چهارشنبه 30/آوریل/2025

بصارت سے زیادہ بصارت کی ضرورت ہے

ہفتہ 10-جنوری-2009

اسرائیل کے فرعون سے بھی زیادہ سفاک صیہونیوں نے غزہ کی پٹی کے سینکڑوں معصوم فلسطینی بچوں کو اپنے خونی انتقام کا نشانہ بنا کر اور اس بھیانک ظلم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کر کے تاریخ میں شائد پہلی مرتبہ کسی ایسے امریکی صدر (بارک ابامہ) نے اپنے عہدے اور اقتدار کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی اپنی مقبولیت کے گراف کو سرنگوں کر دیا ہو گا جو عالمی منظر نامے پر بطور ”نجات دہندہ“ ابھرنے کا ارادہ یا خواہش رکھتا ہو گا۔
بحرانوں میں غلطاں و پہچاں حالات عالمی سطح پر ایسی بے شمار ”سرپرائزز“ کے اندیشوں سے دھڑک رہے ہیں اور سب سے بڑا اندیشہ یہی ہے کہ سال 2009ء عالمی سرمایہ داری نظام کے لئے اتنا ہی منحوس ہو سکتا ہے جتنا کہ عالمی اشتراکی نظام کے لئے سال 1989ء منحوس ثابت ہوا تھا۔ اس کے باوجود کہ بہت سے ماہرین معیشت ابھی تک اس خوش فہمی میں مبتلا رہنا چاہتے ہیں کہ قدرت اور فطرت کے اصولوں اور طریقوں سے ماورا حالات میں موجودہ مالیاتی بحرانوں کے اندر ان بحرانوں کے علاج نکل آئیں گے بالغ نظر ماہرین کو دور دور تک بحرانوں میں کوئی افاقہ دکھائی نہیں دے رہا بلکہ حالات مزید بگڑتے دکھائی دیتے ہیں۔

نیو یارک کی رپورٹ ہے کہ سال 2008ء کے دسمبر کے مہینے میں امریکہ کے نجی اداروں نے چھ لاکھ 93 ہزار سے زیادہ لوگوں کو بے روزگاری کے جہنم میں دھکیلا ہے جب کہ اس سے پچھلے مہینے نومبر 2008ء میں چار لاکھ 76 ہزار لوگوں کے روزگار ختم کئے گئے تھے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حالات کس تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ یہ صرف اندیشہ ہی نہیں حادثہ اور وقوعہ بھی ہے کہ کئی کئی دہائیوں کی مثبت کارکردگی ایک ایک رات کے منفی اندھیروں میں غرق ہو رہی ہے۔

بائیں بازو کے دانشور ایلن ووڈز بتاتے ہیں کہ امریکی میڈیا کی بھرپور کوشش رہی ہے کہ بارک حسین ابامہ کو سرمایہ داری نظام کے ساتھ پیش کرنے والے ایک ایسے معجزے کے طور پر پیش کیا جائے کہ جو نہ صرف صدر جارج ڈبلیو بش اور ان کے رفقائے کار کی پھیلائی ہوئی گندگی کو صاف کرے گا بلکہ سرمایہ داری نظام کی راہوں میں نئے گل بوٹے لگانے میں بھی کامیاب ہو جائے گا۔

ایلن کے الفاظ میں بارک ابامہ ایک ایسے حکیم کے طور پر پیش کئے جا رہے ہیں کہ جو گاؤں گاؤں ہر بیماری اور ہر روگ کے علاج کے طور پر ”سانپ کا تیل“ فروخت کرتے پھر رہے ہیں اور سارے بیمار اور روگی ان سے ”سانپ کے تیل“ کی بوتلیں خرید رہے ہیں مگر سانپ کا یہ تیل بیماری دور کرنے یا روگ ختم کرنے کے سلسلہ میں کوئی معجزہ نہیں دکھا رہا اور حکیم صاحب سانپ کا تیل فروخت کر کے اور پہلے سے زیادہ امیر ہو کر اس بستی سے نکل کر اگلی بستی میں جا چکے ہیں۔
 
ایلن ووڈز کا کہنا ہے کہ سانپ کا تیل بیچنے والے بارک ابامہ کو سرمایہ داری نظام کے روگی اور مبتلائے عوارض لوگ بستی چھوڑنے نہیں دیں گے ان کی حکمت کو ننگا کر دیں گے۔ ان کے معجزوں کو نقلی شعبدے ثابت کر دیں گے اور کچھ بعید نہیں کہ بارک ابامہ کا انجام جارج ڈبلیو بش کے انجام سے بھی زیادہ عبرت ناک ثابت ہو۔

ایلن کے خیال میں سرمایہ داری نظام کی جو درگت امریکی حکمرانوں نے بنائی ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے جمہوریت محض ایک ڈھونگ کی صورت میں دکھائی دیتی ہے جو ایک حکمران کی طرف سے دیئے گئے زخموں کو چھپانے اور نئے حکمرانوں کو سابق حکمرانوں جیسی غلطیاں کرنے کا موقع فراہم کرنے کے لئے رچائے جاتے ہیں۔ ایلن کے مطابق یہ تو سب لوگوں پر پوری طرح واضح ہوچکا ہے کہ سرمایہ داری نظام محض خراب ہی نہیں ہوا پلید بھی ہو چکا ہے مگر وہ اپنے نئے حکمرانوں سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ نظام میں یہ خرابیاں لانے کا ذمہ دار کون ہے

اس ذمہ داری کی سزا کس کو دی جائے۔ روس میں جب جوزف اسٹالن اور چین میں ماؤزے تنگ کے معجزوں نے کام دکھانا بند کر دیا تھا تو وہاں بھی گوربا چوف اور یلسٹن سے یہی سوال پوچھا جا رہا تھا کہ کارل مارکس اور لینن کے اصولوں کو مسخ کس نے کیا ہے؟ لیکن اصل سوال یہ ہونا چاہئے تھا کہ حالات کو کیسے تبدیل کیا جائے۔ آج بھی یہی سوال زیادہ اہمیت رکھتا ہے جس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ خاص طور پر ان حالات میں جب بڑے بڑے بینکوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا کہ ان کو جو 135 ارب ڈالروں کی مالیت کی خطیر رقم فراہم کی گئی ہے اس کو کیسے اور کہاں استعمال کیا جائے جب کہ اس استعمال کا کوئی فائدہ دکھائی نہیں دے سکے گا تو پھر کیا کیا جائے؟ کسی کے پاس کوئی جواب نہیں۔

غزہ کی پٹی میں بے گناہ معصوم فلسطینی بچوں کے قتل عام پر ادارہ اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی بلکہ بے بسی نے صرف اسرائیل کے مستقبل کو ہی نہیں خود ادارہ اقوام متحدہ کے مستقبل کو بھی مخدوش کر دیا ہے اور یہ بھی دکھائی دیتا ہے کہ اسرائیل، یو این او اور سرمایہ داری نظام تینوں اپنے مستقبل کی جانب سفر کو تیز سے تیز تر کر رہے ہیں اور مستقبل کے بارے میں یہ پیش گوئی اس سے پہلے بھی بیان کی جا چکی ہے کہ آگے دھند ہی دھند دکھائی دیتی ہے۔ بصارت وہاں تک ہی پہنچ سکتی ہے جہاں تک دکھائی دے رہا ہوتا ہے اس سے آگے دیکھنے کے لئے بصارت کی نہیں بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے اور بصیرت کا اسرائیل، یو این او اور عالمی سرمایہ داری نظام تینوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

لینک کوتاه:

کپی شد