چهارشنبه 30/آوریل/2025

انسانیت کے جذبات ابھی زندہ ہیں

جمعرات 15-جنوری-2009

اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں فلسطینی باشندوں اور اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں زخمی ہونے والے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کی مدد اور علاج کے لئے ایران سے آنے والی ادویات اور دیگر ضروریات زندگی سے لدے ہوئے سمندری جہاز کو غزہ سے گیارہ میل دورسمندر میں روک لیا ہے۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک پاکستانی ٹیلیویژن چینل نے کہا ہے کہ اسرائیل فلسطین کے لوگوں کو انسان نہیں سمجھتا چنانچہ ان کے انسانی حقوق کو بھی تسلیم نہیں کرتا۔ کچھ ایسا ہی الزام جرمنی کے یہودیوں نے جرمنی کے ہٹلر اور ان کی نازی پارٹی پر بھی عائدکیا تھا کہ وہ یہودیوں کو انسان تصور نہیں کرتے چنانچہ ان کے انسانی حقوق کا احترام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔گویا دوسری عالمی جنگ کے دوران جو کچھ جرمنی میں یہودیوں کے ساتھ ہوا تھا وہی کچھ یہودیوں کی صیہونی حکومت اسرائیل فلسطین کے عوام کے ساتھ روا سمجھتی ہے۔

اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں کی زد میں آئے ہوئے فلسطین کے ہسپتال میں دس روز تک زخمیوں کا علاج کرنے والے دو ڈاکٹروں نے اپنے ملک ناروے پہنچ کر انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی کے فلسطینیوں پر نہایت خوفناک نئے ہتھیاروں کو ٹیسٹ کر رہا ہے۔

ڈاکٹرمیڈز گلبرٹ نے اوسلو کے گارڈنر موگن ایئرپورٹ پر اخبار نویسوں سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ نام نہاد فلسطینی ریاست (غزہ کی پٹی) کو اسرائیلی ہتھیاروں کی آزمائش گاہ یعنی ”ٹیسٹ لیبارٹری“ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور یہ اسرائیلی ہتھیار ان عراقی ہتھیاروں سے کہیں زیادہ تباہ کن اور انسانیت سوز ہیں جن کو تباہ کرنے کے بہانے امریکی حکمرانوں نے عراق پر حملہ کیا تھا۔ عراق پر حملہ کرنے والا وہی امریکہ عالمی احتجاج کے باوجود اسرائیل کے ظلم و ستم کی جانب توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا بلکہ اس معاملے میں انتہائی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کررہا ہے۔

ڈاکٹر میڈز گلبرٹ کے مطابق انہوں نے اور ان کے ساتھی ڈاکٹر ایرک فوسے نے غزہ کے شفا ہسپتال میں جن مریضوں کا علاج کرنے کی کوشش کی ہے ان میں سے بیشتر دھاتوں کو پگھلا دینے کی صلاحیت رکھنے والے (DIME)ہتھیاروں کی زد میں آئے ہیں جو عراق کو ایران کے عوام کے خلاف استعمال کے لئے دیئے جانے والے امریکی کیمیاوی ہتھیاروں سے بھی زیادہ خوفناک اور انسانیت سوز ہتھیار ہیں۔
 
ڈاکٹر میڈز گلبرٹ اور ڈاکٹر ایرک فوسے کو ناروے کی فلسطینی عوام سے ہمدردی رکھنے والی تنظیم (NORWAF) نے دسمبر کی تیس تاریخ کو فلسطین کے علاقہ غزہ پٹی کے شفا ہسپتال میں زخمیوں کی طبی امداد کے طور پر بھیجا تھا۔
 
ان ڈاکٹروں نے جو جنگی ہتھیاروں کے انسانی جسموں پر اثرات کا وسیع تجربہ اور علم رکھتے ہیں غزہ سے واپسی پر اخبار نویسوں کے ذریعے اپنے اہل وطن کوبتایا کہ اسرائیل کے حکمران فلسطین کے بچوں اور عورتوں پر ایک نئی قسم کا انتہائی تباہ کن مگر چھوٹا ہتھیار استعمال کر رہے ہیں جو دس میٹر کے رقبے میں نہ صرف انسانی جسموں کے پرخچے اڑانے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ اپنی زد میں آنے والی دھاتوں کو پگھلا دیتا ہے۔ DIMEبم کی زد میں آنے والا کوئی انسان بھی نہیں بچ سکا۔ بہت سے لوگوں کے جسموں کی ٹانگیں اور بازو اڑ گئے ہیں مگر زخمی ہونے والوں کا زندہ بچ نکلنا ہرگز ممکن نہیں ہے۔

ڈاکٹر میڈز گلبرٹ کا کہنا ہے اسرائیل اس سے پہلے یہ ہتھیار یا بم سال 2006ء کی لبنان کی جنگ اور غزہ کی پٹی میں بھی استعمال کر چکا ہے۔ اس ہتھیار یا بم کے ذیلی اثرات میں سرطان کی بیماری کا پھیلاؤ بھی شامل ہے۔ اس بم کے استعمال کے بعد لبنان اور بیروت کے بہت سے علاقوں میں جو کینسر کے موذی مرض سے محفوظ تھے سرطان کا مرض وبائی صورت میں پھیل رہا ہے۔
 
ڈاکٹر میڈز گلبرٹ اور ڈاکٹر ایرک فوسے نے پوری دنیا کے لوگوں اور خاص طور پر ڈاکٹروں کی عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ہتھیار کے استعمال کے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں اور غزہ کی پٹی میں جاکر اس خوفناک ہتھیار کے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں۔ اس ہتھیار کے ذریعے سرطان کی بیماری صرف غزہ کی پٹی کو ہی نہیں پورے مشرق وسطیٰ اور ساری عرب دنیا میں پھیل سکتی ہے اور عرب دنیا سے پورے کرہ ارض تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ خود اسرائیل بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔

ناروے کے ان ڈاکٹروں کی اپیل پرتوجہ دیتے ہوئے ادارہ اقوام متحدہ کی مرکزی انسانی حقوق کی تنظیم نے اپنے 47سرکردہ ارکان کو اسرائیل بھیجنے اور غزہ کی فلسطینی پٹی کا دورہ کرانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ فلسطینی عوام پر اسرائیل کے فضائی اور زمینی حملوں میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے اثرات کا جائزہ لے سکیں۔ فلسطین کی انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ ان دنوں غزہ کی پٹی کا کوئی ایک علاقہ بھی بے پناہ خطرات سے محفوظ نہیں ہے۔ کمیٹی کے سربراہ اینتھونی گریڈ کا کہنا ہے کہ پورے فلسطین میں کوئی ایک شہری بھی محفوظ نہیں ہے۔ لوگ گھروں میں بھی نہیں رہ سکتے اور گھروں سے باہر نکلنا بھی خطرات سے خالی نہیں ہے۔

لینک کوتاه:

کپی شد