت کے ڈیفنس سسٹم کو اپ گریڈ کیا جائیگا‘ اسرائیل کا تیار کردہ یہ سسٹم بحریہ کے جہازوں کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے اور یہ حملے کیلئے آتے ہوئے میزائلوں طیاروں اور ڈرونز کو مار گرا سکتا ہے۔ اس سسٹم کے حصول سے بھارت کی میزائل ڈیفنس صلاحیت بڑھے گی اور اس طرح جنوبی ایشیا میں ایٹمی توازن مزید بگڑے گا‘ اس صورتحال میں یہ بات واضح ہے کہ پاکستان اگر قابل اعتماد ڈیٹرنس برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے اپنے ایٹمی ڈیلیوری سسٹم اور ایٹمی ہتھیاروں کو مزید ترقی دینا ہو گی۔

اس حوالے سے واضح اشارہ موجود ہے کہ بھارت پوری رفتار سے اپنی سیکنڈ سٹرائیک صلاحیت کو ترقی دینے کیلئے پوری طرح تیار ہے اس بارے میں پہلی بات یہ کہ اس نے ایٹمی آبدوز کا پروگرام شروع کر دیا ہے اور اب وہ اسرائیل کے ساتھ ائر ڈیفنس کا معاہدہ کر رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے بھاری ہتھیاروں کے حصول سے اس کے جارحانہ عزائم اب ڈھکے چھپے نہیں رہے حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا بھارت کے ساتھ اپنے 123 معاہدے اور اسرائیل کو توازن بگاڑنے کی اجازت دیکر ارادتاً ایٹمی برابری کو خراب کرنے کیلئے اس خطے میں اسلحہ بندی میں اضافے کی اجازت دیگا اور کیا امریکا ابھی تک یہ سمجھتا ہے کہ گذشتہ کالموں میں بیان کردہ منظر نامے کے تحت وہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو اپنے کنٹرول میں لے سکتا ہے۔ بھارت اسرائیل معاہدہ ہمسایہ ملکوں پر بھی گہرے اثرات مرتب کریگا۔
 

مثال کے طور پر اس معاہدے کے تحت اسرائیل پاکستان اور ایران کے بہت قریب بھارت کے ذریعے مزید آبی رسائی حاصل کر لے گا اور اس طرح مستقبل میں کسی بھی وقت اسرائیل کیلئے سمندر کے راستے ایران کو نشانہ بنانا کہیں زیادہ قابل عمل ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کی سیکورٹی کیلئے بھی مزید پیچیدگیاں پیدا کر سکتی ہے‘ ہم پہلے ہی اری زون پر جنگ لڑ رہے ہیں پہلی ملک کے اندر شدت پسندوں کیساتھ اور دوسری حساس صوبوں بلوچستان اور سرحد کے علاوہ فاٹا میں امریکی امداد اور تعاون کے ذریعے بھارت نے خفیہ طور پر چھیڑ رکھی ہے اب ہماری حکومت کو کسی قسم کا شک و شبہ نہیں رہا کہ شدت پسندوں کو ہتھیار اور پیسہ افغانستان کے راستے فراہم کئے جا رہے ہیں لیکن بعض نامعلوم وجوہ کی بنا پر حکومت کوئی ایکشن لینے کی بجائے محض زبانی الزام تراشی کر رہی ہے۔

بھارت اور اسرائیل کے تعلقات کا ایک تاریک پہلو خفیہ کارروائیوں کے سلسلے میں دونوں ملکوں کے باہمی تعاون پر مبنی ہے اسرائیل اپنی خفیہ سرگرمیاں اپنی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد کے ذریعے انجام دیتا ہے اسکی سرگرمیاں ساری عرب دنیا اور مشرق وسطیٰ میں پھیلی ہوئی ہیں اور اب بھارت کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ذریعے موساد کی رسائی جنوبی ایشیائی خطے میں ہونے لگی ہے اسکے جواب میں بھارت کو مغربی ایشیائی خطے میں زیادہ رسائی حاصل ہو جائیگی ’’را‘‘ اور ’’موساد‘‘ کے رابطے 1968ء سے قائم ہیں جب اندرا گاندھی نے را کے عہدیدار رامیشور ناتھ کائو کو موساد سے رابطہ قائم کرنے کی خصوصی طور پر ہدایت کی تھی لیکن نئی دہلی اور موساد کے تعلقات عملی طور پر 1950ء سے استوار تھے‘ جب اسرائیل کو ممبئی میں قونصل خانہ کھولنے کی اجازت دی گئی بھارت اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات قائم ہونے سے پہلے بھی را اپنے ایجنٹوں کو تربیت کیلئے اسرائیل بھیجتی رہی ہے اور سی ڈی سہالے کو جنہوں نے اپریل 2003ء میں را کے انچارج کا عہدہ سنبھالا تو وہ پہلے چیف تھے جنہوں نے اسرائیلی انٹیلی جنس سے تربیت حاصل کی تھی وہ کشمیر پاکستان اور دہشت گردی کے معاملات کے ماہر ہیں وہ پاکستان ڈیسک کے نگران رہنے کے علاوہ پاکستان میں بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں ’’را‘‘ اور موساد کا یہ گٹھ جوڑ پاکستان اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت اور پالیسیوں پر بھی شدت سے اثرانداز ہوتا رہا ہے۔

1993ء میں خبریں ملی تھیں کہ مقبوضہ کشمیر میں موساد کے ایجنٹ موجود ہیں جبکہ جون 1996ء میں جینز ڈیفنس ویکلی نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اسرائیل اپنے جاسوس خلائی سیارے اورنیک کے ذریعے پاکستان کے بارے میں حاصل کردہ حساس معاملات بھارت کو فراہم کر رہا ہے۔ جینز ڈیفنس ویکلی بھارت سے شائع ہوتا ہے 3 مارچ 2001ء کو دی پائنیر نے پاکستان کیخلاف را اور موساد کے تعاون کے بارے میں تفصیلات شائع کی تھیں کرگل میں بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی کے بعد بھارت نے لائن آف کنٹرول پر گشت کیلئے یو اے ویز بھی حاصل کی تھیں بھارت اور اسرائیل کا خفیہ تعاون یقینی طور پر باعث تشویش ہے‘ اس سے پورے خطے کا استحکام متاثر ہو رہا ہے جبکہ افغانستان میں امریکہ کے خفیہ ایجنٹ پہلے ہی موجود ہیں ان میں امریکی میرین فوجیوں سے لیکر زی ورلڈ وائڈ اور ڈائن کور جیسی امریکی تنظیموں کے کرائے کے فوجی
بھی شامل ہیں۔

بلوچستان میں ان کی موجودگی سے ایران عدم استحکام کا شکار ہو رہا ہے جبکہ بھارت کے ذریعے افغانستان کے راستے شدت پسندوں کو فاٹا میں ہتھیار فراہم کئے جا رہے ہیں ہو سکتا ہے‘ اسرائیل یہاں اپنے قدم جما رہا ہو اور اس علاقے کے ملکوں کو کوئی واقعہ رونما ہونے کے بعد اس بات کا پتہ چلے بہرحال پاکستان یہ بات کیسے یقینی بنائے گا کہ امریکہ کے خفیہ کارروائیاں کرنیوالے ایجنٹ جو امیگریشن کے کسی قاعدے قانون کی پروا کئے بغیر ملک میں گھس آئے ہیں آیا وہ اسرائیلی شہری تو نہیں ہیں اگرچہ ان میں بہت سوں نے نہ اسرائیلی پاسپورٹ پر سفر کیا ہے لیکن ہمیں یہ کس طرح پتہ چل سکتا ہے کہ ہم جن معلومات کا امریکا سے تبادلہ کر رہے ہیں کیا وہ نئی دہلی یا تل ابیب تو نہیں پہنچ رہیں۔

یہ وہ معاملات ہیں جن پر پارلیمنٹ کو غور کرنا چاہئے اور یہ بات یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان آنیولے تمام غیر ملکی کسی باضابطہ طریق کار کے تحت ملک میں آئیں ہماری سیکورٹی کی سطح کو برقرار رکھنے کیلئے یہ بنیادی بت ہے اور جیسا کہ ہمیں اب معلوم ہوا ہے جس کیلئے ہمیں سیمور ہرش کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ امریکہ کے جنگی کھیل کے منظر نامہ میں کس طرح ہمارے نیوکلیئر ٹرگرز پر قبضہ کر لیا گیا ہے اس سلسلے میں سادہ سی بات یہ ہے کہ خطرات بہت بڑھ گئے ہیں اور خفیہ سرگرمیوں میں ملوث امریکی ایجنٹوں کی کھیپ کی کھیپ کو ضرورت سے زیادہ اختیارات دے دئیے گئے ہیں۔

افغانستان میں جو امریکی بھارتی عنصر موجود ہے اسے پہلے ہی پاکستان میں شدت پسندوں کو غیر قانونی اسلحہ کی فراہمی کا مرتکب قرار دیا جا چکا ہے اسرائیلی عنصر بھی خطے میں پوری طرح سرگرم ہے‘ خدشہ ہے کہ شدت پسندوں کو چھوٹی نوعیت کے اسرائیلی ہتھیار ملنا شروع ہو گئے ہیں ہمارے لئے ایک دھمکی بھی ہے اس وقت اشد ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم امریکہ کیساتھ جس قسم کا تعاون کر رہے ہیں‘ اس میں شفافیت کا خصوصی طور پر اہتمام کیا جائے اور یہ وقت اس امر کا متقاضی بھی ہے کہ ہم اپنے سیکورٹی ڈھانچے میں اسرائیلی عنصر کو نظرانداز نہ کریں اور علاقائی تناظر میں بھی خصوصی طور پر ایکسٹرا ریجنل فورسز اور پاورز کے ضمن میں بھی اسرائیل کے کردار کا جائزہ لیں ان تمام عوامل کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس حقیقت کو سمجھنے میں معمولی ذہانت کی ضرورت پڑیگی کہ ہم مخاصمانہ قوتوں کے گھیرے میں آ گئے ہیں‘ اس کا ہمیں خود علاقائی ردعمل ظاہر کرنا چاہئے اسکی ابتدا ایران کیساتھ ہمارے سٹرٹیجک ڈائنامک تعلقات کو بہتر بنانے سے ہو سکتی ہے اس طرح ہم امریکا اور اپنے درمیان ایک قابل احترام فاصلہ بھی قائم کر سکتے ہیں تاکہ ہم اپنے آپشنز خود تشکیل دینے کیلئے آزادانہ سانس لے سکیں۔

 
بشکریہ نوائے وقت

لینک کوتاه:

کپی شد