بلاشبہ جس طرح مسئلہ فلسطین کو مشرق وسطیٰ کا کشمیر سمجھا جاتا ہے ویسے ہی مسئلہ کشمیر جنوبی ایشیاء کا فلسطین ہے۔ ان دونوں مسائل کو دنیا کی بڑی سامراجی طاقتوں نے خود اپنے مفاد میں پیدا کیا اور برقرار رکھا ہے اور اب یہی مسائل ان کے مفادات کے خلاف جارہے ہیں ، مگر وہ ان کا کچھ نہیں کرسکتے کیونکہ انسانی امن اور معاشی بحرانوں کی طرح قومی مسائل اور تنازعات بھی بہت زیادہ طوالت پکڑ لیں تو ناقابل علاج ہوجاتے ہیں۔
امریکی اخبار”بوسٹن گلوب“نے لکھا ہے کہ یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ ممبئی میں دہشتگردی کی واردات کے فوراً بعد وہ کچھ نہیں ہوا جو نئی دہلی کے لوک سبھا کی عمارت پر ہشتگردی کی واردات کے بعد ہوا تھا اور ہندوستان اور پاکستان کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل آن کھڑی ہوئی تھیں۔
تازہ ترین واردات کے بعد ہندوستان نے اپنی فوجوں کو پاکستان کی سرحد پر آراستہ نہیں کیا اور پاکستان نے بھی شمال مغربی سرحد پر دہشتگردوں سے نبرد آزما اپنی فوجوں کو ہندوستان کے ساتھ ملنے والی سرحد پر لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس کا مطلب ہے کہ صحیح الدماغ لوگوں نے ابھی تک پذیرائی حاصل کررکھی ہے، اگرچہ ہندوستان کے اندر ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے یہ بار بار کہا جارہا ہے کہ اگر امریکہ اور اسرائیل کی فوجیں افغانستان ، عراق اور فلسطین بلکہ بیروت پر پیش بندی کے طور پر فضائی حملے کرسکتی ہیں تو بھارتی لشکر یہ کارنامہ پاکستان کے خلاف کیوں سرانجام نہیں دے سکتا، مگر ہندوستانی حکمران جانتے ہیں کہ دونوں ملکوں میں مستقبل کی جنگ ماضی کی جنگوں جیسی نہیں ہوگی جن کے کھنڈرات سے مردے زندہ ہوسکتے تھے۔
ہندوستانی حکمران اس حقیقت سے بھی بے خبر نہیں ہوں گے کہ ممبئی پر حملہ اگر پاکستان کی سرزمین سے بھی کیا گیا ہے تو پاکستان کے حکمرانوں کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کے حکمران اگر دہشتگردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہونے کی وجہ سے قومی سیاست میں اپنی اپوزیشن کی جماعتوں کی مخالفت نہیں چاہتے تو ہندوستان جیسے پڑوسی کواشتعال دلانے کا خطرہ کیوں مول لیں گے۔ پاکستانی حکمران اپنے اوپر اتنے زیادہ سیاسی دباؤ کے باوجود ہندوستان کے سامنے جھکنا بھی برداشت نہیں کرسکتے۔
تاج برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد کی نصف صدی میں دو متحارب ممالک ہندوستان اور پاکستان پہلی مرتبہ ایک مشترکہ دشمن کے خلاف لڑرہے ہیں اور وہ دشمن نام نہاد ”اسلامی دہشتگرد “ہیں۔ کچھ عجیب نہیں ہوگا اگر پتہ چلے کہ اسلام آباد کے میریٹ ہوٹل پر حملہ کرنے والے عناصر بھی وہی تھے جنہوں نے ممبئی کے تاج محل ہوٹل ،اوبرائے ہوٹل اور یہودی گیسٹ ہاؤس کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئر پرسن اور صدر آصف علی زرداری کی رفیقہ حیات محترمہ بینظیر بھٹو کو شہید کرنے والے بھی وہی ہوں جنہوں نے ممبئی میں بے گناہ لوگوں کا خون بہایا ہے۔ اصولی طور پر جنوبی ایشیاء کی دونوں ایٹمی طاقتوں کو مشترکہ طور پر اپنے مشترکہ دشمنوں کے خلاف محاذ آرا ہونا چاہئے تھا مگر تاج برطانیہ نے اپنے قبضے میں آنے والی سونے کی چڑیا کو اپنے پنجرے سے نکال کر امریکی سامراج کے پنجرے میں ڈالنے کی غرض سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے مسئلہ کو سلگتا ہوا چھوڑ دیا کہ
باغباں بھی خوش رہے راضی رہے صیاد بھی
اور اس کوشش کے نتیجے میں نوے ہزار کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
برصغیر پاک و ہند کی آزادی اور ہندوستان کی سیاسی تقسیم کے لئے جن اصولوں کو بروئے کار لایا گیا ان کے تحت ریاست جموں و کشمیر اپنی آبادی میں واضح طور پرمسلمانوں کی اکثریت کی رو سے پاکستان کا حصہ بننا چاہئے تھی مگر اس کے مہاراجہ کے ہندو ہونے کی وجہ سے اور ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے کشمیر پنڈت ہونے کی وجہ سے ہندوستان کے قبضے میں لے لی گئی۔”بوسٹن گلوب“کے مطابق یہ محض کشمیر کی مذہبی، نسلی اور علاقائی رجحانات ہی نہیں تھے جن کی وجہ سے کشمیر کا مسئلہ پیدا ہوا۔ احمد رشید اپنی مدلل تصنیفDescent into chaosمیں بتاتے ہیں کہ بلوچستان، سندھ اور پشتون علاقوں میں علیحدگی کی
تحریکوں اور بغاوت کے آثار بتاتے ہیں کہ
میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
مشرقی وسطیٰ کی اسلامی دنیا میں اسرائیل کی صیہونی چھری گھونپنے والوں نے اس سارے دنیائے اسلامی میں فلسطین کامسئلہ پیدا کردیا جو پھیلتے پھیلتے پوری مسلمان دنیا کامسئلہ بن گیا جس کی شدت میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اور ہر اسرائیلی ظلم کے ساتھ اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اسی طرح تاریخ برطانیہ کی حکومت کو سامراجی نو آبادی میں تبدیل کرنے کی غرض سے برصغیر پاک و ہند کے درمیان کشمیر کا مسئلہ پیدا کرنے والوں نے پورے جنوبی ایشیاء کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا اور یہ خطرہ کشمیر میں چلنے والی ہر بھارتی گولی کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔