جمعه 15/نوامبر/2024

بے بس فلسطینیوں کا ایک اور خواب

پیر 9-جون-2008

پہلی جنگ عظیم کے بعد سے غلامانہ زندگی گزارنے والے فلسطینی شہری ہر روز ایک نیا خواب دیکھتے ہیں کہ اب ان کا ملک آزاد ہونے والا ہے-
 
عالمی سطح پر ہونے والی ذرا سی ہل چل، بڑی طاقتوں کے مبہم بیانات یا اقوام متحدہ کی کسی رپورٹ میں ذکر بھی ان کے سوئے ہوئے خوابوں کو جگا دیتا ہے یا ایک مرتبہ پھر ’’خوابوں‘‘ کی دنیا میں لے جاتا ہے- امریکی صدر بش کے بیانات نے ایک مرتبہ پھر امید کی کرن پیدا کردی ہے- وہ سوچ رہے ہیں کہ شاید اگلے سال فروری تک امریکہ میں انتقال اقتدار سے پہلے پہلے وہ آزاد فضاء میں سانس ضرور لیں گے- امریکہ کے صدر بش نے کہا ہے کہ ’’اپنے دور اقتدار میں، میں مسئلہ فلسطین حل ہوتے دیکھنا چاہتا ہوں-‘‘

2007ء کے اوائل میں بھی یورپی کمیشن سے مذاکرات کے دوران امریکہ کی سیکرٹری خارجہ کونڈا لیزارائس نے کہا کہ اب امریکہ فلسطین میں ایران کے اثر و نفوذ کو ختم کرنے کے لیے اپنا کردار بڑھائے گا- انہوں نے بھی مسئلہ فلسطین کا حل ’’ریاستوں کے قیام‘‘ کی صورت میں قرار دیا- رائس نے اس حل کو مرحلہ وار تجویز کیا- ابھی مذاکرات جاری تھے کہ اسرائیل نے شرط عائد کردی کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کو تسلیم کرلے، جس پر مذاکرات آگے بڑھنے کی رفتار سست ہے-

پہلی جنگ عظیم کے بعد سلطنت عثمانیہ کا شیرازہ بکھر گیا- کئی ملک انگریزوں کے تسلط میں دے دیئے گئے- ’’مینڈیٹس سسٹم‘‘ کے تحت فلسطین بھی تاج برطانیہ کی غلامی میں چلا گیا- اس سسٹم کے تحت ہی فیصلہ کیا گیا کہ ان ممالک کو وقت کے ساتھ ساتھ آزادی دے دی جائے گی- ماسوائے فلسطین کے، جہاں ایک اسرائیلی حکومت قائم کرنے کام شروع کردیا گیا تھا- جس کی روشنی میں 1922ء سے 1947ء تک وہاں (مشرقی یورپ سے زیادہ تر) لاکھوں یہودی مہاجر آئے-
 
اسی سال یعنی 1947ء میں اقوام متحدہ نے قرارداد 181 (II) منظور کی- جس میں کہا گیا تھا کہ ’’فلسطین دو ممالک پر مشتمل ہوگا- ایک اسرائیل اور دوسرا عرب فلسطین جب کہ بیت المقدس کا نظم و نسق اقوام عالم کے ہاتھ میں ہوگا-‘‘ اس قرارداد کے ایک سال کے اندر اندر فلسطین کے 77 فیصد حصے پر مشتمل ایک یہودی ریاست اسرائیل قائم کردی گئی- 1967ء میں اسرائیل نے باقی ماندہ علاقوں غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر بھی ایک اور جنگ میں قبضہ کرلیا- بعد ازاں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اپنا کنٹرول کسی حدتک ختم کردیا- البتہ بیت المقدس کو مکمل طور پر اپنا حصہ بنالیا-

اس جنگ میں پانچ لاکھ فلسطینی مہاجر ہوئے- 22 نومبر 1967ء کو اقوام متحدہ نے قرارداد نمبر 242 منظور کی جس میں اسرائیل سے مقبوضہ عرب علاقے خالی کروانے کا مطالبہ کیا گیا- 1974ء میں اقوام متحدہ نے ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں کے حقوق کی بات کی اور تنظیم آزادئ فلسطین (پی ایل او) کو سلامتی کونسل میں مبصر کا درجہ دے دیا گیا- 1977ء سے 1990ء تک کا عرصہ فلسطینیوں پر ’’تنگ‘‘ رہا- اسرائیل نے پی ایل او کا صفایا کرنے کے لیے لبنان پر حملہ کردیا- صابرہ اور شتیلا میں بدترین قتل عام ہوا- 1985ء میں ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ نے فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آبادی کو مسترد کردیا- اس ظلم اور جبر نے تحریک انتفادہ کو جنم دیا- اکتوبر 1991ء میں امن کانفرنس ہوئی جس میں اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 338 اور 242 کی روشنی میں امن قائم کرنے پر زور دیا گیا- اس قرارداد میں فلسطینیوں کے ساتھ یہ زیادتی کی گئی کہ ان سے ان کے وطن کو چھین لیا گیا اور لینڈ فار پیس (یعنی خطہ برائے امن) کے نام سے فلسطین کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا گیا جس سے ایسا محسوس ہوا کہ فلسطین ان کا وطن نہیں ہے لیکن چونکہ ایسا کیے بغیر امن ممکن نہیں لہذا انہیں ایک خطہ ارضی دے دیا جائے-

کانفرنس میں ڈیکلریشن آن انٹیرم سیلف گورنمنٹ یعنی ایک عبوری حکومت کے قیام کے انتظامات پر دستخط کیے گئے- یہ دستخط 13 ستمبر 1993ء کو واشنگٹن میں ہوئے- لیکن اس معاہدے کے سات سال بعد اسرائیل نے ایک مرتبہ پھر مغربی کنارے میں یہودیوں کی بستیوں کو تحفظ دینے اور فلسطینیوں کی نقل و حمل کو محدود کرنے کے لیے ان کے ہی علاقے میں دیوار بنانا شروع کردی جسے عالمی عدالت انصاف نے دسمبر 2004ء میں غیر قانونی قرار دے دیا لیکن یہ دیوار نہ صرف بن چکی ہے بلکہ اس کے ذریعے فلسطینی علاقوں میں بھی فلسطینیوں کی نقل و حرکت محدود کردی گئی ہے- 1996ء میں یہ باقاعدہ فیصلہ کیا گیا کہ بیت المقدس پر دیگر تمام معاملات کا حل ہونے تک غور نہیں کیا جائے گا- امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ سے بیت المقدس کے الگ تشخص کے حق میں ہیں اور اس لیے امریکہ نے قرارداد نمبر 181 اور 194 کی حمایت کی ہے-
 
قرارداد نمبر 1515 میں مخصوص مدت کے اندر اندر مرحلہ وار ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے روڈ میپ دیا گیا تھا- یاسر عرفات اور اسرائیلی وزیر خارجہ رابن کے درمیان جس ڈیکلریشن پر دستخط ہوئے تھے- اس کے پہلے مرحلے پر 1994ء میں عمل درآمد ہوا جس کے تحت یاسر عرفات کو غزہ کی پٹی میں آنے کی اجازت مل گئی اور انہوں نے حکومت سازش میں بھی اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیا- معاہدے کے تحت 1998ء میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں اپنی فوجی قوت میں کمی کرنا تھی- اس پر عمل درآمد کے لیے ایک اور معاہدہ ہوا جسے ’’وائی میمورنڈم‘‘ کہا جاتا ہے- معاہدے پر عمل درآمد سے پچنے کے لیے اسرائیل نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ تنظیم الفتح کے دستور میں فلسطین کی آزادی کے لیے مسلح جدوجہد کی حمایت کی گئی ہے- جب تک یہ شق ختم نہیں ہوگی مذاکرات نہیں ہوں گے، چنانچہ فلسطین کی آزادی کو فلسطینیوں کے رویے سے مشروط کردیا گیا- مثلاً فلسطینی اتھارٹی اپنے اندر تشدد ختم کرنے کے لیے اقدامات کرے گی- تمام تعلیمی کتب سے اسرائیل مخالف مواد خارج کیا جائے گا-
 
تمام شعبوں میں اصلاحات لائی جائیں گی اور کرپشن ختم کی جائے گی- انتہاء پسندوں کو گرفتار کر کے ملزموں کو اسرائیل کے حوالے کیا جائے گا- انتہاء پسند تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے گی- اس کے علاوہ درجنوں دیگر شرائط بھی فلسطینیوں کے لیے لازمی قرار دی گئیں جن پر عمل کیے بغیر مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے- چنانچہ اب اس بات کا دارومدار فلسطینیوں کے رویے پر ہے کہ وہ آزادی چاہتے ہیں یا نہیں یعنی اگر وہ اچھے بچوں کی طرح اسرائیلی سوچ کی تابعداری نہیں کرتے تو پھر وہ آزاد بھی نہیں ہوسکتے- محمود عباس نے ان شرائط کا جواب یہ کہہ کردیا کہ مسئلہ فلسطین کا کوئی فوجی حل نہیں ہے ہم اسرائیل یا جس بھی ملک کے خلاف دہشت گردی ہوگی، اس کا مل جل کر مقابلہ کریں گے-‘‘

محمود عباس نے اسرائیلی فوجیوں پر حملوں کی روک تھام کے لیے مزید سیکورٹی فورس غزہ پھیج دی مگر اس کے باوجود اسرائیل نے فلسطینی علاقوں میں اپنی کارروائیاں جاری رکھیں- 2002ء میں سعودی عرب نے بھی ایک امن پلان پیش کیا جس میں کہا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 338 اور 242 کے تحت اس مسئلے کا حل تلاش کرلیا جائے- اس وقت کے اسرائیلی وزیر خارجہ شمعون پیریز نے اس تجویز کے جواب میں کہ ’’تمام معاملات فریقین (اسرائیل اور فلسطین) کے مابین ہی طے ہونا چاہئیں-

30 اپریل 2003ء کو بھی فلسطین کی آزادی کے لیے ایک روڈ میپ کا اعلان کیا گیا- اس میں یہ وعدہ کیا گیا کہ 2009ء تک فلسطینی ریاست ایک Viable ریاست کے طور پر قائم ہو جائے گی اس کے لیے مزید شرائط تجویز کی گئیں- مثلاً دونوں ممالک اس ریاست کے قیام کے لیے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر اقدامات کریں گے- دونوں ممالک اپنی قید میں ایک دوسرے کے باشندے رہا کردیں گے- فلسطینی ریاست اپنے ملک میں انتہاء پسندوں اور دہشت گردوں کو حراست میں لے گی-

صدر جارج ڈبلیو بش اور یورپی یونین مسئلہ فلسطین کو اپنے طریقے سے حل کرنے کے لیے تمام تر اقدامات کررہے ہیں- اوسلو مذاکرات کے بعد سے ان کی ساری توجہ اس بات پر ہے کہ ’’اسرائیل کو بھی قائم رہنے کا حق ہے- اس کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کیلئے فلسطینی باشندوں کو بھی اقدامات کرنا ہوں گے-‘‘ ایسا نہ کرنے کی صورت میں نئی فلسطینی ریاست کا قیام بہت مشکل ہوگا- یورپی کمیشن نے فلسطین کی آزادی کے لیے صدر بش کے روڈ میپ کے بعد پچھلے سال ایک ایکشن پلان ترتیب دیا جس کے تحت سب سے پہلے فلسطینی باشندوں کو اپنی ’’ریاست‘‘ میں اقتصادی، سیاسی اور سماجی حالات معمول پر لانا ہوں گے- یورپی کمیشن کے زعماء کا کہنا ہے کہ مذاکرات کی رفتار 2006ء اور 2007ء کے اوائل تک ٹھیک نہیں تھی- البتہ رواں سال میں بہتر ہونا شروع ہوگئی ہے اب یورپی کمیشن نے سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال میں تبدیلی کے لیے بھی 2011ء تک مختلف منصوبے تشکیل دیئے ہیں- 2008ء سے 2010ء تک اقتصادی ترقی کے دوران آزاد فلسطینی ریاست کے ممکنہ ڈھانچے کی تشکیل ہوگی- اس منصوبے پر عملدرآمد کے لیے پیرس کلب سے اربوں ڈالر کی امداد کی امید کی جارہی ہے-

اس منصوبے کے تحت فوج کے سیاسی کردار پر بھی مذاکرات ہوں گے یعنی سیاست میں فوج کے کردار کو محدود کیا جائے گا- ایک امریکی مبصر نے بتایا کہ ’’یہ منصوبہ خوش فہمی پر مبنی ہے اربوں ڈالر کے بارے میں پتہ نہیں ہے کہ وہ ملیں گے یا نہیں- آئی ایم ایف اور عالمی بنک نے بھی اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ہے- اس فنڈ سے ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے گا جو اسرائیلیوں کے جان و مال کے تحفظ کی یقین دہانی کرائے گا- یورپی کمیشن نے کچھ نئی شرائط عائد کردیں مثلاً فلسطینی ملیشیا اور اسلحہ کی غیر قانونی سمگلنگ پر پابندی عائد کردی جائے- حماس کے تمام ارکان کو حراست میں لیا جائے ایران کے ساتھ روابط ختم کردیئے جائیں-

’’فلسطینی اتھارٹی کمزوری دکھا رہی ہے‘‘ یہ کہہ کر اسرائیل نے فلسطینی لجسلیٹو کونسل کے اڑتالیس ارکان گرفتار کرلیے تھے، اس کا کہنا تھا کہ فلسطینی اسمبلی میں انتہاء پسند منتخب ہوگئے تھے- فلسطینی اتھارٹی کو آزادی دینے سے قبل الیکشن کمیشن، عدلیہ، پولیس کی تنظیم نو لازمی سمجھی جارہی ہے- پولیس کو فلسطینی اتھارٹی کے کنٹرول سے نکالنے کے لیے یورپی ممالک کے پولیس افسران غیر جانبدارانہ انداز میں کام کرنے کی تربیت دی جارہی ہے، اس سمت میں ہونے والی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے جون 2007ء میں اسرائیل اور فلسطینی حکام کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا تھا، یورپی کمیشن نے فلسطینی اتھارٹی پر زور دیا کہ  ’’اس کے کام کی رفتار سست ہے اور وہ روڈ میپ پر آگے بڑھنے کے لیے سیکورٹی سے متعلق معاملات کی پابندی کرے- جون 2007ء میں بھی مزید نئے اقدامات اٹھانے پر زور دیا گیا جن میں غزہ سے مصر میں داخلے پر پابندی لگانا، حماس کے بھرتی شدہ 1.70 لاکھ سیکورٹی اہلکاروں میں سے اکتیس ہزار کو برطرف کرنا، دہشت گردوں کو مدد دینے والے 100 خیراتی اداروں کو بند کرنا، خواتین کو ان کے حقوق دینا اور خواتین میں غربت کو کم کرنا، آبادی میں اضافے کی شرح 3.3 فیصد سالانہ دنیا میں سب سے زیادہ ہے اسے کم کرنا، 2013ء تک توانائی، ماحولیات اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے نئے منصوبے پر عمل درآمد کرنا اور 2007ء سے 2011ء تک صحت کے منصوبے پر عمل درآمد کرنا جیسے مطالبات شامل تھے- فلسطینی اتھارٹی نے ان میں بیشتر مطالبات مان کر ان پر عمل درآمد کردیا ہے تاہم طویل المیعاد منصوبوں پر کام جاری ہے-

امریکہ نے کچھ عرصہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ایک کانفرنس کا بھی انتظام کیا، اس کے لیے نیول اکیڈمی کا انتخاب کیا گیا- صدر بش نے اس موقع پر اسرائیل اور فلسطینی وزرائے اعظم پر زیادہ سے زیادہ مفاہمت بڑھانے پر زور دیا- انہوں نے کہا کہ دونوں فریق 2008ء کے آخر تک مذاکرات جاری رکھیں، بعد میں ان مذاکرات میں امریکہ بھی شامل ہو جائے گا- اس ضمن میں اسرائیلی اور فلسطینی حکام پر مشتمل ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے جو 12 دسمبر 2008ء تک مذاکرات کرے گی-

فلسطینی اور اسرائیلی وزرائے اعظم ہفتے میں دو مرتبہ آپس میں رابطہ کریں گے تاہم ابتدائی مذاکرات میں صدر بش اپنے والد یا بل کلنٹن کی طرح خود براہ راست شریک نہیں ہوں گے لیکن بعد میں سہ فریقی مذاکرات ہوں گے جو دسمبر کے آخر یا اگلے سال کے آغاز میں ہوں گے- اس موقع پر صدر بش اپنا کردار ادا کریں گے- اس وقت تک اسرائیلی حکام فلسطینی وزیر اعظم کے اقدامات سے کس حدتک مطمئن ہوں گے اس کا پتہ تو اسی وقت چلے گا- تاہم دونوں ممالک میں ہونے والے مذاکرات کا جائزہ لینے کے لیے امریکہ کی طرف سے یورپی کمانڈ کے سابق جنرل جیمز ایل جونئیر مشرق وسطی کے لیے خصوصی نمائندے کے طور پر کام کررہے ہیں جو اسرائیل اور فلسطین کے مابین مذاکرات کے بارے میں صرف معلومات رکھ رہے ہیں، اس میں مداخلت نہیں کررہے- امریکہ نے حتمی معاہدے کے لیے اسرائیلی عوام کو دہشت گردی کے خلاف تحفظ کی حمایت لازمی قرار دی ہے چنانچہ تمام تر کوششیں اب اس سمت میں ہو رہی ہیں جس کے بعد فلسطینی ریاست کو ’’آزادی‘‘ ملے گی-

لینک کوتاه:

کپی شد