جمعه 15/نوامبر/2024

امریکہ کا سفارتی 11/9…

بدھ 8-دسمبر-2010

9/11کے واقعہ کی تحقیقات کیلئے بنائے گئے تفتیشی کمیشن نے اس حادثے کی وجوہات کی ایک وجہ یہ بھی بتائی کہ امریکہ کے مختلف اداروں کے درمیان خفیہ معلومات کی شیئرنگ کا کوئی نظام نہ تھا جس کا حل یہ نکالا گیا کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ (امریکی وزارت خارجہ) کے کمپیوٹرز کو وزارت دفاع کے کمپیوٹرز سے منسلک کر دیا گیا، اس طرح دنیا بھر میں موجود امریکی سفارتخانے جو بھی سفارتی خفیہ کیبلز اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو بھیجتے تھے وہ وزارت دفاع بھی موصول ہوتے تھے۔عراق میں قائم ایک امریکی بیس پر تعینات امریکی سارجنٹ بریڈلے میننگ کی رسائی ان خفیہ کیبلز تک تھی۔
 
بریڈلے نے جب ان کیبلز کا مطالعہ کیاتو اسے احساس ہوا کہ امریکہ کے قول و فعل میں کس قدر گہرا تضاد موجود تھا۔ ان امریکی تضادات سے دلبرداشتہ ہوکر اس نے دنیا بھر کے امریکی سفارتخانوں سے وزارت خارجہ کو بھیجے گئے خفیہ کیبلز کو ڈاؤن لوڈ کیا اور یہ معلومات انقلابی ویب سائٹ ”وکی لیکس“ کو فراہم کردیں۔ جیولن نے فیصلہ کیا کہ وہ امریکہ کا مکروہ چہرہ دنیا بھر کے لوگوں کے سامنے ضرور بے نقاب کریگا۔

امریکہ نے ان انکشافات کی اشاعت سے قبل ان خفیہ معلومات کو رکوانے کیلئے ایسانج کو بھاری رقوم کی پیشکش بھی کی جس میں اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ وکی لیکس کے انکشافات میں صرف مخصوص اسلامی ممالک کی ہی پگڑیاں اچھالی گئی ہیں جبکہ انڈیا اور اسرائیل کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی جو کشمیر اور فلسطین میں خون کی ندیاں بہا رہے ہیں۔

ان انکشافات سے قبل اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں ایک دشمن ملک تصور کیا جاتا تھا لیکن اب ان انکشافات کے بعد ایران خطے میں خطرے کی علامت بن گیا ہے جسکا سارا فائدہ اسرائیل کو پہنچا اور امریکہ دنیا پر یہ باور کرانے میں بھی کامیاب رہا کہ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک کے دباؤ کے باوجود وہ ایران پر حملے سے باز رہا۔ وکی لیکس نے پاکستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے حوالے سے جو بھی انکشافات کئے ہیں مجھ سمیت تمام پاکستانیوں کو ان پر کوئی حیرت نہیں ہوئی، چاہے وہ ڈرون طیاروں کے حملوں پر حکمرانوں کی اجازت ہو، مشرف کی بحفاظت اقتدار سے رخصتی کا معاملہ ہو یا ملکی معاملات میں فوج کی مداخلت ہو۔

پاکستانیوں کیلئے یہ انکشاف بھی باعث حیرت نہیں کہ امریکہ اور سعودیہ کا ہمارے ملکی معاملات میں کتنا عمل دخل شامل ہے۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ مختلف ادوار میں حکمران اور سیاستدان امریکہ کے در پر حاضری دے کر اپنی وفاداری اور تابعداری کا یقین دلاتے رہے ہیں تاہم وکی لیکس کے انکشافات نے ان تمام باتوں کی تصدیق کردی ہے جس کیلئے قوم کو وکی لیکس کے بانی جیولین ایسانج کا شکر گزار ضرور ہونا چاہئے جو ان دنوں روپوش ہے اور امریکی خفیہ ایجنسیاں اور انٹر پول کے حکام اسے دنیا بھر میں تلاش کر رہے ہیں جبکہ امریکی دباؤ میں آکر سوئیڈن کی حکومت نے جنسی جرائم کے الزام میں ایک پرانے مقدمے میں ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے ہیں۔

جیولین نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکہ نے اسے یا اس کی ویب سائٹ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی اور اس کے خلاف سیاسی ہتھکنڈے بند نہ کئے تو وہ مزید سنسنی خیز انکشافات کرے گا اور ایٹمی رازوں سے پردہ اٹھانے پر مجبور ہوگا۔ بہرحال وکی لیکس میں معلومات کی اشاعت کے بعد اب دنیا بھر کے حکمرانوں اور سفارتکاروں کو امریکی سفیروں اور اہلکاروں سے گفتگو کرتے وقت بے حد محتاط رہنا ہوگا کیونکہ اس بات کا خدشہ ہمیشہ رہے گا کہ یہ گفتگو کسی بھی وقت منظر عام پر بھی آسکتی ہے۔

وکی لیکس کے انکشافات میں سب سے اہم انکشاف افغان صدر حامد کرزئی کے حوالے سے کیا گیا ہے جس میں انہوں نے برطانوی وزیراعظم سے اپنی ملاقات میں یہ کہا ہے کہ امریکہ ان کی حکومت کو کمزور اور پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے۔ یہ انکشاف ہر پاکستانی کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے ہمارے سول اور فوجی رہنما ان انکشافات کو سنجیدگی سے لیں، سازشوں کو سمجھیں،اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کریں، ملک کے محفوظ مستقبل کیلئے سنجیدہ ہو جائیں اور ایک متفقہ لائحہ عمل اختیار کر کے پاکستان کی سالمیت کے ایک نکتے پر متحد ومتفق ہوجائیں تو انشاء اللہ پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے خواب دیکھنے والوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔

امریکہ آج ہماری قومی سیاست کا ایک حصہ بن گیا ہے، اسے ملکی سیاست میں ”پلیئر“ کی حیثیت حاصل ہے اور ملک کے اہم فیصلے اسی کی رضامندی سے کئے جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران اور سیاستدان ہر وہ بات امریکہ سے شیئر کرنے کو تیار ہیں جو وہ ملک کے عوام سے شیئر کرنے کو تیار نہیں اور وہ عوام کو جوابدہ ہونے کے بجائے امریکہ کو جوابدہ ہیں۔ غلامی کی زنجیروں سے نکلنے کے بعد آج بھی ہم ذہنی طور پر آزاد نہیں ہورہے ہیں اور آج بھی ایک وائسرائے امریکی سفارتخانے میں بیٹھا اہم قومی معاملات پر اثر انداز ہورہا ہے اور ہمارے سیاستدان اور حکمران اس کے در پر حاضری دے کر یہ یقین دلارہے ہیں کہ ہم اس کے وفادار ہیں اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں۔ کیا ہی یہ اچھا ہو کہ ہمارے حکمراں اور سیاستدان امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے بجائے عوام کی خوشنودی حاصل کریں اور اپنے ملک سے وفادار ہوں۔

لینک کوتاه:

کپی شد