اسرائیل اگرچہ دنیا کے نقشے پر 1948ء سے ایک دہشت گرد ملک کے طور پر موجود ہے اور پسپا ہوتے ہوتے دنیا بھر کے ممالک آج اسے تسلیم کرنے کے لئے بے چین ہوئے جا رہے ہیں لیکن خود یہودیوں کی قابل لحاظ تعداد آج بھی اسرائیلی ریاست کے وجود کے خلاف ہے۔ ایسے افراد ہر دور میں قیام اسرائیل پر تنقید کرتے چلے آئے ہیں لیکن میڈیا پر چونکہ ان کی پروجیکشن نہیں ہو پاتی ہے اس لئے ان کے خیالات عوام تک نہیں پہنچ پاتے۔
ذیل کی سطروں سے اندازہ ہو گا کہ لاتعداد یہودی آج بھی اسرائیل کے وجود کو تورات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ امریکہ میں مقیم ایک اہم یہودی مذہبی پیشوا ” لیسرائیل “ نے اسرائیلی ریاست کو ایک غیر شرعی ریاست قرار دیا ہے۔ مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق نیو یارک میں ایک پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ اسرائیلی ریاست تورات کی رو سے غیر شرعی ہے کیونکہ ہماری شریعت میں کسی قومی اور یہودی سلطنت کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ یہودی پیشوا نے کہا کہ فلسطین جائز طور پر مسلمانوں کا ملک ہے اور مسجد اقصیٰ انہی کی ہے۔ رہا ہیکل سلیمانی تو اب مٹ چکا ہے لہٰذا یہودیوں کو مسجد اقصیٰ کی زمین نہیں کریدنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہودیوں نے دنیا بھر سے یہودیوں کو مروانے کیلئے فلسطین پر مسلط کر دیا ہے۔ مذہبی پیشوا ایسرائیل جو ایک مذہبی یہودی تنظیم ” حرکت ناطوری “ کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ ان کی جماعت اسرائیل کو بطور ایک ملک کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔
(قومی اخبارات کراچی 10-5-04 ) اسرائیل میں یہودیوں کی ایک مذہبی تنظیم ” ہیریڈم “ مستقل طور پر صیہونیت کی شدید مخالفت کرتی ہے جس کا مقصد اسرائیل کا قیام اور اس کی توسیع ہے۔ ہیریڈم والے صیہونیت کی جو مخالفت کرتے ہیں اس کی بنیاد تالمود کی تعلیمات ہیں جن کے مطابق خدا نے یہودیوں سے تین عہد لئے تھے جن میں سے دو یہ ہیں (1) یہودیوں کو غیر یہودیوں کے خلاف بغاوت نہیں کرنی چاہئے اور (2) مسیح کی آمد سے پہلے فلسطین کی طرف اجتماعی نقل مکانی نہیں کرنی چاہئے۔ 1500 سالہ ماضی کے دوران روایت پسندانہ یہودیت کے ربیوں کی اکثریت نے مذکورہ دونوں عہدوں کی یہی تعبیر کی ہے کہ جلاوطنی ( دربدری، DIASPORA) یہودیوں پر لازمی ہے اور یہ دربدری خدا نے ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے عائد کر رکھی ہے۔ ( اسرائیل میں بنیاد پرستی۔
مصنف اسرائیل شحاک 53-52) ماضی میں ایک اسرائیلی یہودی اسکالر ” ایویا زریو “ نے لکھا تھا کہ تیرہویں صدی کے دوران جب کچھ ربی اور شاعر مذہبی وجوہات کے تحت فلسطین چلے گئے تو دنیا کے دوسرے حصوں میں موجود ربیوں نے اس عمل پر مذکورہ بالا تین عہدوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح وورٹز برگ جرمنی کے ایک مذہبی روحانی رہنما ربی ایلیاز موشے نے مذکورہ ہجرت کرنے والے یہودیوں کو انتباہ کیا تھا کہ وہ غلطی کر رہے ہیں اور خدا موت کی صورت میں انہیں اس کی سزا دے گا۔ تقریباً اسی زمانے میں اسپین کے ایک ربی ” ایذرا “ نے بھی کہا تھا کہ جو یہودی فلسطین کی طرف نقل مکانی کر جاتا ہے وہ خدا کو فراموش کر دیتا ہے۔ اسکالر ” ایویا زریو “ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ربیوں کی جانب سے انیسویں صدی تک عام طور پر ایسے ہی، بلکہ اس سے زیادہ انتہائی تصورات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ ممتاز جرمن ربی ” یہاناتھن “ نے اٹھارہویں صدی کے وسط میں لکھا کہ یہودیوں کی فلسطین کی جانب نقل مکانی مسیح ( دجال ) کی آمد سے پہلے ممنوع ہے خواہ اسے دنیا کی اقوام کی تائید ہی کیوں نہ حاصل ہو۔
اسی طرح انیسویں صدی کے اوائل میں جرمنی میں جدید آرتھوڈکس نظریات کے بانی ربی ” رافائیل ہرش “ نے (1837) میں لکھا کہ ” خدا نے یہودیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی کوششوں سے اپنی ریاست کبھی قائم نہ کریں “۔ اسی سال جب شمالی فلسطین میں ایک زلزلہ آیا اور وہاں منتقل ہونے والے بیشتر یہودی اس زلزلے سے ہلاک ہو گئے تو ہنگری کے ایک ممتاز ربی ” موشے ٹائیٹل بام “ نے اس حادثے کو یہودیوں کے لئے خدا کا عذاب قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ” خدا کی رضا یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی کوششوں اور ارادے سے سرزمین اسرائیل کی طرف جائیں “۔ ایک اور اہم ہیریڈم ربی یوسف نے 1989ء میں ایک صیہونیت مخالف کنونشن منعقد کیا جس میں اس نے اسرائیلی دہشت گرد تنظیم ” گش ایمونیم “ کے ربیوں کے اس نظریئے سے اختلاف کیا کہ نجات کا آغاز ہو چکا ہے اور خدا کا حکم ہے کہ ارض اسرائیل کو فتح کر لیا جائے اور یہ کہ نجات کا آغاز ہونے کی وجہ سے ارض اسرائیل کا کوئی حصہ غیر یہودیوں کو نہیں دینا چاہئے “۔
دوسرے الفاظ میں ربی یوسف اس بات کا قائل تھا کہ اسرائیل کی سرزمین میں غیر یہودیوں کو بھی آزادانہ طور پر بسایا جا سکتا ہے جس کی اس وقت اسرائیل میں پابندی ہے۔ ربی یوسف نے کنونشن میں بتایا کہ مسیح کا زمانہٴ نجات ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ ریاست اسرائیل گناہ گار یہودیوں سے بھری ہوئی ہے جن سے خدا ناراض ہے ( حوالہ کتاب: اسرائیل میں بنیاد پرستی۔ از اسرائیل شحاک ) تھیوڈ ور ہرزل نظریہٴ صیہونیت کا بانی ہے اور اسے یہودیوں میں ایک قومی فکر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس نے 1897ء میں تحریک صیہونیت کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کے لئے ایک قومی وطن کا قیام ضروری ہے۔ تاہم فرانس اور لندن کے بعض بااثر یہودی صیہونیت کو یہودیت کے سیاسی مسئلے کا حل نہیں سمجھتے تھے۔ ( اس وقت تک امریکہ ابھر کر نمایاں طور پر سامنے نہیں آیا تھا )۔
ان کا خیال تھا کہ امریکہ اور یورپ میں رہ کر اور وہاں کے حکمرانوں سے بہتر تعلقات پیدا کر کے بھی یہودی پُر امن طور پر رہ سکتے ہیں۔ برطانیہ کا یہودی مفکر اسرائیل زینگول اسی نظریئے کا حامی تھا۔ ( حوالہ کتاب فری مسینری۔ از بشیر احمد امریکہ 187) یہودیوں کی ایک نمائندہ تنظیم عالمی صیہونی آرگنائزیشن نے بھی عین 1948ء میں جبکہ اسرائیل کا قیام عمل میں آنے والا تھا، اسرائیل کی مخالفت کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا قیام اس طرح بالجبر نہیں بلکہ پُر امن سفارتی مذاکرات کے ذریعے ممکن بنانا چاہیے۔ ( کتاب قومیں جو دھوکہ دیتی رہیں۔ ترجمہ راقم الحروف 78 )۔ مذہبی یہودیوں کی ایک تنظیم ” بنٹو رائی کارٹا “ کا اب بھی اسی عقیدے پر اعتقاد ہے کہ اسرائیل کا قیام زیادتی ہے۔
وہ لوگ دو ورقے وغیرہ نکالتے رہتے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ ” تم لوگ خدائی احکامات کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہو؟ جس مہم کو تم لوگ لے کر اٹھے ہو وہ ہر گز کامیاب نہ ہو گی “۔ ابتداء میں بیشتر مذہبی یہودیوں کا خیال تھا کہ اسرائیل کی سرزمین کی طرف ان کا لوٹنا اسی وقت ممکن ہے جبکہ خدا آسمان سے ان کے مسیحا ( جو ہمارے نزدیک دجال ہے ) کو نہ بھیج دے۔ اسرائیل کے جبری قیام کو خود صیہونی لیڈر بھی تسلیم کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ڈیوڈ بن گوریان نے جو بعد میں اسرائیلی وزیراعظم بھی بنا، یہودی لیڈروں کے سامنے حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ ” ہم باہر کی دنیا میں الفاظ کی جنگ کے ذریعے عربوں کی مخالفت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں اس سچائی کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم ہی ظالم اور جارح لوگ ہیں اور عرب لوگ صرف اپنا دفاع کر رہے ہیں “۔ ( قومیں جو دھوکہ دیتی ہیں۔ ترجمہ راقم الحروف ) معروف معتوب امریکی کانگریس فیمبر پال فنڈلے اپنی عظیم کتاب THEY DARE TO SPEAK OUT میں لکھتا ہے کہ ” کئی امریکی یہودی، اسرائیل کی سرکاری پالیسیوں کے ساتھ واضح اور حیران کن اختلاف رکھتے ہیں۔ امریکہ میں یہودیوں کی تنظیم ” امریکن فرینڈز سروس کمیٹی “ کے نمائندوں کو اینٹی سیمیٹک اور PLO کے دیوانے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اسرائیلی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے اور فلسطینیوں کے لئے ایک آزاد اور معقول PROPER وطن کا مطالبہ کرتے ہیں۔
وہ لکھتا ہے کہ ایک شخص جس نے اسرائیل کے قیام میں بنیادی حصہ لیا اور پھر USA میں اس کے لئے حمایت پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، بعدازاں وہ بھی اسرائیلی پالیسیوں کا نقاد بن گیا۔ اس شخص کا نام ہے ” ناہم گولڈ مین “ اور وہ کہتا تھا کہ اگرچہ اسرائیل کا قیام ضروری ہے لیکن یہودیوں کو اس طرح جبراً فلسطین پر قبضہ کرنے کی بجائے عربوں کے ساتھ باہمی مفاہمت کرنی چاہیے۔ اس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے قیام کے بعد اصلی صیہونیت کے مقاصد سے روگردانی کی جا رہی ہے۔ اس نے صیہونیوں کے اس دعوے کو رد کر دیا کہ اسرائیل پر قبضے کا مطلب خدائی وعدے کی تکمیل ہے۔ امریکہ کے دو اور یہودی بُرجر اور الفریڈ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو اسرائیلی ریاست کے وجود کے خلاف ہیں۔ انہوں نے ابتداء ہی میں پیش گوئی کی تھی کہ یہودی مملکت بننے سے یہودیت کو شدید خطرہ لاحق ہو گا۔
اسرائیل کے قیام اور UNO کی جانب سے تسلیم کئے جانے کے مدتوں بعد تک یہ دونوں یہودی، اسرائیل کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ برجر نے 1953ء میں اپنی وہ معروف کتاب لکھی تھی جس کا عنوان ہے WHAT PRICE ISRAEL? ( حوالہ کتاب DARE TO SPEAK OUT ۔ 378) مندرجہ بالا جائزے سے یہ بات بہت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ بہت سے اہم یہودی افراد اسرائیل کے قیام پر آج بھی بے چین ہیں لیکن بد قسمتی سے صیہونیت کے علمبردار ان پر حاوی آ گئے ہیں اور ان کے نظریات کو پریس اور ٹی وی پر نہیں آنے دیتے۔ نوم چومسکی، مینرونسکی، اینتھونی لیوس، سیموئر ہرش، آنجہانی اسرائیل شہاک اور کلٹزنک کا شمار اسرائیل مخالفین میں ہوتا ہے لیکن ان کی آوازیں امریکی حکومت اور طاقتور صیہونی شخصیات کے شور و غوغا میں دب جاتی ہیں۔
یہ بات بھی واضح کرنی ضروری ہے کہ اسرائیل میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ایک چوتھائی شہریوں کو آج بھی یقین نہیں ہے کہ اسرائیل ایک طویل عرصے کے لئے قائم رہ سکے گا۔ یہ سروے ایک مقامی اسرائیلی اخبار میں شائع ہوا تھا اور اسے بعض پاکستانی اخبارات نے 8-9-07 کو لفٹ کیا تھا لہٰذا ان حالات میں یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ کیا کسی مسلم ملک کو بھی اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے یا نہیں؟
ذیل کی سطروں سے اندازہ ہو گا کہ لاتعداد یہودی آج بھی اسرائیل کے وجود کو تورات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ امریکہ میں مقیم ایک اہم یہودی مذہبی پیشوا ” لیسرائیل “ نے اسرائیلی ریاست کو ایک غیر شرعی ریاست قرار دیا ہے۔ مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق نیو یارک میں ایک پریس بریفنگ کے دوران انہوں نے کہا کہ اسرائیلی ریاست تورات کی رو سے غیر شرعی ہے کیونکہ ہماری شریعت میں کسی قومی اور یہودی سلطنت کا کوئی جواز موجود نہیں ہے۔ یہودی پیشوا نے کہا کہ فلسطین جائز طور پر مسلمانوں کا ملک ہے اور مسجد اقصیٰ انہی کی ہے۔ رہا ہیکل سلیمانی تو اب مٹ چکا ہے لہٰذا یہودیوں کو مسجد اقصیٰ کی زمین نہیں کریدنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یہودیوں نے دنیا بھر سے یہودیوں کو مروانے کیلئے فلسطین پر مسلط کر دیا ہے۔ مذہبی پیشوا ایسرائیل جو ایک مذہبی یہودی تنظیم ” حرکت ناطوری “ کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ ان کی جماعت اسرائیل کو بطور ایک ملک کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔
(قومی اخبارات کراچی 10-5-04 ) اسرائیل میں یہودیوں کی ایک مذہبی تنظیم ” ہیریڈم “ مستقل طور پر صیہونیت کی شدید مخالفت کرتی ہے جس کا مقصد اسرائیل کا قیام اور اس کی توسیع ہے۔ ہیریڈم والے صیہونیت کی جو مخالفت کرتے ہیں اس کی بنیاد تالمود کی تعلیمات ہیں جن کے مطابق خدا نے یہودیوں سے تین عہد لئے تھے جن میں سے دو یہ ہیں (1) یہودیوں کو غیر یہودیوں کے خلاف بغاوت نہیں کرنی چاہئے اور (2) مسیح کی آمد سے پہلے فلسطین کی طرف اجتماعی نقل مکانی نہیں کرنی چاہئے۔ 1500 سالہ ماضی کے دوران روایت پسندانہ یہودیت کے ربیوں کی اکثریت نے مذکورہ دونوں عہدوں کی یہی تعبیر کی ہے کہ جلاوطنی ( دربدری، DIASPORA) یہودیوں پر لازمی ہے اور یہ دربدری خدا نے ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے عائد کر رکھی ہے۔ ( اسرائیل میں بنیاد پرستی۔
مصنف اسرائیل شحاک 53-52) ماضی میں ایک اسرائیلی یہودی اسکالر ” ایویا زریو “ نے لکھا تھا کہ تیرہویں صدی کے دوران جب کچھ ربی اور شاعر مذہبی وجوہات کے تحت فلسطین چلے گئے تو دنیا کے دوسرے حصوں میں موجود ربیوں نے اس عمل پر مذکورہ بالا تین عہدوں کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح وورٹز برگ جرمنی کے ایک مذہبی روحانی رہنما ربی ایلیاز موشے نے مذکورہ ہجرت کرنے والے یہودیوں کو انتباہ کیا تھا کہ وہ غلطی کر رہے ہیں اور خدا موت کی صورت میں انہیں اس کی سزا دے گا۔ تقریباً اسی زمانے میں اسپین کے ایک ربی ” ایذرا “ نے بھی کہا تھا کہ جو یہودی فلسطین کی طرف نقل مکانی کر جاتا ہے وہ خدا کو فراموش کر دیتا ہے۔ اسکالر ” ایویا زریو “ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ربیوں کی جانب سے انیسویں صدی تک عام طور پر ایسے ہی، بلکہ اس سے زیادہ انتہائی تصورات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ ممتاز جرمن ربی ” یہاناتھن “ نے اٹھارہویں صدی کے وسط میں لکھا کہ یہودیوں کی فلسطین کی جانب نقل مکانی مسیح ( دجال ) کی آمد سے پہلے ممنوع ہے خواہ اسے دنیا کی اقوام کی تائید ہی کیوں نہ حاصل ہو۔
اسی طرح انیسویں صدی کے اوائل میں جرمنی میں جدید آرتھوڈکس نظریات کے بانی ربی ” رافائیل ہرش “ نے (1837) میں لکھا کہ ” خدا نے یہودیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی کوششوں سے اپنی ریاست کبھی قائم نہ کریں “۔ اسی سال جب شمالی فلسطین میں ایک زلزلہ آیا اور وہاں منتقل ہونے والے بیشتر یہودی اس زلزلے سے ہلاک ہو گئے تو ہنگری کے ایک ممتاز ربی ” موشے ٹائیٹل بام “ نے اس حادثے کو یہودیوں کے لئے خدا کا عذاب قرار دیا۔ اس نے کہا کہ ” خدا کی رضا یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی کوششوں اور ارادے سے سرزمین اسرائیل کی طرف جائیں “۔ ایک اور اہم ہیریڈم ربی یوسف نے 1989ء میں ایک صیہونیت مخالف کنونشن منعقد کیا جس میں اس نے اسرائیلی دہشت گرد تنظیم ” گش ایمونیم “ کے ربیوں کے اس نظریئے سے اختلاف کیا کہ نجات کا آغاز ہو چکا ہے اور خدا کا حکم ہے کہ ارض اسرائیل کو فتح کر لیا جائے اور یہ کہ نجات کا آغاز ہونے کی وجہ سے ارض اسرائیل کا کوئی حصہ غیر یہودیوں کو نہیں دینا چاہئے “۔
دوسرے الفاظ میں ربی یوسف اس بات کا قائل تھا کہ اسرائیل کی سرزمین میں غیر یہودیوں کو بھی آزادانہ طور پر بسایا جا سکتا ہے جس کی اس وقت اسرائیل میں پابندی ہے۔ ربی یوسف نے کنونشن میں بتایا کہ مسیح کا زمانہٴ نجات ابھی شروع نہیں ہوا ہے۔ اس نے کہا کہ ریاست اسرائیل گناہ گار یہودیوں سے بھری ہوئی ہے جن سے خدا ناراض ہے ( حوالہ کتاب: اسرائیل میں بنیاد پرستی۔ از اسرائیل شحاک ) تھیوڈ ور ہرزل نظریہٴ صیہونیت کا بانی ہے اور اسے یہودیوں میں ایک قومی فکر کی حیثیت حاصل ہے۔ اس نے 1897ء میں تحریک صیہونیت کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کے لئے ایک قومی وطن کا قیام ضروری ہے۔ تاہم فرانس اور لندن کے بعض بااثر یہودی صیہونیت کو یہودیت کے سیاسی مسئلے کا حل نہیں سمجھتے تھے۔ ( اس وقت تک امریکہ ابھر کر نمایاں طور پر سامنے نہیں آیا تھا )۔
ان کا خیال تھا کہ امریکہ اور یورپ میں رہ کر اور وہاں کے حکمرانوں سے بہتر تعلقات پیدا کر کے بھی یہودی پُر امن طور پر رہ سکتے ہیں۔ برطانیہ کا یہودی مفکر اسرائیل زینگول اسی نظریئے کا حامی تھا۔ ( حوالہ کتاب فری مسینری۔ از بشیر احمد امریکہ 187) یہودیوں کی ایک نمائندہ تنظیم عالمی صیہونی آرگنائزیشن نے بھی عین 1948ء میں جبکہ اسرائیل کا قیام عمل میں آنے والا تھا، اسرائیل کی مخالفت کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا قیام اس طرح بالجبر نہیں بلکہ پُر امن سفارتی مذاکرات کے ذریعے ممکن بنانا چاہیے۔ ( کتاب قومیں جو دھوکہ دیتی رہیں۔ ترجمہ راقم الحروف 78 )۔ مذہبی یہودیوں کی ایک تنظیم ” بنٹو رائی کارٹا “ کا اب بھی اسی عقیدے پر اعتقاد ہے کہ اسرائیل کا قیام زیادتی ہے۔
وہ لوگ دو ورقے وغیرہ نکالتے رہتے ہیں جن میں لکھا ہوتا ہے کہ ” تم لوگ خدائی احکامات کی خلاف ورزی کیوں کرتے ہو؟ جس مہم کو تم لوگ لے کر اٹھے ہو وہ ہر گز کامیاب نہ ہو گی “۔ ابتداء میں بیشتر مذہبی یہودیوں کا خیال تھا کہ اسرائیل کی سرزمین کی طرف ان کا لوٹنا اسی وقت ممکن ہے جبکہ خدا آسمان سے ان کے مسیحا ( جو ہمارے نزدیک دجال ہے ) کو نہ بھیج دے۔ اسرائیل کے جبری قیام کو خود صیہونی لیڈر بھی تسلیم کرتے تھے۔ مثال کے طور پر ڈیوڈ بن گوریان نے جو بعد میں اسرائیلی وزیراعظم بھی بنا، یہودی لیڈروں کے سامنے حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا کہ ” ہم باہر کی دنیا میں الفاظ کی جنگ کے ذریعے عربوں کی مخالفت کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں اس سچائی کو کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہم ہی ظالم اور جارح لوگ ہیں اور عرب لوگ صرف اپنا دفاع کر رہے ہیں “۔ ( قومیں جو دھوکہ دیتی ہیں۔ ترجمہ راقم الحروف ) معروف معتوب امریکی کانگریس فیمبر پال فنڈلے اپنی عظیم کتاب THEY DARE TO SPEAK OUT میں لکھتا ہے کہ ” کئی امریکی یہودی، اسرائیل کی سرکاری پالیسیوں کے ساتھ واضح اور حیران کن اختلاف رکھتے ہیں۔ امریکہ میں یہودیوں کی تنظیم ” امریکن فرینڈز سروس کمیٹی “ کے نمائندوں کو اینٹی سیمیٹک اور PLO کے دیوانے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اسرائیلی پالیسیوں پر نکتہ چینی کرتے اور فلسطینیوں کے لئے ایک آزاد اور معقول PROPER وطن کا مطالبہ کرتے ہیں۔
وہ لکھتا ہے کہ ایک شخص جس نے اسرائیل کے قیام میں بنیادی حصہ لیا اور پھر USA میں اس کے لئے حمایت پیدا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، بعدازاں وہ بھی اسرائیلی پالیسیوں کا نقاد بن گیا۔ اس شخص کا نام ہے ” ناہم گولڈ مین “ اور وہ کہتا تھا کہ اگرچہ اسرائیل کا قیام ضروری ہے لیکن یہودیوں کو اس طرح جبراً فلسطین پر قبضہ کرنے کی بجائے عربوں کے ساتھ باہمی مفاہمت کرنی چاہیے۔ اس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے قیام کے بعد اصلی صیہونیت کے مقاصد سے روگردانی کی جا رہی ہے۔ اس نے صیہونیوں کے اس دعوے کو رد کر دیا کہ اسرائیل پر قبضے کا مطلب خدائی وعدے کی تکمیل ہے۔ امریکہ کے دو اور یہودی بُرجر اور الفریڈ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو اسرائیلی ریاست کے وجود کے خلاف ہیں۔ انہوں نے ابتداء ہی میں پیش گوئی کی تھی کہ یہودی مملکت بننے سے یہودیت کو شدید خطرہ لاحق ہو گا۔
اسرائیل کے قیام اور UNO کی جانب سے تسلیم کئے جانے کے مدتوں بعد تک یہ دونوں یہودی، اسرائیل کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ برجر نے 1953ء میں اپنی وہ معروف کتاب لکھی تھی جس کا عنوان ہے WHAT PRICE ISRAEL? ( حوالہ کتاب DARE TO SPEAK OUT ۔ 378) مندرجہ بالا جائزے سے یہ بات بہت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ بہت سے اہم یہودی افراد اسرائیل کے قیام پر آج بھی بے چین ہیں لیکن بد قسمتی سے صیہونیت کے علمبردار ان پر حاوی آ گئے ہیں اور ان کے نظریات کو پریس اور ٹی وی پر نہیں آنے دیتے۔ نوم چومسکی، مینرونسکی، اینتھونی لیوس، سیموئر ہرش، آنجہانی اسرائیل شہاک اور کلٹزنک کا شمار اسرائیل مخالفین میں ہوتا ہے لیکن ان کی آوازیں امریکی حکومت اور طاقتور صیہونی شخصیات کے شور و غوغا میں دب جاتی ہیں۔
یہ بات بھی واضح کرنی ضروری ہے کہ اسرائیل میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق ایک چوتھائی شہریوں کو آج بھی یقین نہیں ہے کہ اسرائیل ایک طویل عرصے کے لئے قائم رہ سکے گا۔ یہ سروے ایک مقامی اسرائیلی اخبار میں شائع ہوا تھا اور اسے بعض پاکستانی اخبارات نے 8-9-07 کو لفٹ کیا تھا لہٰذا ان حالات میں یہ سوال اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ کیا کسی مسلم ملک کو بھی اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے یا نہیں؟