پنج شنبه 01/می/2025

ایٹمی ہتھیار، اسرائیل کی نظر بندی

جمعرات 4-مارچ-2010

پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر اسرائیل نے ببانگ دہل تشویش کا اظہار فرمایا ہے۔ ہمیں اس تشویش پر شدید تشویش ہونی چاہئے۔ اندازہ کیجئے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس مغربی ممالک (جن کی دہشت گردی کے چرکے سہتے مسلم دنیا کو آٹھ سال ہو گئے) کے ہوتے ہوئے نیز خود اسرائیل نے چیونٹی کی طرح اپنی مملکت کے وزن سے کئی گنا ایٹمی ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔ ایسے میں کانفرنس منعقد کر کے پاکستان کے ہتھیاروں پر تفتیش و تشویش بھری ہرزہ سرائی کیا معنی رکھتی ہے۔ کانفرنس کا عنوان ملاحظہ فرمائیے۔ اسلامی ممالک میں جوہری ہتھیاروں کے حصول کی خواہش، مقبوضہ بیت المقدس میں منعقدہ اس کانفرنس میں اسرائیلی صدر فرماتے ہیں غلبے کی خواہش اور ایٹمی ہتھیاروں کا ایک جگہ جمع ہونا خطرناک ہے امریکا کی کالونی بنا پاکستان اور غلبے کی خواہش؟ تسلی رکھیئے جناب! فی الوقت تو پاکستان ویلنٹائن ڈے منا کر فارغ ہوا ہے۔ بسنت کی تیاری میں ہے۔ اسلام آباد کو میوزیکل سٹی بنانے کی خواہش میں امریکی سفارتخانے کے تعاون سے نوجوان لڑکے لڑکیوں کو نیویارکی براڈوے تھیٹر (امریکی ہیرا منڈی) طرز کے مخلوط ناچ کی شاندار پیش کش کا خمار ابھی نہیں اترا۔

درج بالا ثقافتی ہنگامے کیلئے اسلام آباد کے سکولوں، تعلیمی اداروں کے منتخب لڑکے لڑکیوں کو چار دن تربیت دی گئی تھی۔ (اگرچہ بے ہنگام ٹکریں مارنے کیلئے کونسی تربیت درکار تھی)! اب ایک اور فائیو سٹار سکول میں (جرمن) جرمن ثقافت ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے۔ ایسے میں کس غلبے کی خواہش؟ یہاں تو نفسانی خواہشات سے مغلوب نسل تیاری کے مراحل میں ہے۔ گوگل ٹرینڈز کیمطابق فحش ویب سائٹس دیکھنے والے ممالک میں پاکستان نمایاں مقام رکھتا ہے۔ نیز نوجوانوں میں نیٹ اور موبائل کے غیر اخلاقی حیا سوز استعمال پر بھی پاکستان سافٹ ویئر ہاؤس ایسوسی ایشن کے صدر نے اظہار تشویش کیا ہے۔ ایسے میں نوجوانوں کو ایٹمی ہتھیاروں سے کیا غرض! شاید شمعون پیریز سورہ توبہ، انفال کا ترجمہ پڑھ کر لرز گیا ہو۔ تسلی رکھیئے، خاطر جمع رکھئے۔ ایسے تمام نوجوان جو امت کا غم، درد یا تصور رکھتے ہیں وہ سب عقوبت خانوں میں ہیں بڑے بھاری دہشت گردانہ القابات کیساتھ ایسے تمام لوگوں سے نمٹا جا رہا ہے۔ جو خدانخواستہ، پاکستان کو امت کے تصور سے آشنا کر دیں۔ عظمت گم گشتہ یاد دلا دیں۔ یقین نہ آئے تو کراچی لاہور فیشن شوز کی ویڈیوز دیکھ لیں۔ یہودی لڑکیاں شرما جائینگی کیونکہ ان ڈریس شوز میں ڈریس کے سوا سب کچھ تھا۔ لہذا تسلی رکھئے قوم کا دھیان بٹا ہوا ہے۔ دل بہلاوے کو یہ سب ہے۔ ناچ تماشے، شادی بیاہوں کی دھومیں، رنگرلیاں اس سیزن میں اس پر مستزاد ہیں جو ہر شہر کے گلی کوچوں ہوٹلوں میں آپ دیکھ سکتے ہیں۔ غلبے والی آیات قوم کے نصاب میں نہیں ہیں۔ یہ نکال کر ہم نے ”ایڈ” لے لی تھی۔

عافیہ صدیقی نے امریکا میں 30 ہزار قرآن پاک تقسیم کئے تھے۔ وہ پاکستان میں رہتی تو یہاں بھی یہی کچھ کرتی اس لئے ہم نے اسے واپس کر دیا۔ تم جہاں اسے چاہو رکھو۔ دیکھ لو وہ جیل سے بھی یہودی، یہودی پکارتی ہے۔ لگتا ہے وہ بھی بیت المقدس کے غم میں مبتلا ہے۔ بس یہی انتہا پسندی ہے جو ہمیں وارا نہیں کھاتی!

شمعون کو حروفِ تسلی تو خونِ جگر پی پی کر امڈ آنے والی تلخ نوائی ہے لیکن اس قوم مسلم کو بھی کہیں رک کر، بریک لگا کر اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ کیا غضب ہے کہ یورپین یونین تو ایک متحدہ قوت بن گئی۔ ایک یورپی بلا روک ٹوک تمام یونین کے ممالک میں آزادانہ گھوم پھر سکتا ہے۔ ان کی کرنسی، فوجی قوت، سب ایک ہو گئے۔ اہداف ایک ہو گئے۔ نبی کریمۖ کی شان میں گستاخی کیلئے کارٹون ایک جگہ چھپتے ہیں تو یہ تمام ممالک اس میں اپنا حصہ ڈالنا لازم جانتے ہیں۔ پردے پر ایک ملک کو تکلیف ہوتی ہے تو دیگر ممالک بھی لپکتے ہیں حجاب کی تذلیل کیلئے کروڑوں کی آبادی کی حامل یورپین یونین میں دو تین ہزار حجاب والی خواتین بیک زبان تیر و تفننگ کی زد میں آ جاتی ہیں۔ کفر پوری دنیا میں ہم زبان، یکسو، یکجان اور ان کی بارات میں پیچھے پیچھے دہشت گردی کا ڈھول پیٹتے 59کرزئی! ایک اللہ، ایک رسول، ایک قرآن اور قبلہ پر ایمان جو عربی، عجمی، کالے، گورے کی تصدیق سے ماورا ایک عظیم امت تشکیل دیتا ہے۔ اسے خواب میں دیکھ کر شمعون کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ ادھر ہم اپنی شناخت سے عاری گورے بننے کے شوق میں مرے جاتے ہیں۔

یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود!

ہم کفر کے ہاتھوں چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم در تقسیم کر دیئے گئے۔ امت کا نام لینا بھی منع ہے۔ ملکوں کے بعد ہم برادریوں، رنگ، نسل، زبان میں منقسم ہوئے۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ جماعتوں کی تقسیم نے پوری کر دی۔ جس طرح اپنے اپنے گھر میں رہتے ہوئے مامت کے درد میں تڑپنا ممکن تھا اسی طرح اپنے اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی اسلام کے مفاد کو ترجیح دینا ممکن ہے لیکن ہمارے اندر تقسیم کا وائرس اس طرح سرایت کر چکا ہے کہ ہزاروں لاپتہ افراد میں سے ہم آواز اٹھائیں گے تو صرف جماعتی بنیادوں پر، قبائل میں بے گھری اور بمباریوں کے چرکے سہتے لاکھوں میں سے تکلیف دہ صرف وہ ظلم ہو گا جو ہماری ذات، برادری، جماعت کے فرد پر ہوا ہو۔ اسی لئے ہماری آنکھوں کے سامنے سوا ارب امت کے بیچ غزہ کی بستی شمعون کے ہاتھوں شعب ابی طالب بنی ہوئی ہے۔ وہی بھوک، آزار کے دکھ ہیں۔ بچوں کی کراہیں، بلبلاہٹیں ہیں جن کی آہ و زاری کا گزر بھی مسلمانوں کے دلوں سے نہیں ہوتا۔

دنیائے کفر سے ہشام بن عمرو، ابو البنتحری (شعب ابی طالب کی معاشی پابندیوں کے خلاف اٹھنے والے کافر) کی صورت جارج گیلوے جیسے یورپی اٹھتے ہیں، امدادی سامان کا قافلہ لئے تیسری مرتبہ اہل غزہ کی مدد کو آتے ہیں۔ (اللہ ان کے سینوں کو ایمان کے نور سے منور کر دے) مصر کے کرزئی (حسنی مبارک) نے مسلمان محصور بھائیوں کے راستے میں پہلے کھڑی فصیلوں پر اضافہ کرتے ہوئے انکے سفر کو مشکل ترین بنانے میں اسرائیل سے وفاداری کا حق ادا کر دیا۔ بلاشبہ دوسری جانب غزہ اخوت کا حق ادا کرنے میں یورپ کے مسلمانوں نے جارج گیلوے کے ہمراہ بھرپور حصہ ڈالا لیکن جب تک امت اپنے کرزئیوں سے پیچھا چھڑانے کیلئے متحد و متفق نہیں ہو گی ہم ذلت و نکبت کے اس گڑھے سے نہیں نکل سکیں گے۔

میل غضب ہے کہ جماعت اسلامی کے ایم این اے ہارون رشید کا باجوڑ میں گھر اڑانے کیلئے کارروائی میں آنیوالی15فوجی گاڑیوں اور فوجی نفری کے ساتھ امریکی فوجی بھی شامل تھے۔ ضعیف والدہ اور بھتیجی اس آپریشن کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ لاؤ لشکر کی فتوحات بالعموم ایسی ہی ہیں ہر جگہ امریکی فوجیوں کی ہمراہی زخموں پر نمک چھڑکنے کو کافی ہے پھر بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ جنگ ہماری ہے۔

کیا امریکی فوجی مشرقی سرحد پر بھارتی شرانگیزیوں کا جواب دینے کو بھی ہمارے ساتھ کھڑا ہو گا۔ کیا بھارت کیخلاف کشمیر کی آزادی کیلئے بھی پیٹریاس بہادر اسی طرح ہمارا ساتھ دینگے جسے وہ قبائل کیخلاف جنگ میں ہمارے ساتھ ہیں اور داد و تحسین کے ڈونگرے برسا رہے ہیں۔ ہماری کامیابیوں کی تعریف فرما رہے ہیں۔ ہم سے مزید فوجی سازوسامان کے وعدے کر رہے ہیں‘ افواج پرائی جنگ میں جھونک کر ادھر ہم مائیں، بیٹیاں مارتے رہیں، گھر تباہ کرتے رہیں۔
 
طالبان القاعدہ کی پناہ گاہ کہہ کر کسی بھی گھر، مدرسے، مسجد کو گرایا جا سکتا ہے۔ شہروں میں انہی ناموں کی آڑ میں بہترین سیرت و کردار کے حامل نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کر کے معزز خاندانوں کو خوار و زار کرنے میں عار نہیں سمجھا جا رہا۔ ملک بحرانوں کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ سارا ملبہ ملک کے غریب عوام اور شرفا پر پڑ رہا ہے۔ ’’وار ٹیکس‘‘ کے نام سے ایک نئی چھری تیز کی جا رہی ہے۔ ہمارے ہی خلاف جنگ ہمارے ہی پیسے سے لڑی جائیگی؟

امریکا کے ہتھے ایسا ملک پوری تاریخ میں نہ چڑھا ہو گا جو اسکے مفادات کے تحفظ میں ایک ہنستے بستے پھلتے پھولتے ملک کو (بدترین دشمن کی) خاطر برباد کر ڈالے۔ اسرائیل کی زور آوری اور منہ پھٹ بیان کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے ہماری کمزوری بھانپ لی ہے۔ ادھر حماس کے لیڈر کا دبئی میں دیدہ دلیرانہ قتل، ادھر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بری نظر، امت کی بے حمیتی اور بزدلی ہی کی بنا پر ہے۔
 
افغانستان میں منہ کی کھانے کے بعد انکی نظریں پاکستان پر جمی ہیں۔ اس گرتی دیوار کو مضبوط کرنے کی بجائے دھکا دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے تحفظ اور بقا کیلئے انکے وفود کا استقبال بند کیا جائے۔ ایک آتا دوسرا جاتا ہے۔ پاکستان کو انکے وجود سے پاک کیا جائے۔ ایٹمی ہتھیاروں کی مٹی جھاڑ کر، افواج کو صحیح مقام پر واپس لایا جائے سارے بحران دم توڑ دینگے۔ مزید برآں یہ جو ہماری خام خیالی ہے کہ بحرانوں سے نکلنے کا راستہ ’’روشن خیالی‘‘ اور ناچ رنگ میں ہے۔ ہم داڑھیاں منڈوا کر، پردے اتروا، درس بند کروا کر امریکہ، مغرب کو راضی کر لیں گے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب ہو جائیں گے تو جس نے قرآن پڑھا ہے وہ تو جانتا ہے کہ یہ ہم سے ہرگز راضی ہونیوالے نہیں ہیں۔

اللہ ہمیں بار بار تاکیداً بتا چکا ہے۔ اسکے عملی مظاہرے پوری تاریخ میں موجود ہیں۔ اگر سپین کی تاریخ اور صلیبی جنگیں نہیں پڑھیں تو بوسنیا، کوسوو تو ہماری آنکھوں کے سامنے کی خونچکاں داستان ہے۔ یہ علاقے نام کے مسلمانوں کے تھے۔ شراب، نائٹ کلب، عیاشی، فحاشی کیا موجود نہ تھا۔

عیسائی سربوں اور مسلمانوں میں نام کے سوا کوئی فرق نہ تھا۔ ان سے زیادہ روشن خیال ہونا ممکن نہیں۔ اسکے باوجود بوسنیا کی اجتماعی قبروں میں مدفون مسلمان نوجوانوں "concentrationcamps” میں مسلمان لڑکیوں کی عصمت دری، معصوم بچوں کو یورپ کے گرجوں میں پہنچا دیا جانا ذرا تازہ کر لیجئے۔ بوسنیا، کوسوو، میں جو کچھ بچا وہ مسلح جدوجہد کے نتیجے میں ہے۔ جہاد ہی سے انکی بقا وابستہ ہوئی۔ جہاد ہی نے کشمیر کا وہ حصہ ہمیں دیا جو (آج زیرِ عتاب) قبائل کے زورِ بازو کا کمال تھا۔

پاکستان کی بقا اور نجات بھی اسی سے وابستہ ہے۔ عراق اور افغانستان کا سبق بھی یہی ہے۔ عقوبت خانوں میں صالح نوجوانوں کو اسلام اور درسِ قرآن سے مار مار کر باز کروانے کی بجائے خود بابر کی طرح جام شکن توبہ کرکے سربسجود ہو جائیے۔ یہی واحد حل ہے ان سب کا ایک علاج الجہاد۔ الجہاد۔

(بشکریہ نوائے وقت)

 

لینک کوتاه:

کپی شد