نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بین المذاہب پر ہونے والی دوروزہ کانفرنس اختتام کو پہنچی ہے جس پر ایک مشترکہ قرار داد منظور کی گئی ہے جس میں مذاہب کے نام پر معصوم لوگوں کے خون بہانے اور دہشتگردی اور تشدد کی مذمت کی گئی ہے
– قرار داد میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی مذہب بے گناہ لوگوں کا خون بہانے اور دہشت گردی اور تشدد کی اجازت نہیں دیتا اور کانفرنس کے شرکاء نے تمام مذاہب اور عقائد سے تعلق رکھنے والی اقلیتوں پر روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک عدم برداشت نفرت انگیزاظہار اور انہیں ہراساں کئے جانے کے واقعات پر سخت تشویش کااظہار کرتے ہوئے تمام انسانوں مختلف مذاہب و عقائد اور تہذیبوں کے درمیان مکالمے رواداری برداشت اور مفاہمت کی اہمیت پر زور دیا-
ایسی کانفرنسوں اور اعلامیوں کی اہمیت نشستند گفتند برخاستند سے زیادہ نہیں ہوتی – میڈیا اور عالمی منظر نامے پر سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی اس کوشش کو پذیرائی ملی- اس بار کانفرنس میں دو اہم پیش رفت سامنے آئیں-
مکہ اور میڈرڈ میں ہونے والی گذشتہ کانفرنسوں میں اسرائیل کی نمائندگی نہ ہونے کے باعث تشنگی محسوس کی جاتی رہی کیونکہ عالمی امن اور وجہ تنازع اسرائیل کی صہیونی حکومت ہی رہی ہے جس نے بزور طاقت اور جدید اسلحے کے ذریعے پچھلے ساٹھ سالوں سے فلسطین کی سزمین پر ناصرف قبضہ کئے رکھا ہے بلکہ لاکھوں فلسطینیوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کردیا- غزہ پر حماس کے کنٹرول کے بعد وہاں انسانی المیہ جنم لے رہاہے لیکن اقوام عالم اور اقوام متحدہ اس سے چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں-
کانفرنس میں شریک اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے سعودی عرب کی جانب سے پیش کردہ مشرق وسطی امن تجاویز کا خیر مقدم کیاہے- سعودی عرب نے چھ برس پہلے یہ پیش کش کی تھی کہ 1967ء سے اسرائیل کے قبضے میں موجود علاقوں کو خالی کردینے کے عوض عرب ممالک اسرائیل کو تسلیم کرتے ہیں- شمعون پیریز کا کہناتھا کہ شاہ کی تجاویز نے مشر ق وسطی کی اب تک کی پالیسیوں کو بالکل تبدیل کردیا ہے- ابھی حالیہ دنوں تک باضابطہ عرب موقف میں صرف تین انکار تھے کہ نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا جائے گا نہ کوئی مذاکرات اور نہ ہی اسرائیل کے ساتھ کوئی امن معاہدہ ہوگا-
آج ہم ایک نے بالکل مختلف اور دوستانہ بات سنی ہے جو قابل فہم ہے اور یہ احساس دلاتی ہے کہ مشرق وسطی میں جامع امن کے قیام کا وقت آگیاہے- ‘‘شمعون پیریز کی شخصیت اسرائیلی حکمرانوں میں امن پسند اور معتدل مزاج یہودیوں میں کیا جاتاہے- یہی شمعون پیر یز تھا جس نے اضحاک رابین کے صہیونی شدت پسندوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بعد اسرائیل پر حکومت کی تھی – اضحاک رابین کو اوسلو معاہدے کی پاداش میں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے تھے لیکن اس معاہدے کا نتیجہ کیا نکلا—- دس برسوں میں فلسطینی اتھارٹی کو خود مختاری ملنا تھی لیکن اسرائیلی حکومت صہیونی شدت پسندوں کی مخالفت کے باعث امن معاہدے پر عمل درآمد کیا کرتی بلکہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان کنکریٹ کی د یوارکھینچ دی گئی – دنیا کی بھرپور مخالفت کرنے کے باوجود ارئیل شیرون اپنے مو قف سے پیچھے نہیں ہٹے –
شمعون پیریز کا شاہ عبداللہ کی امن تجاویز کو سراہنا خوش آئند ہے لیکن اس تجاویز پر عمل درآمد کروانا شاہ عبداللہ کے اختیار میں نہیں بلکہ اسرائیلی ریاست کے قبضے میں ہے – — کیا واقعی اسرائیلی حکومت میں ایسے عناصر مضبوط ہیں جو چاہتے ہیں کہ اسرائیلی غزہ اور غرب اردن میں تعمیر کی گئی ناجائز بستیوں کو خالی کرنا چاہتے ہیں- ماضی میں ارئیل شیرون بھی ایسی ہی پالیسی کی گن گایا کرتے تھے کہ امن کے بدلے زمین —- لیکن نہ ان ہوا اور نہ ہی فلسطینی اپنی جائز زمین کو اسرائیل سے واگزار کرانے میں کامیاب ہوئے – کچھ ایسا ہی بیان پچھلے دنوں سابقہ وزیراعظم ایہوداولمرٹ کی جانب سے آیا کہ ’’اسرائیلی ریاست قائم رکھنے کے لیے اسرائیل کو مشرقی بیت المقدس کو چھوڑ دینا چاہیے -‘‘ایسی باتیں اقتدار کے بعد ہی یاد آیا کرتی ھیں- اولمرٹ صاحب اپنی حکمرانی کے وقت کیوں بھول گئے تھے لبنان پر حملہ بھی جارحیت بربریت ہے جس سے اسرائیل اور غیر محفوظ ہوجائےگا- عرب اور اسرائیلی حکمرانوں کو زیب نہیں دیتا-
اس کانفرنس میں جہاں پر مساوات اور اقلیتوں کے تحفظ اور مخالفت مذہب کی مقدس شخصیات کو تحقیر و ہتک نہ کرنے کے معاملے پر اتفاق کیاگیا- دیکھا جائے تو اسلام نے کبھی کسی مذہب کی اہم شخصیت اور عقائد کو کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ ایسی ناپاک جسارت ہمیشہ مغرب سے ہی کی جاتی رہیں- ناروے اور ڈنمارک کے رسالے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کو اظہار رائے کا نام دیاجاتارہا اور ابھی پچھلے دنوں ’’جیول ف مدینہ ‘‘ نامی ناول میں زوجہ رسول حضرت عائشہ صدیقہ کی ہرزہ سرائی کی جسارت کی گئی ہے-
جب کوئی مسلمان اسرائیل یا یہودیوں کے خلاف کوئی بات کرتاہے یا پھر ہٹلر کی تعریف و توصیف کی جاتی ہے تو اس پر یورپی یونین اور اقوام متحدہ فوری طور پر حرکت میں آجاتے ہیں- یہودیت کے خلاف بات کرنے والے کو اینٹی سیمٹک کہہ کر سزا دی جاتی ہے- پچھلے دنوں ایرانی صدر احمدی نژاد کو اغوا کرکے عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں لے کر جانے کی دھمکی کیا رواداری امن محبت اور امریکی یہودی خلوص نیت کی غماز ہے ؟
اس کانفرنس سے دوررس نتائج حاصل ہونا ناممکن دکھائی دیتے ہیں- فی الفور یہ کانفرنس امریکہ کی ایماء پر منعقد کی گئی تاکہ دنیا میں امریکہ کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کو کم کیا جائے اور خاص کرکے مسلم ممالک میں امریکی تشخص کو قابل قبول بنایا جائے- اس کانفرنس کا ایک اور مقصد خلیج یا عرب ممالک میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنا بھی ہوسکتاہے کیونکہ ایرانی موقف دو ٹوک ہے اور وہ واضح طور پر حماس کے ساتھ کھڑا ہے –
جب عالم عرب حماس کی جمہوری فتح کی حمایت کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں-شاید امریکہ اور اسرائیل کے حکمران بھول چکے ہیں کہ بین المذاہب ہم ہنگی رواداری کی طرف پیش قدمی بھی مسلمانوں کی طرف سے ہی کی گئی تھی جب امریکہ نے پریشن ڈیزرٹ سٹارم کے بہانے کویت کو آزادی دلوائی تھی – بش سینئر صاحب نے مستقبل کا نقشہ پیش کرتے ہوئے ’’سبز رنگ ‘‘ کو مغربی تہذیب کے لئے خطرہ قرار دیاتھا- اسی پس منظر میں سیموئیل ہمنگٹن کی ’’تہذیبوں کے تصادم ‘‘ کے نظریے کو مغرب میں خوب اچھالا گیا لیکن سابقہ ایرانی صدر محمدخاتمی نے امن وسلامتی کے طرف پہل کرتے ہوئے ’’تہذیبوں کے درمیان مکالمہ‘‘ کا نظریہ پیش کیا جس کو اہل مغرب نے حقیرونا معقول جانا-
عالمی امن اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک امریکہ اور اسرائیل اس طرف اپنے بھرپور خلوص نیت کا مظاہرہ نہیں کرتے- افغانستان، عراق اور فلسطین سے امریکی اور اسرائیلی فوجیوں کے انخلاء اور فلسطین کو آزادی دئیے بغیر کو امن فارمولہ کامیاب نہیں ہوسکتا-