اسرائیل کے حالیہ اقدامات نے ایک دنیا کو اس سے دور کر دیا ہے۔ یورپی یونین کو بھی کہنا پڑا ہے کہ غزہ کی ناکہ بندی میں کمی لائی جائے۔ اگرچہ یورپی یونین نے اسرائیل کے اس غیر انسانی اقدام کی مخالفت یا مذمت نہیں کی۔ تاہم پابندی میں نرمی لانے کی بات اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ اسرائیل جارحیت اور انسانی زندگی کے منافی اقدامات کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس سب کے باوجود امریکہ نے نہ صرف ترک فلوٹیلا پر حملے کی مذمت سے انکار کیا بلکہ اسے اسرائیل کا حق قرار دیا اور آج بھی وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور وزیر دفاع ایہود بارک سے ملاقات کی اور کہا کہ میں سو فیصد اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوں۔ اسرائیل کو اپنے دفاع کا ہر حق حاصل ہے۔ ٹونی بلیئر نے غزہ کی ناکہ بندی کا تذکرہ کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور نہ اسرائیل کے اس اقدام کی مذمت کی جس کی وجہ سے تین سال سے لاکھوں فلسطینی اذیت اور تکلیف سے دوچار ہیں۔
ترک قافلے پرحملے کے بعد ہی اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنی فوجوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے ایک شاندار کارنامہ سرانجام دیا ہے اور میں آپ کو سیلوٹ کرتا ہوں۔ اسرائیل کے اخبار یروشلم پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق مقامی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے تاہم اس پر کسی طرح کا بڑا کمیشن نہیں بنایا گیا۔ بعض اطلاعات کے مطابق قانون کے ایک پروفیسر رتھ لاپپے ڈوتھ کو اس کا سربراہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد اس بین الاقوامی دباؤ کا جواب دینا ہے جس کے تحت یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کا جائزہ لیا جائے، اس بارے میں اقوامِ متحدہ تحقیقات کرے اور اس کے نتائج سے دنیا کو آگاہ کرتے ہوئے اسرائیل کے خلاف اقدامات کیے جائیں۔ اس کمیٹی کے دائرہ اختیار کو محدود رکھا گیا ہے اور اسے ایک مختلف نوعیت کا یہ کام دیا گیا ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ غزہ کے محاصرہ کی قانونی حیثیت کیا ہے اور جس طرح سے اسرائیل نے اس فلوٹیلا کو روکا ہے، اس کی کس قدر گنجائش موجود تھی۔ اس کے کمانڈوز نے قتل عام کا ارتکاب کیا، لیکن یہ معاملہ کمیٹی کے دائرہ کار میں نہیں ہے۔
اس کمیٹی کو ایک بین الاقوامی رنگ دینے کے لیے امریکہ اسرائیل کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ اس طرح سے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا یہ مطالبہ پورا ہو جائے گا کہ اسرائیل قابل اعتبار تحقیقات کرائے۔ امریکہ اس میں شامل ہو جائے گا تو تحقیقات خود بخود قابل اعتبار قرار پائیں گی۔
اسرائیل کے ان اقدامات نے ایشیائی سلامتی کی کانفرنس کا ماحول اس وقت بالکل تبدیل کر دیا اور اس میں شریک تمام ممالک اسرائیل کے خلاف ہو گئے جب انہیں جارحیت کا علم ہوا۔ یہ کانفرنس استنبول میں ہو رہی تھی۔ اسرائیل بھی اس کانفرنس کا رکن تھا۔ ترکی نے اس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ اس جارحیت کا بین الاقوامی سطح پر نوٹس لیا جائے اور اسرائیل کے خلاف مکمل اور بھرپور تحقیقات کی جائیں۔ کانفرنس میں شریک ایران کے صدر احمدی نژاد نے اس موقع پر ایک پریس کانفرنس میں ترکی کی حمایت میں کہا کہ اس نے صہیونیت کے اندر جا کر اسے للکارا ہے اور اسرائیل نے جو کچھ کیا ہے اس نے اس کے زوال کا آغاز کر دیا ہے۔ اب اسرائیل کے ساتھ رہنے اور اس کا ساتھ دینے پر کوئی تیار نہیں ہے۔ اس کانفرنس میں شریک ہر ملک نے اسرائیل کی اس کی موجودگی میں مذمت کی۔ اس طرح کا تجربہ اسرائیل کو پہلی بار ہو رہا تھا۔ ترکی کے صدر عبداللہ گل نے کانفرنس کے چیئرمین کی حیثیت سے اپنے خطاب میں کہا کہ ایشیا میں اعتماد کی بحالی اور باہمی تعلقات کی اس کانفرنس کا پیغام یہ ہے کہ ترکی کے خلاف اپنے اقدام کا خمیازہ اسرائیل کو ہر صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ اس کی بحریہ کا جارحانہ اقدام بلاوجہ تھا اور اس کی کسی طرح سے کوئی ضرورت نہیں تھی۔ کانفرنس کے اعلان میں اسرائیل کے خلاف سخت الفاظ شامل نہ کیے جا سکے کیونکہ اسرائیل رکن تھا اور اس کی موجودگی میں ایسا ممکن نہ تھا۔ اس کا حل ترک حکومت نے یہ نکالا کہ اس نے بالخصوص سرکاری بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اسرائیل کی مذمت ہر مہذب قوم کا فرض ہے۔ عبداللہ گل نے اپنے کلیدی خطاب میں بھی کہا کہ دنیا کے ہر ملک کو چاہیے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کو جوہری ہتھیا روں سے پاک خطہ بنانے کے لیے کوششوں کا ساتھ دے۔ اسرائیل پر دباؤ ڈالے کہ وہ این پی ٹی پر دستخط کرے اور اس کی جوہری تنصیبات کو بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی کی نگرانی میں دیا جائے۔ روس کے وزیراعظم ولادی میر پوٹن نے بھی ترک جہاز پر اسرائیل کے حملے کو ناقابل قبول قرار دیا اور کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے عالمی تشویش میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ ضرورت ہے کہ شک و شبہ سے پاک مکمل تحقیقات کی جائیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ترکی سے روس تک گیس پائپ لائن کو اب اسرائیل تک وسعت نہیں دی جائے گی۔ جو سابقہ معاہدے کے مطابق دی جانے والی تھی۔
نیویارک میں یہودی تنظیموں کے صدور کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل کے وزیرخارجہ ایوگڈور لائبرمین نے کہا ہے کہ ترکی جس قدر اسرائیل کے خلاف آگے جا چکا ہے، اس کے بارے میں یہ سوچنا سراسر غلطی ہو گی کہ وہ کسی اقدام سے واپس آ جائے گا۔ اب ترکی کے رویوں کو اسرائیل کے بارے میں تبدیل کرنا ممکن نہیں ہے۔ لائبرمین نے کہا کہ ترکی کے رویے میں تبدیلی کے مشرقِ وسطیٰ میں وسیع تر سفارتی تبدیلی سے گہرے روابط ہیں۔ ٹونی بلیئر نے ترکی کے رویے کے بارے میں چینل دس پر اپنے انٹرویو میں کہا کہ یہ بہت قابل تشویش معاملہ ہے۔ اب ترکی کے تعلقات کو دوبارہ بہتر بنانے کے لیے پل بنانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کی طرف سے ترکی کو رکنیت دینے سے مسلسل انکار نے یہ کیفیت پیدا کی ہے۔ ترکی کی موجودہ پالیسی یورپ کے اس کے خلاف رویوں کا ردّعمل ہے۔
غزہ کی ناکہ بندی اور اس کے خلاف ردّعمل منظم ہونے میں ترک فلوٹیلا کا کردار اس وقت مزید سامنے آیا جب سپین نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی ختم کرے۔ سپین کے وزیر خارجہ موریٹینو نے کہا کہ وہ یورپی رہنماؤں کو آگاہ کریں گے کہ اس ناکہ بندی سے دنیا بھر میں اسرائیل کی مخالفت بڑھ گئی ہے اور اس کے خلاف سخت اقدام کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے دیگر ممالک بھی اس مطالبہ کی حمایت کرنے لگے ہیں کہ غزہ کی تین سالہ ناکہ بندی ختم کی جائے۔ اس معاملہ میں برطانوی حکومت کا رویہ مختلف ہے، اس کا دباؤ ناکہ بندی کے خاتمے کے لیے نہیں ہے۔ وہ صرف اس میں نرمی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس کے وزیر برائے مشرقِ وسطیٰ ایسٹربرٹ نے کہا ہے کہ ہر کام کو آہستہ اور تھوڑی مقدار میں ہونا چاہیے۔ ناکہ بندی بھی اسی اعتبار سے نرم کی جائے۔
ادھر اسرائیل نے فرانس کی یہ تجویز بھی مسترد کر دی ہے کہ یورپی یونین کی افواج کو یہ ٹاسک دے دیا جائے کہ وہ غزہ جانے والے بحری جہازوں اور قافلوں کی تلاشی لے تاکہ ان میں کوئی ایسی چیز نہ لے جائی جا سکے جس سے اسرائیل کو نقصان پہنچ سکتا ہو۔ فرانس کے وزیر خارجہ برنارڈ کوچنر نے اسرائیل کے ردّعمل کو منفی قرار دیا اور کہا کہ سپین کو یونین کے چیئرمین کی حیثیت سے اس نکتے پر کام کرنا چاہیے۔ ایک اور تجویز یہ دی جا رہی ہے کہ یورپی یونین کے سرحدی مشن کو مصر کے ساتھ رفاہ کی سرحد پر توسیع دے دی جائے۔ اس نوعیت کا مشن 2007ء میں ختم کر دیا گیا تھا جب حماس نے غزہ میں انتخابات جیت کر حکومت بنا لی تھی تاہم یورپی رہنماؤں کے متضاد اور مختلف بیانات سے ماہرین یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ اس نوعیت کی کوشش کی جا رہی ہے کہ نئے نئے اقدامات تجویز کر کے ہر قدم کو بے وقعت اور بے حیثیت کر دیا جائے تاکہ یہ تاثر بھی نہ ہو کہ یورپ خاموش رہا اور یہ بھی بات رہے کہ اسرائیل کا تحفظ بھی کر لیا گیا ہے۔
بشکریہ ہفت روزہ ایشیاء