ستمبر کے مہینے میں اسرائیل اور تنظیم آزادی فلسطین کے درمیان طے پائے نام نہاد ’اوسلو‘ معاہدے کے چوبیس سال پورے ہوگئے۔ اگرچہ یہ معاہدہ صرف پانچ سال کے لیے ایک عبوری معاہدہ قرار دیا گیا تھا مگر بدقسمتی سے یہ عبوری عرصہ ابھی تک ختم نہیں ہوسکا ہے۔ اس معاہدے کے ذریعے فلسطینی قوم کو ایک آزاد ریاست جس کا دارالحکومت بیت المقدس شریف قرار دیا گیا تھا کا خواب دکھایا گیا۔ مگر وہ خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا بلکہ معاہدے کے باوجود اس خواب کو عملی شکل دینے کی راہ میں مسلسل رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔
اوسلو معاہدے کے ایک سال بعد 29 اپریل 1994ء کو فرانس میں ’پیرس اکنامک’ سمجھوتا طے پایا۔ یہ اوسلو معاہدے ہی کا اگلا قدم تھا۔ یہ معاہدہ بھی پانچ سال کے لیے طے پایا مگر اوسلو سمجھوتے کی طرف پیرس میں ہونے والا معاشی امن معاہدہ بھی اپنا عبوری دور پورا نہیں کرسکا ہے۔
اوسلو معاہدے کے چوبیس سال کے بعد آج فلسطینی قوم کہاں کھڑی ہے، کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ اس نام نہاد امن اعلان نے فلسطینیوں کو کچھ نہیں دیا۔ فلسطینیوں کو اس سمجھوتے سے سیاسی فائدہ پہنچا اور نہ ہی معاشی فواید ملے۔ صرف ایک نام نہاد اور ‘بے دست وپا‘ اتھارٹی کی شکل میں فلسطینیوں کو فریب دیا گیا۔ عملا اسرائیل غزہ کی پٹی، غرب اردن اور دوسرے فلسطینی علاقوں پر بدستور قابض رہا۔ غزہ کی پٹی سے سنہ 2005ء میں انخلاء کے باوجود غزہ کی تمام بری اور بحری گذرگاہوں پر صہیونی فوج کا کنٹرول ہے۔ گیارہ سال سے غزہ کا فضائی ، زمینی اور بحری محاصرہ جاری ہے۔
غرب اردن کے 60 فی صد علاقے پر اسرائیل کا براہ راست انتظامی اور فوجی کنٹرول قائم ہے۔ کوئی فلسطینی صہیونی ریاست کی قائم کردہ انتظامیہ کی اجازت کے بغیر اپنے گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ سامان تجارت کی ترسیل، شہریوں کی اندرون شہر نقل وحرکت صہیونی فوج کی اجازت پر منحصر ہے۔ چپے چپے پر اسرائیلی فوج کی چیک پوسٹیں، ناکے، فوجی کیمپ اور اس پر مستزاد جگہ جگہ پر تعمیر کی گئی دیوار فاصل غرب اردن کے عوام کی معاشی زندگی اجیرن بنائے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ غرب اردن کے 85 فی صد آبی وسائل پر قابض اسرائیل کا تسلط ہے۔
گذشتہ چند برسوں کے دوران فلسطین میں متعدد اقتصادی اقدامات کی بات کی گئی۔ کبھی معاشی امن کا ڈھکوسلا چھوڑا گیا اور کبھی کسی دوسرے انداز میں فلسطینی قوم کو رسوا کیا گیا۔
جہاں تک فلسطینی معیشت کی بہتری اور ترقی کی بات ہے تو یہاں بھی سوائے کف افسو ملنے کے ہمارے پاس کچھ نہیں۔ عالمی برادری کی طرف سے فلسطین کے لیے 30 ارب ڈالر کی سالانہ امداد مقرر کیے جانے کے باوجود معیشت میں بہتری کے متوقع نتائج سامنے نہیں آسکے۔ سنہ 1993ء سے 2014ء تک فلسطینی معیشت مسلسل روبہ زوال رہی۔ اقتصادی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر تھیں، بے روزگاری اور غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور فی کس آمدن میں بہ تدریج کمی آتی گئی۔
سنہ 1995ء میں فلسطین میں بے روزگاری کی شرح 18.2 فی صد تھی اور سنہ 2016ء میں یہ شرح بڑھ کر 26.9 فی صد تک جا پہنچی تھی۔ غرب اردن میں بے روزگاری کی شرح 13.9 سے بڑھ کر 18.2 فی صد اور غزہ کی پٹی میں 29.4 فی صد سے بڑھ کر 2016ء میں 41.7 فی صد ہوگئی۔
حالیہ چند برسوں کے دوران غزہ کی پٹی اور غرب اردن میں معیشت میں معمولی بہتری آئی۔ سنہ 1994ء میں غزہ اور غرب اردن میں فلسطینی قومی پیداوار30 کروڑ 80 لاکھ ڈالر تھی جو کہ 2016ء میں 80 کروڑ 58 لاکھ ریکارڈ کی گئی۔
غزہ کی پٹی میں اس عرصے کےدوران قومی پیداوار میں 80 فی صد اضافہ ہوا۔ سنہ 1994ء میں غزہ کی پٹی میں مجموعی قومی پیداوار 10 کروڑ 99 لاکھ 5 ہزار ڈالر تھی، سنہ 2016ء میں یہ شرح 19 کروڑ 75 لاکھ9 ہزار ڈالر ہو گئی۔
عالمی بنک کی سنہ 2014ء میں جاری کردہ رپورٹ میں بتای گیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں گذشتہ 20 سال کی نسبت میں مقامی پیداوار میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ تاہم آبادی میں غیرمعمولی اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔ سنہ 2014ء میں آبادی میں 230 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جب کہ فی کس آمدن 31 ڈالر سے بھی کم تھی جو کہ سنہ 1994ء کے عرصے سےبھی کم ریکارڈ کی گئی تھی۔
دوسری جانب غرب اردن کے علاقوں میں مقامی پیداوار میں قابل ذکر اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس عرصے کے دوران مقرر کردہ نرخوں کے حساب سے 307 فی صد اضافہ ہوا۔ سنہ 1994ء میں غرب اردن کی مقامی پیداوار 19 کروڑ 81 لاکھ 2 ہزار ڈالر تھی جب کہ سنہ 2016ء میں اس کا حجم بڑھ کر 60 کروڑ 82 لاکھ 10 ہزار تک ہوگیا۔ یہ اضافہ غزہ کی پٹی میں مقامی پیداوار کی نسبت تین گنا زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔
یہ بات دلیل قاطع سے ثابت ہے کہ فلسطین میں معیشت کی بہتری کے لیے جتے بھی دعوے یا منصوبے تیار کیے گئے وہ نقش برآب ثابت ہوئے ہیں۔ وہ صرف دفتری فائلوں اور کاغذوں تک ہی محدود رہے۔ قضیہ فلسطین کے سیاسی حل میں ناکامی نے معاشی منصوبوں کو بھی تباہی سے دوچار کیا۔ مستقبل میں بھی کسی معاشی منصوبے کی کامیابی مسئلہ فلسطین کے سیاسی حل سے مشروط ہے۔ جب تک کوئی موثر سیاسی استحکام کی راہ ہموار نہیں ہوتی اس وقت تک فلسطین میں بیرونی سرمایہ کاری کا باب بند رہے گا۔ آنے والے برسوں میں مقامی، عرب ممالک اور عالمی سطح کے سرمایہ کاروں کو فلسطین میں لانے کی کوششیں ابتر معیشت کی بہتری، بے روزگاری اور غربت میں کمی اور مجموعی طور پر فلسطینی قوم کی معاشی خود کفالت کی ضامن ہوسکتی ہیں۔
مگر یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کیا ہم گذشتہ چوبیس سال کے عرصے میں معاشی ترقی کی وہ منزل حاصل کرسکے ہیں جس کا وعدہ فلسطینی قومی اتھارٹی کے قیام کی شکل میں فلسطینی قوم سے کیا گیا تھا؟۔