تل ابیب سے بیت المقدس میں سفارت خانہ منتقل کرنے کے امریکی فیصلے نے پوری اسلامی دنیا اور مغرب میں ایک طوفان کھڑا کردیا۔ انڈونیشیا میں ہزاروں افراد فیصلے کی مخالفت اور بیت المقدس کو فلسطین کا دارالحکومت قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مسلمانوں پر پابندی کے بارے میں بیانات عوام میں پھیلتے تو بمشکل کوئی ایسی لہر پیدا ہوتی مگر اس تحریک کا امریکہ اور ٹرمپ، دونوں کی شہرت پر فوری اثر ہوا۔ انڈونیشیا کی حکومت اس احتجاج کو جلد روکنے میں خاص دلچسپی لیتی نظر نہیں آتی۔
مسلم آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دوسرے بڑے ملک کے لیے مشرق وسطیٰ سے جغرافیائی فاصلہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کا یقین اس بات پر ہے کہ مسلم دنیا کو اپنے لوگوں کی دیکھ بھال خود کرنی چاہیے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ فلسطین کی آزادی لمبے عرصے سے ملک کی خارجہ پالیسی کی ترجیح رہی ہے اور صدر جوکوویدودو کی قیادت میں یہ مزید پروان چڑھی ہے۔ 2015ء میں انہوں نے ایشیا افریقہ کانفرنس کی میزبانی کی، جس میں دونوں براعظموں کے رہنماؤں کو قریب لاتے ہوئے انہوں نے بین الا قوامی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ یہی وہ موقع تھا جب انہوں نے فلسطین کے لیے اپنے ذاتی جذبات کا اظہار کیا اور اس کی آزادی کی حمایت کی۔ وہ او آئی سی کی اسی موضوع پر ہونے والی میٹنگ کے بھی میزبان تھے۔
انڈونیشیا اور اسرائیل کے سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اگرچہ 2016ء میں انڈونیشیا نے بیت المقدس کے شمالی شہر، رملہ میں قونصل خانہ کھولا لیکن اسے دونوں ممالک کے تعلقات میں چھوٹی سی ممکنہ پیش رفت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ مگر اب سول سوسائٹی نے انڈونیشیا میں اسرائیلی اشیاء کے استعمال کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے۔ وزیرخارجہ نے اسرائیلی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت منسوخ کرتے ہوئے اردن کا راستہ استعمال کرنے کا حکم دیا ے۔ یہ تحریک جکارتہ میں ہونے والی او آئی سی سمٹ کے ایک ہفتے بعد شروع ہوئی۔ ”انڈونیشیا کی فلسطینی عوام کے لیے حمایت کبھی ختم نہیں ہوسکتی اور ہم رملہ میںاعزازی قونصل خانے کے قیام کی صورت میں ایک اور قدم اٹھارہے ہیں”۔ انڈونیشیا کے سٹیٹ سیکرٹریٹ کی جانب سے ہونے والے بیان میں کہا گیا۔
اسرائیل کا مقامی تجارتی مشن سنگاپور سے ختم ہوچکا ہے البتہ بڑے پیمانے کا کاروبار منافع بخش طریقے سے جاری ہے۔ اسرائیل کی ٹیکنالوجی فرمز، خاص طور پر زراعتی سیکٹر کو ملک میں اچھی شہرت حاصل ہے۔ اس کے باوجود دونوں پارٹیاں اس رشتے کو نمایاں نہیں کرنا چاہتیں۔ 2014ء میں بی بی سی کے کیے گئے سروے کے مطابق انڈونیشیا کے تین چوتھائی عوام اسرائیل کو بری نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس تازہ ترین پیش رفت کے دوران انڈونیشیا کی حکومت کا ردعمل بہت تیز تھا، خاص طور پر ویدودو عام طور پر متعدل طبیعت کے مالک ہیں۔ 6 دسمبر کے اعلان کے اگلے دن ہی جکارتہ کے باہر واقع صدارتی محل سے بیان جاری کرتے ہوئے انہوں نے اس اعلان کو ”استحکام کے لیے خطرہ” قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ امریکی انتظامیہ پر دباؤ بڑھانے کے لیے نئے پلیٹ فارمز بھی تلاش کریں گے جس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی بھی شامل ہے۔ وزیر خارجہ ریتنو مارصودی اس دوران بالی ڈیموکریسی فورم پر ملکی موقف کو پیش کرنے میں مصروف رہیں۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے وہ فلسطینی جھنڈے کے ڈیزائن کا سکارف لپیٹے ہوئے تھیں جس کا مقصد انڈونیشیا کی مکمل حمایت کا اظہار کرنا تھا۔
”میں یہاں کھڑے ہوئے، فلسطینی سکارف پہنے اس عزم کا اظہار کرتی ہوں کہ انڈونیشیا اور انڈونیشیا کے عوام کی حمایت ہمیشہ فلسطینی عوام اور ان کے حقوق کے ساتھ رہے گی۔” انہوں نے میڈیا کو بتایا ”انڈونیشیا ہمیشہ فلسطین کے ساتھ رہے گا”۔ گزشتہ ہفتے استنبول میں ہونے والے او آئی سی کے ہنگامی اجلاس کے بعد ویدودو جکارتہ واپس آئے اور ان کی بیان بازی میں تیزی آگئی۔ انہوں نے باقی دنیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسرائیل سے اپنے تعلقات پر دوبارہ غور کریں اور فلسطین کی خود مختاری کی حمایت کریں۔ انہوں نے مسلمانوں کو حوصلہ افزائی کی وہ اپنی حکومتوں کو فلسطین کی حمایت کرنے پر راغب کریں۔ ادھر جکارتہ میں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر امریکی سفارت خانے کے سامنے مظاہرے کی بدولت نیشنل مونومنٹ کے سامنے اتوار کو 8000افراد نے ریلی میں شرکت کی۔ اعلان کے بعد گیارہ دن سے یہ مظاہرہ جاری ہے اور اسی دوران ملائشیا اور دوسرے مسلم ممالک میں بھی ریلیاں نکل رہی ہیں۔
اس ہجوم میں ہزاروں خاندان، نوجوان اور بچے شریک تھے جنہوں نے فلسطین کے جھنڈے تھام رکھے تھے۔ ان کے ساتھ البتہ ایک دوسرا عنصر حال ہی میں دیکھا گیا کہ جکارتہ کے سابق گورنر باسوکی کے خلاف بھی مظاہرہ جاری تھا۔ فلسطین کے مستقبل کے موضوع پر بات کرتے ہوئے، جمعہ کے روز، سابق پٹی وزیر خارجہ اور امریکہ میں سابق سفیر دینو پٹی دجلال نے کہا کہ انڈونیشین فلسطینی عوام کے لیے ہمدردی کے گہرے جذبات رکھتے ہیں۔ ”یہ ہماری روایت سے جڑا ہوا ہے” انہوں نے کہا ”اور ہر اسلامی ملک کے لیے ایسا ہی ہے، فلسطین کے موضوع کو ہم اپنی دعاؤں کا بھی حصہ رکھتے ہیں اور ہمارے درمیان یکجہتی کا احساس ہے۔”
مشرق وسطیٰ کی سیاست کی باریکیوں کو ایک عام انڈونیشین شاید نہیں سمجھ سکتا جبکہ خود اپنی آزادی اور جدوجہد کی ایک لمبی داستان جانتے ہوئے فلسطینیوں کی حالت زار بخوبی سمجھ آتی ہے۔ ”حمایت کرنے والے عوام صورتحال کے اتار چڑھاؤ سے مکمل واقفیت نہیں رکھ سکتے، مگر وہ اس بات سے واقف ہیں کہ فلسطینی بے بس اور لاچار ہیں”۔ دجلال نے کہا۔ ”اس سے جذباتی اور سیاسی یکجہتی کا احساس جنم لیتا ہے۔” ایک تقریب کے دوران انڈونیشیا میں اردن کے سفیر، ولید الحادید نے فلسطینی خود مختاری کے حق میںعالمی مہم کے اندر انڈونیشیائی قیادت کے کردار کو اجاگر کیا۔ انڈونیشیا کے رہنماؤں نے اس لڑائی پر اتنا ہی سخت گیر موقف اپنایا ہے جتنا کہ خلیجی ریاستوں نے، انہوں نے خاص طور پر مارصودی کی تعریف کی۔ انڈونیشین وزیرخارجہ نے امریکی سٹیٹ سیکرٹری ریکس ٹلرسن کو تین بار اور امریکی سفیر جوزف ڈونووان کو دو مرتبہ فون کیا جس کا مقصد بیت المقدس کے بارے میں فیصلے کو تبدیل کروانا تھا۔ الحدید نے ویدودو کی ابتدائی پریس ریلیز کی بھی تعریف کی اور کہا کہ ”فلسطین خارجہ پالیسی کا ایشو نہیں ہے۔ یہ انڈونیشیا، اردن اور فلسطین کا مقامی ایشو ہے اور ہر شخص اس کا ذمہ دار ہے”۔
(بشکریہ: ایشیاء ٹائمز ترجمہ: ابوالاابصار)