چهارشنبه 30/آوریل/2025

اوباما یہودی نرغے میں

جمعرات 13-نومبر-2008

اُمید ہے اوباما ہمارے لیے کام کرتے رہیں گے۔“ یہ الفاظ اسرائیل کے ایک اخبار کے ہیں جو اس نے امریکا کے نومنتخب صدر بارک حسین اوباما کی جانب سے ایک یہودی ”راہم ایما نوئیل“ (rahm emanuel)کو ”چیف آف اسٹاف“ نامزد کرنے پر لکھے۔ قارئین! ان پر تبصرے وتجزیے سے قبل ”راہم“ کا مختصراً تعارف لیتے ہیں تاکہ اس اہم اور بنیادی عہدے پر ان کی تعیناتی کی اصل حقیقت معلوم ہوسکے۔ ”راہم ایمانوئیل“ (Rahm Emanuel) شکاگو میں 29 نومبر 1959ء کو پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم کے لیے Bernard Zell Anshe Emet Day School کا رُخ کیا۔ یہاں کٹر یہودیوں کے بچوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ مذہب کی خصوصی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ 1981ء میں نیویارک کے ”سارا لارنس کالج“ سے گریجویشن کی۔ اسی گریجویشن کے دوران شکاگو کے ”ڈیوڈ رابنسن“ کی کانگریسی مہم میں بھی حصہ لیا جبکہ خطابت اور کمیونی کیشن میں ماسٹر ڈگری کے لیے ڈاؤن ٹاؤن شکاگو کی ”نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی“ گئے۔ 1991ء میں جنگِ خلیج کے دوران راہم اسرائیلی فوج میں خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ 1984ء میں امریکی سینٹ کے انتخابات کے اُمیدوار پال سائمن کے لیے انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ 1988ء میں ڈیموکریٹک کانگریشنل کیمپین کمیٹی کے ڈائریکٹر رہے۔ 1989ء میں شکاگو کے میئر رچرڈ ایم ڈیلے کے سینئر ایڈوائزر اور چیف فنڈ ریزرو بھی رہے۔
 
آرکنساس کے گورنر بل کلنٹن کی ابتدائی صدارتی مہم کے مالیاتی ڈائریکٹر بھی رہے۔ 1993ء سے 1998ء تک وہائٹ ہاؤس میں کلنٹن کے سینئر مشیر منتخب ہوئے۔ 2008ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں راہم ایمانوئیل نے اپنے مخالف ٹام ہنسن کو 22 کے مقابلے میں 74 فیصد ووٹ حاصل کرکے شکست سے دوچار کیا۔ 6 نومبر 2008ء کو وہائٹ ہاؤس کی امریکی تاریخ کے تیسرے ”یہودی چیف آف اسٹاف“ مقرر ہوئے جہاں وہ خدمات انجام دیں گے لیکن کس کے لیے!؟ اس کے لیے یہودی اخبار کی مذکورہ پیش گوئیاں کافی ہے۔
 
اب یقینا وائٹ ہاؤس کا پورا عملہ یہودی چیف کے ماتحت کام کرے گا۔ ایسا کوئی بل منظور نہیں ہوسکے گا جو اسرائیل اور صہیونیوں کے خلاف ہو۔ یہودی واسرائیل اپنے تمام ناجائز مطالبات ڈنکے کی چوٹ پر منواتے رہیں گے۔

پس منظر کے طور بتاتا چلوں اس وقت امریکا کو 85 بڑے ادارے چلارہے ہیں۔ ان 85 اداروں میں سے 54 کٹر یہودیوں کے پاس ہیں۔ اس وقت دنیا میں 400 لوگوں کو ارب کھرب پتی کہا جاتا ہے۔ ان میں سے 145 کٹر یہودی ہیں۔ یہ لوگ امریکا کے بزنس پر چھائے ہوئے ہیں۔ بڑی بڑی کارپوریشنوں، کمپنیوں اور فرموں کے مالک ہیں۔ وائٹ ہاؤس شروع دن سے ہی یہودیوں کی سازشوں کا گڑھ رہا ہے۔ ان ا داروں کے 54 یہودی مالکان ہروقت وائٹ ہاؤس میں سازشوں کا جال بنتے رہتے ہیں۔

امریکا کی تاریخ میں ”بل کلنٹن“ اور ”جارج بش“ جو مصدقہ طور پر ”فری میسن“ ہیں۔ ان کا دور یہودیوں کے لیے انتہائی اہم رہا ہے۔ ”بل کلنٹن “کے دور حکومت میں یہودیوں کو وائٹ ہاؤس میں گھسے رہنے اور اقتدار کواپنے حق میں استعمال کرنے کا جس قدر موقع ملا اتنا ان لوگوں کو تاریخ میں پہلے کبھی نہ ملا تھا۔ ”بل کلنٹن“ کے دور میں یہ لوگ امریکی انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور میڈیا میں انتہائی اثرو نفوذ کے مالک تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا 3 فیصد امریکی یہودی، ستانوے فیصد امریکیوں کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ اس دور میں کہا جاتا تھا اگر آپ نے امریکی صدر سے ملنا ہے تو آپ کو اس کی اجازت ”تل ابیب“ سے لینا پڑے گی۔ کلنٹن دور میں کابینہ اور کئی سرکاری ادارے یہودیوں کی تحویل میں تھے۔

کلنٹن کی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ، وزیر دفاع ولیم کوہن، وزیر خزانہ لارسن سمرز، اقوام متحدہ میں امریکا کے سفیر رچرڈ ہال بروک، نیشنل سیکیورٹی کا سربراہ سینڈل برگر، ڈائریکٹر سی آئی اے ڈیوڈ کوہل، آئی بی کا ڈائریکٹر ہال آئزنر،مشرق وسطیٰ کے لیے امریکا کا ایلچی مارٹن انڈک… یہ تمام لوگ کٹر یہودی تھے۔ ان افسروں کے علاوہ کلنٹن نے اپنے دور میں جینز برگ اور بیرئیر نام کے دو متعصب یہودی رئیسوں کو سپریم کورٹ کا جج بھی لگایا تھا۔ کلنٹن اور خاتونِ اوّل ہیلری کلنٹن کا ذاتی اسٹاف بھی یہودی تھا۔ کلنٹن اور ہیلری کی نجی اور سرکاری مصروفیات کا تمام تر شیڈول یہی لوگ بناتے تھے۔ یہودیوں نے کلنٹن کو بُری طرح گھیر رکھا تھا۔ مونیکا کیس بھی ان لوگوں ہی کے سازشی دماغ کا ”شاہکار “تھا۔ یہ لوگ بلیک میلنگ کے اس ہتھکنڈے کے ذریعے یہودیوں کے لیے مزید مراعات اور فوائد حاصل کرنا چاہتے تھے۔

بل کلنٹن کے بعد جارج بش اقتدار میں آئے۔صدر بش کٹر عیسائی ہیں۔ ان کا پورا خاندان ہر اتوار کو چرچ جاتا ہے۔ مذہبی جنونیت ہی کی وجہ سے 2005ء میں صدر بش نے عیسائی مذہبی تنظیموں کو 40/ ارب ڈالر دیے تھے۔ اس کے باوجو د صدربش یہودیوں کا ہاتھوں مجبور ہوکر ان کے مذموم مقاصد کے لیے کام کرتے رہے۔ وائٹ ہاؤس میں صدربش کے اردگرد 32 یہودیوں کا ٹولہ ہمیشہ منڈلاتا رہا ہے۔ یہی ٹولہ عالم سلام کے ایک ایک ملک پر حملے کے لیے بش کے کان بھرتا رہا ہے۔

دنیا بھر میں خواہ وہ مشرقِ وسطیٰ ہو یا افریقا کے ممالک۔ جہاں کہیں بھی معدنی ذخائر، ہیرے جواہرات اور سونے کی کانوں کی بو بھی آتی، یہ اس خطے کی حکومتوں کو جکڑنے کے لیے ہر طرح کے حربے اور ہتھکنڈے شروع کردیتے ۔ 2002ء میں یہودیوں کی ایماء پر بش نے افریقا کے پانچ ممالک کا دورہ ”فلاحی مقاصد“ کی آڑ میں کیا تھا۔
 
اس وقت عالمی سیاست پر نظر رکھنے والے غیرجانبدار مبصرین نے کہا تھا: ”صدر بش کا یہ دورہ تیل کے حصول کے لیے ہی ہے۔“ سودخوروں کے حرص وہوس کی حالت یہ ہے اگر کوئی مسلمان ملک ذرا بھی چوں چرا کرتا ہے تو اسے کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر خاک وخون میں تڑپادیا جاتا ہے۔ کبھی نائن الیون جیسے خود ساختہ ڈرامے کے ذریعے۔ کبھی بڑے پیمانے پر تباہ کرنے والے ہتھیاروں کا بہانہ بناکر۔ کبھی دہشت گردوں کی آماجگاہ کے بہانے۔ کبھی جمہوریت کا خون کرکے۔ کبھی آمریت کو شہ دے کر۔ کبھی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے اسلحہ تقسیم کروا کر۔ کبھی اس کے عوام کو بغاوت پر اُکساکر۔ کبھی مسلم ممالک میں خانہ جنگی کی سی کیفیت پیدا کرکے… ان سب میں صہیونی قوتیں ہی ملوث ہیں۔ جہاں بھی نظر اُٹھائیں گے ہر جگہ یہی ”کافر صنم“ نظر آئے گا۔

اب آتے ہیں نومنتخب صدر اوباما کی طرف۔ کچھ عرصہ پہلے تک امریکی ومغربی میڈیا پر اوباما پر شدید تنقید کے تیر برسائے جارہے تھے۔ ان کو میڈیا میں کوئی خاص اہمیت نہیں دی جارہی تھی۔ باوجود اس کے کہ عوام میں وہ مقبول اور پاپولر تھے۔ اس کی اصل وجہ یہودیوں کی چال تھی۔ اس وقت پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا قبضہ ہے۔
 
آپ حیران ہوں گے امریکا میں میڈیا کی پانچ بڑی کمپنیاں ہیں۔ ایک ایک فرم سے 375 کے قریب ٹیلی ویژن، سیکڑوں چینل اور 3 ہزار 9 کے قریب ریڈیو وابستہ ہیں۔ ان تمام کے مالکان، ان کے چیف ایگزیکٹو، ڈائریکٹرز، پروڈیوسرز، منیجرز، جنرل منیجرز اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں پر کٹر یہودی فائز ہیں۔ کوئی اہم شخص کسی بڑے عہدے پر متمکن نہیں ہوسکتا جب تک یہودی میڈیا کی خدمات حاصل نہ کرلے۔ ذرائع ابلاغ پر چونکہ ان کا کنٹرول ہے لہٰذا یہ نہ صرف اہم شخصیات بلکہ ملکوں سے بھی اپنی مرضی کی بات اگلواتے اور کہلواتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک اوباما اسلام، مسلمانوں اور عالمِ اسلام کے بارے میں ذرا محتاط اور نرم رویے رکھے ہوئے تھے۔ عراق، افغانستان، فلسطین اور کشمیر پر جاری بش انتظامیہ کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کررہے تھے۔

اس سے بجاطورپر ایک طرف امریکی عوام میں ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف عالمی سطح پر ان کے خیالات کو سراہا گیا لیکن امریکی ومغربی میڈیا میں ان کو اور ان کے خیالات کو وہ اہمیت نہ دی گئی جو جان مکین کو حاصل رہی۔ جب اوباما نے خطیر رقم دے کر اور کڑی شرائط مان کر عالمی یہودی میڈیا کی خدمات حاصل کیں تو پھر کہیں جاکر وہ ٹائٹل اسٹوریز بننے لگے۔ بیت اللہ پر حملہ، پاکستان کے سرحدی علاقوں پر چڑھائی، ایران کے بارے میں سخت الفاظ اسی کا شاخسانہ ہیں۔

اسرائیل کے حق میں کہے گئے یہ الفاظ بھی بعد ہی کے ہیں: ”امریکا کا صدر ہونے کی حیثیت سے میرا یہ کام ہوگا کہ میں اسرائیل کو تنہا کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اقدامات کروں۔“ 5 نومبر 2008ء کو صدر بش کی پارٹی کو تاریخ کی بدترین شکست ہوئی اور سیاہ فام اوباما کی شاندار فتح کا اعلان ہوا۔ اگلے ہی دن 6نومبر کو ان کا پہلا حکم یہود نوازی پر مشتمل تھا۔ امریکا کے نو منتخب صدر اوباما نے صہیونی ”راہم ایما نوئیل“ کو وائٹ ہاؤس کے لیے ”چیف آف اسٹاف “نامزد کرنے کا اعلان کیا تو اسرائیل میں خوشی کے شادیانے بجنے لگے۔ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے اس پر یوں تبصرہ کیا ہے: ”یہ تقرر خوش آیند ہے۔“ اسرائیلی وزارتِ خارجہ کا تبصرہ بالکل درست ہے۔

یہودیوں کو چور راستوں کے ذریعے امریکی اقتدار کے مرکز میں گھسنے اور اپنی قوم اور ملک کے مفادات کے حصول کا ملکہ حاصل ہے۔ جس دن یہ تقرر ہورہا تھا اسی دن اسرائیل نے جنگ بندی کے معاہدے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ”غزہ“ پر فضائی و زمینی حملے شروع کردیے۔ اس کارروائی کے نتیجے میں 2 فلسطینی بچے اور ایک خاتون سمیت بارہ شہید اورکئی زخمی ہوگئے۔ عالمی مبصرین کا کہنا ہے اوباما نے یہودی راہم ایمانوئیل کو اپنا چیف آف اسٹاف بناکر ثابت کردیا ہے وہ اسرائیل نواز پالیسی کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔ اس تقرر سے یہ اندازہ بھی لگایا جارہا ہے اوباما افغانستان اور عراق میں بش پالیسی کا تسلسل جاری رکھیں گے۔

سودخور، اسلحے کی تجارت کرنے والے اور تیل کے کاروبار سے وابستہ یہودیوں کا مفاد بھی اسی میں پنہاں ہے۔دوسری طرف پوری دنیا عموماً اور عالمِ اسلام اور اس کے مسلمان خصوصاً ”اوباما“ سے بہت سی توقعات اور نیک تمنائیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ بش کو امریکی تاریخ کا سب سے بدترین صدر قرار دیا جارہا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ بش نے اپنے آٹھ سالہ دورِ اقتدار میں دنیا بھر میں امریکا کے خلاف نفرتیں پیدا کیں۔ نام نہاد دہشت گردی کے نام پر جنگ شروع کرکے پوری دنیا کا امن غارت کرکے رکھ دیا۔ بش کی پالیسیوں کی وجہ سے آج پوری دنیا بارود کا ڈھیر بنی ہوئی ہے۔

تباہی کے دہانے پہنچی ہوئی اس دنیا کے لیے امریکی عوام سمیت پوری دنیا تبدیلی چاہتی تھی۔ امریکی عوام نے اسی لیے اپنا ووٹ جنگی جنون رکھنے والے صدربش کی پارٹی کے خلاف دیا ہے۔ اوباما خود اپنی انتخابی مہم کے دوران متعدد مواقع پر یہ کہہ چکے ہیں وہ امریکا سمیت پوری دنیا کو بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر اوباما اپنے دعوے میں سچے ہیں اور دنیا کو واقعی تباہی سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر انہیں بش انتظامیہ کی ان تمام خون آشام پالیسیوں پر یوٹرن لینا ہوگا۔ اوباما کو عالمِ اسلام، دنیا کے پسماندہ ممالک اور اقوام کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا ہوگا۔

اگر اوباما چاہیں تو انصاف کی بالادستی قائم کرکے، استعماری عزائم چھوڑکر، عالمِ اسلام کے ساتھ نرمی، رواداری اپناکر ذاتی اور مذہبی مفادات سے بالاتر ہوکر مسلّمہ عالمی حقوق کا خیال رکھ کر دنیا کو امن کا گہوارہ بناسکتے ہیں۔ پوری دنیا کے مسلمانوں کا اوباما سے یہی مطالبہ ہے وہ یہودیوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کی بجائے مظالم کا جاری سلسلہ فی الفور بند کریں۔ عالمِ اسلام کے سلگتے ہوئے مسائل خصوصاً مسئلہ فلسطین وکشمیر کا قابل قبول حل نکالنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

عراق اور افغانستان سے فوجیں واپس بلائیں۔ گوانتا ناموبے، ابوغریب اور بگرام جیل سمیت دنیا بھر میں قائم عقوبت خانے بند کریں۔ عالمِ اسلام میں موجود علیحدگی پسند تنظیموں کی سرپرستی ختم کریں۔ دنیا بھر کی مظلوم قوموں اور پسماندہ ممالک میں غربت کے خاتمے کے لیے فنڈز جاری کریں۔ غربت، جہالت، بے روزگاری، بیماری، ناخواندگی اور پسماندگی کا شکار قوموں اور ملکوں کے لیے اپنی توانائیاں صرف کریں۔ اوباما خود بھی ایک مظلوم قوم کے فرد رہے ہیں لہٰذا کم ازکم ان کا رویّہ تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ اپنے پیش روؤں کی طرح ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ یہی عالمی امن کی ضمانت ہے۔

لینک کوتاه:

کپی شد