پوری پاکستانی قوم کو ایڈمرل مائیک مولن کے الزامات سے نہ صرف صدمہ ہوا ہے بلکہ پاک امریکہ تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے محب وطن پاکستانی حلقے شدید غم و غصے کی کیفیت میں ہیں۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ ایڈمرل مائیک مولن نے ایک طرف تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا مذاق اُڑایا ہے اور دوسری طرف اُنہوں نے اُلٹا پاکستان کو دہشت گردی کی کارروائیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ امریکی افواج کے اعلیٰ عہدیدار کی یہ باتیں انتہائی شرمناک ہیں‘ جن کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو نقصان پاکستان کا ہوا وہ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں سمیت پوری دنیا کے اجتماعی نقصانات سے بھی سوگنا زیادہ ہے۔ نائن الیون کے واقعے کے بعد اب تک لاکھوں بے گناہ پاکستانی شہری دہشت گردی کی کارروائیوں کا شکار ہوئے۔ پاکستان کی مسلح افواج کے ہزاروں افسروں اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
دہشت گردی کے خلاف جاری فوجی آپریشنز پر اربوں ڈالرز کے اخراجات ہوئے، پاکستانی معیشت بحران کا شکار ہوئی، انفرااسٹرکچر تباہ ہوا، بے یقینی کی صورت حال کے باعث ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہوئی۔ بیروزگاری‘ غربت اور افراتفری میں اضافہ ہوا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ بن کر پاکستان نے ساری دنیا کے عذاب خود جھیلے۔ اُس کے باوجود یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کے شدت پسندوں کے ساتھ روابط ہیں۔ قبل ازیں امریکہ کی سویلین اور فوجی قیادت‘ امریکہ کے ذرائع ابلاغ اور تھنک ٹینکس کئی سالوں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں اور افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کے اہم اور مثبت کردار کی تعریف کرتے رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف مہم بھی جاری رہی کہ وہ مبینہ طور پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں میں مخلص نہیں ہے۔ اب یہ مہم کھل کر سامنے آگئی ہے اور پاکستان کی ایک انٹیلی جنس کو تنہا کر کے اُسے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی حالات پر نظر رکھنے والے حلقے اس بات کو پاکستان کے خلاف ایک بہت بڑی سازش قرار دے رہے ہیں کیونکہ آئی ایس آئی پاکستان کا ایک ایسا ادارہ ہے جو پاکستان کی داخلی سلامتی اور یکجہتی کے خلاف اندرونی اور بیرونی سازشوں کا توڑ کرتا ہے اس خطے میں امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے‘ بھارتی ”را“ اور اسرائیلی موساد کے گٹھ جوڑ اور سرگرمیوں کو اب زیادہ دیر تک مخفی نہیں رکھا جاسکتا۔ امریکی اور مغربی ذرائع ابلاغ کئی بار اس بات کی نشاندہی کر چکے ہیں کہ پاکستان میں انتہا پسندوں خصوصاً طالبان کے کئی گروہوں اور بلوچستان کے شدت پسندوں کو امریکی‘ بھارتی اور اسرائیلی خفیہ اداروں کی حمایت اور مدد حاصل ہے۔ پاکستان کے پاس بھی اس امر کے ثبوت ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں مذکورہ خفیہ ادارے ملوث ہیں۔ آئی ایس آئی کو مورد الزام ٹھہرانے والے خود اپنے گریبان میں جھانکیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے پاکستان کے خلاف امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے سازش کا جو جال بچھایا ہے‘ اُن سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے آئی ایس آئی کا کردار شاید امریکہ کو پسند نہیں ہے۔
امریکی صدر بارک اوباما کی نئی افغان پالیسی کے خالق بروس ریڈل گزشتہ دو سال سے پاکستان خصوصاً آئی ایس آئی کی دہشت گردی کے خلاف کوششوں میں اخلاص پر شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔ نیوز ویک میں اُنہوں نے اپنے حالیہ آرٹیکل میں صدر آصف علی زرداری کے حوالے سے ایک من گھڑت بات کی کہ پاکستان کی فوج ”ڈبل گیم“ کھیل رہی ہے۔ اس طرح اُنہوں نے پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی۔
ریمنڈ ڈیوس کے واقعے کے بعد پوری پاکستانی قوم پاکستان کے خلاف خفیہ امریکی کارروائیوں پر نہ صرف شدید تشویش میں مبتلا ہے بلکہ امریکہ کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی حدود میں ڈرون حملہ امریکہ کے خلاف نفرت کی آگ کو مزید بھڑکا دیتا ہے۔ امریکی قیادت کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ پاکستان میں جیسے جیسے امریکہ کے خلاف نفرت بڑھے گی‘ ویسے ویسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مشکلات پیدا ہوں گی اور دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر سیاسی طور پر مضبوط ہوں گے۔ اس سے پاکستان کے سیاسی حالات میں بے یقینی پیدا ہوگی اور جمہوری حکومت کو خطرات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ امریکی سویلین اور فوجی قیادت کو چاہئے کہ وہ اس صورت حال کا ادراک کرے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے سب سے اہم اتحادی پاکستان کے لیے مسائل پیدا نہ کرے اور پاکستان میں اپنے خلاف بھڑکتی ہوئی نفرت کی آگ پر قابو پائے۔
پاکستان آج جن مسائل سے دوچار ہے یہ سب امریکہ کے پیدا کردہ ہیں۔ امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف ”جہادیوں“ کو جنم دیا۔ افغانستان سے سوویت انخلاء کے بعد امریکہ نے پاکستان کو تنہا چھوڑ دیا۔ پاکستان میں خانہ جنگی کی صورت حال پیدا ہوگئی جہاں ”وارلارڈز“ نے مختلف علاقوں میں اپنی اپنی حکومتیں قائم کردیں۔ اُنہوں نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کیا نتیجتاً طالبان نمودار ہوئے۔ نائن الیون کے بعد اس صورت حال کی سنگینی میں اضافہ ہوگیا۔ اب امریکہ نے 2014ء میں افغانستان سے نکلنے کا پروگرام بنایا ہے لیکن وہ افغانستان میں افغان عوام کی وسیع تر حمایت والا کوئی نظام لانے میں ناکام نظر آتا ہے۔ یہ صورت حال بھی پہلے کی طرح پاکستان کے لیے مزید خطرناک نتائج کی حامل ہوگی۔ اس تناظر میں ایڈمرل مائیک مولن کے الزامات نے پاکستانی قوم کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔
چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کردیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مستقبل کے لائحہ عمل سے متعلق ابہام کا شکار ہے اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے پاکستانی فوج کی کوششیں ناکافی ہیں۔ آرمی چیف کا کہنا ہے کہ پاک فوج کی کامیابیاں اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پرعزم ہے۔ آرمی چیف کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ امریکہ ”ڈومور“ (DO MORE) کی مسلسل رٹ سے اپنے ایک بڑے اتحادی کو پریشان کررہا ہے۔ امریکہ شاید یہ چاہتا ہے کہ ڈرون حملوں پر کوئی اعتراض نہ کرے، سی آئی اے اور دیگر خفیہ اداروں کی سرگرمیوں میں کوئی رکاوٹ نہ بنے، پاکستان آنکھیں بند کرکے شمالی وزیرستان میں آپریشن کرے، یہ مقاصد پورے نہ ہونے پر شاید آئی ایس آئی کو سنگل آؤٹ کرکے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ بات پوری قوم کے لیے لمحہٴ فکریہ ہے۔ایڈمرل مائیک مولن کے الزامات سے پاک امریکہ تعلقات سے متعلق نئے سوالات نے جنم لیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کو چاہئے کہ وہ اپنے فیصلوں پر ازسرنو غور کرے۔