پنج شنبه 01/می/2025

ایران کے مسئلے پر امریکی حکومت میں پھوٹ پڑگئی !

بدھ 12-اگست-2009

’’بچے کی جان خطرے میں ہے‘‘- یہ واویلا 1950ء کی دہائی میں شائد قابل اعتبار ہوتا ہو لیکن اب یہ سن کر ہنسی آتی ہے- یہاں جس بچے کاذکر ہے اس کا نام اسرائیل ہے اور 1949ء میں اس کے ناجائز والدین نے اسے اپنے گھر میں رکھنے کی بجائے غریب اور کمزور فلسطینی عوام کے گھر میں بسا دیا- خیال تھا کہ یہ بچہ گھر کے ایک حصے میں پڑا رہے گا لیکن پوت کے پائوں پالنے ہی میں نظر آجاتے ہیں- اس نے کل پرزے نکالے اور گھر کی بقیہ آبادی کو دہشت گردی کے ذریعے بے دخل کر دیا- جب بھی بچے کے مقابلے میں دوسروں کے حقوق کی بات کی جاتی تو اس کے والدین، ماموں، چچا وغیرہ شور مچاتے کہ  ’’بچے کی جان خطرے میں ہے‘‘-

25جولائی کو ’’وال اسٹریٹ جرنل میں ادارتی صفحے کے ایک کالم نے مجھے چونکا دیا   ’’امریکی صدر اسرائیل پر سخت روش اپنا رہے ہیں‘‘- کون صدر؟ براک اوباما؟ ابھی چند گھنٹے پہلے انہیں ٹیلی ویژن پر دیکھا تھا- یہ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ اب بھی وائٹ ہائوس میں ہیں؟ شائد بچے کے شیدائی اب کچھ کمزور پڑ رہے ہیں! کالم نگار نے کہا ہے اپنے دوستوں سے زیادہ ہمارے دشمنوں کو نوازنے کے پریشان کن رجحان کا مظاہرہ کر رہے ہیں- ایک مثل ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے- یہ مثل فارسی کی ہے اور حسن اتفاق سے موضوع گفتگو ایران ہے- بچے کو ’’بجا طور پر‘‘(کالم نگار کے الفاظ میں) یہ تشویش ہے کہ مسلم دنیا سے بہتر تعلقات کیلئے اسرائیل کو قربان کر دیا جائے گا-

صدر اوباماکی سخت روش کی علامت کیا ہے؟ دیکھئے مارچ میں نیتن یاہو اسرائیل کے وزیر اعظم منتخب ہوئے- صدر اوباما نے مغربی کنارے پر اسرائیلیوں کی نئی آبادیاں بسانے کی مسلسل پالیسی پر اسرائیل کے لیڈر کی کھلی مخالفت کاغضب ڈھایا- یہ امریکی صدر کی طرف سے امریکہ کے قریبی اتحادی اور لبرل جمہوریت کے نئے لیڈر کو خوش آمدید کہنے کا انتہائی غیر معمولی طریقہ تھا-‘‘ یہ اوباما کیا شقی القلب ہے، بچہ بلبلا گیا ہو گا؟ خیال ہے کہ اسرائیل پر دباؤ ڈالاگیاتو اس کے لئے عربوں کی طرف سے رعایتوں کا incentive ختم ہو جائے گا- کیا رعایتیں چاہتے ہیں؟ فلسطینی نسلیں نصف صدی سے بے گھر ہیں، خیموں اور ناقص مکانات میں رہ رہی ہیں- 16 برس پہلے ’’پی ایل او‘‘ نے اسرائیل کا وجود تسلیم کر لیا- مصر نے31سال پہلے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر لئے- پردہ نشین ممالک رسوائی کے ڈر سے اس بچے کی انگلی پکڑنے سے گھبراتے ہیں ورنہ زیادہ تر کی دعائیں اس کی درازئ عمر کے لئے ہیں کیونکہ اسرائیل ان ممالک میں جمہوریت کا مخالف ہے-

کیا نوبت یہ آگئی ہے کہ صدر براک اوبامااسرائیل کے مقابلے کے لئے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو شہہ دے رہے ہیں- اس کی علامت یہ ہے کہ محمود عباس نے  اسرائیل سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کیا ہے، جب تک وہ اتھارٹی کے بعض مطالبات مان نہیں لیتا- مثال کے طور پر ایک خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام، دوسرے اسرائیل کو 1967ء کی سرحدوں پر واپس جانا چاہیے ہے- یہ تجویز 2002 میں سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے پیش کی تھی-

صدر اوباما کو نصیحت کی گئی ہے کہ اگر وہ ایک فلسطینی ریاست چاہتے ہیں تو یہ غلط طریقہ کار استعمال نہ کریں- بقول ان کے’’ حقیقت ‘‘یہ ہے کہ وزیراعظم نیتن یاہو نے دو ریاستوں کے یعنی اسرائیلی فلسطینی ریاستوں کے نظریے ی حمائت کر دی ہے اور مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادیوں کی توسیع بھی ختم کر دی جائے گی بشرطیکہ فلسطینی، اسرائیل کو جائز یہودی ریاست کے طور پر تسلیم کرلیں اور فلسطینی اسرائیل کو فوجی اعتبار سے دھمکی نہ دے سکیں-

سب سے اہم شکایت یہ ہے کہ ایران میں ’’عوامی احتجاج‘‘ کے باوجود صدر اوباما نے یہ کہہ کر حمایت نہیں کی کہ وہ ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی کرنا چاہتے- صدر اوباما نے محمود عباس کو سخت لائن کا اشارہ دیا ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے البتہ ایسا لگتا ہے کہ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو کسی نے اشارہ دیا ہے کہ وہ ایران کے خلاف سخت موقف اختیار کریں-

26 جولائی کو انہوں نے ’’این بی سی‘‘ کے پروگرام ’’میٹ دی پریس‘‘ میں ایران سے کہا ہے کہ اگر وہ ایٹمی ہتھیار بنانا چاہتا ہے تو ’’Your pursuit is Futile ‘‘ یعنی کوشش بیکار ہے- اس سے چند روز پہلے انہوں نے کہا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنانے میں کامیاب ہو گیا تو ریاست ہائے متحدہ امریکہ مشرق وسطی کے ممالک کو ایک دفاعی چھتری دے گا یعنی ان کے دفاع کی ضمانت دے گا- انہوں نے اس چھتری یا ڈھال کی بات22جولائی کو کی تھی اور فوراً ہی اوباما انتظامیہ کے سینئیر حکام نے نام ظاہر نہ کئے بغیر میڈیا کو بتایا کہ وزیر خارجہ نے یہ بات اپنے طور پر کہی ہے یعنی اس کا وائٹ ہاؤس کی پالیسی سے کوئی تعلق نہیں ہے-
 
اس واضح اشارے کے باوجود ہیلری کلنٹن نے اپنا موقف نہیں بدلا اور26جولائی کے شو میں کہا کہ ’’ایران میں جو بھی فیصلے کر رہہا ہے- ہم اس کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر ایران رعب جمانے کے مقصد سے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہم ایسا نہیں ہونے دینگے‘‘-

ایران ایٹمی ایندھن خود تیارکرنا چاہتا ہے- اوباما انظامیہ کی یہ سوچ ہے کہ اگر ایران کو محدود مقدار میں یہ ایندھن تیار کرنے دیا جائے تو شائد وہ ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی کوشش نہ کرے لیکن مسز کلنٹن نے واضح طور پر اس امکان کو رد کر دیا- یہ سب بیان بازی اتوار یعنی 26 جولائی کی صبح کو ہوئی – اگلے روز یعنی پیر 27 جولائی کی صبح ایک نیوز چینل پر ایک مشہور شخصیت نے کہا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں بنا رہا ہے-
 
امریکی انٹیلی جنس ایجنسی نے بھی اس کی تصدیق کر دی ہے اور کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران ایسا کر رہا ہے- انہوں نے بتایا کہ اسرائیل کے پاس 200 ایٹم بم موجود ہیں- جب کسی نے کہا کہ ایران کے ممکنہ ایٹمی پروگرام سے اسرائیل کے ’’وجود‘‘ کو خطرہ ہے تو انہوں نے ہنس کر کہا کہ ’’میرے خیال میں اسرائیل کے 200ایٹم بموں سے ایران کو خطرہ ہے- ‘‘ یہ چہرہ مانوس تھا- یہ دو ٹوک بات کرنے والے صدر کارٹر کے زمانے کے قومی سلامتی کے مشیر برزنسکی تھے-

اس پر  پروگرام پر موجودہ دوسرے صحافیوں اور مسٹر بریزنسکی نے بھی کہا کہ آخر یہ حقائق بڑے اخباروں اور ٹیلی ویژن کے بڑے چینلوں پر کیوں نہیں آتے؟ اس پروگرام کی نوجواں خاتون میزبان نے کہا کہ ’’اسی وجہ سے میں نے اپنے والد کو مدعو کیا ہے‘‘- پتا چلا کہ وہ بریزنسکی کی بیٹی ہے- اوباما کی انتظامیہ ہیلری کلنٹن کی ہٹ دھرمی کے خلاف ایکشن لینا چاہتی تھی- گمنام حکام پرنٹ میڈیا میں چل جاتے ہیں مگر ،ٹیلی ویژن پر نہیں- کسی سرکاری افسر کو اپنے ہی وزیر خارجہ کی تردید کے لئے  بھیجنا مناسب نہیں تھا- پروٹوکول کے خلاف بات ہے- مسٹر بریزنسکی بڑے چینلوں کو خود کال کر کے دعوت نامہ حاصل نہیں کرتے، یہ نامناسب بات تھی- ہاں اگر کسی پروگرام کی میزبان آپ کی بیٹی ہو تو گھر کی بات گھر میں ہی رہے گی- ہیلری کلنٹن ایران کو پیغام دے سکیں، اب وہ اس پیغام پر غور کریں جو اوباما نے انہیں دیا ہے !    
 
بشکریہ(اعتماد)

لینک کوتاه:

کپی شد